خطوط آزاد

رفیع الزمان زبیری  اتوار 14 جون 2020

مالک رام نے مولانا ابوالکلام آزاد کے کچھ خطوط جو پچھلی صدی کے ابتدائی پچاس سال میں انھوں نے مختلف شخصیتوں کو لکھے تھے، جمع کیے، انھیں مرتب کرکے، حواشی لکھے اور انھیں ’’خطوط آزاد‘‘ کے عنوان سے شایع کیا۔

وہ لکھتے ہیں کہ مولانا کے خطوط مختلف علوم کا بیش بہا ذخیرہ ہیں۔ ان میں بیشتر علوم اور دینیات، تاریخ اور انشا وغیرہ سے متعلق ان کے وسیع مطالعے، قدرت کلام اور غور و فکر کے نتائج کے مظہر ہیں۔ انھوں نے اپنے خطوط سے وہی کام لیا جس طرح کا کام ایک ماہر نفسیات، ایک مورخ اور ایک انشا پرداز اپنے علم اور قلم سے لیتا ہے۔ کسی جگہ حروفِ صلیبہ کی داستان لکھی ہے توکسی جگہ ہستی باری تعالیٰ پر دلائل فراہم کرنے کی کوشش کی ہے، ایک جگہ فلسفہ تنہائی پر رائے زنی کی ہے اور دوسری جگہ انانیت کا تجزیہ کیا ہے۔

’’خطوط آزاد‘‘ بھی اس لحاظ سے ان تحریروں سے کم اہم نہیں جو ’’غبار خاطر‘‘ میں شامل ہیں۔ ان خطوط سے مختلف مسائل پر ان کے خیالات کا اظہار ہی نہیں ہوتا، ان کی داستان زندگی کی تکمیل میں بھی بہت مدد ملتی ہے، خاص طور پر ان کی عادات اور خصائل کا باب پورا کرنے کے لیے ان میں خاصا مواد ہے۔ محمد یوسف جعفری رنجور کے نام ایک خط میں مولانا ابوالکلام آزاد اپنی پیدائش اور ابتدائی زندگی کا حال لکھتے ہیں ’’میرا نام محی الدین ہے۔

1303 ہجری میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوا۔ میرے والد خیرالدین دہلی کی قدیم سوسائٹی کی یادگار ہیں جن کا خاندان بغداد سے پنجاب آیا، پنجاب سے شاہ عالم کے زمانے میں دلی پہنچا۔ غدر سے پہلے میرے والد دلی سے بمبئی آئے اور بمبئی سے مکہ معظمہ چلے گئے، میں وہیں پیدا ہوا۔ میری والدہ کا نام زینب تھا۔ میرے والد جہاں گئے وہ ساتھ رہیں۔ اس میں شک نہیں میرے والد کو میری والدہ سے بہت محبت اور الفت تھی۔

1304 ہجری میں یکایک والدہ کو ہندوستان کے مشہور مقامات دیکھنے کا شوق ہوا۔ والد صاحب کو بھی حب الوطنی نے اس سفر پر آمادہ کر لیا۔ وہ بمبئی واپس آئے اور اجمیر، اکبر آباد وغیرہ کی سیر کرتے ہوئے کلکتہ پہنچ گئے۔ یہاں پہنچے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ میری والدہ یکایک سخت بیمار ہوگئیں اور دو ہفتے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ والدہ کا انتقال ایسا نہیں تھا جو والد کو غمگین و ملول نہ کرتا۔ انھی دنوں کلکتہ کی بڑی بڑی مساجد میں ان کا ہر جمعہ کو وعظ ہوتا۔ لوگ جوق درجوق ان کے مرید ہو رہے تھے۔

’’خطوط آزاد‘‘ میں سب سے زیادہ کوئی ایک سو اسی خط مولانا غلام رسول مہر کے نام ہیں۔ یہ خطوط بہت اہم ہیں۔ ان میں صحافتی، دینی، سیاسی اور تاریخی وغیرہ مسائل پر مولانا آزاد نے اتنی تفصیل سے لکھا ہے کہ ہر جگہ مسئلے کے تمام پہلو روشن ہوگئے ہیں۔ مولانا مہر کے نام ایک خط میں اس کا ذکر کرتے ہوئے کہ غالب نے تیرہ برس کی عمر میں شعرکہنا شروع کردیا تھا اور اپنی ندرت اورغیر معمولی پن کی وجہ سے اس کا چرچا لوگوں میں ہونے لگا تھا، مولانا آزاد لکھتے ہیں ’’ اس طرح کے تذکروں میں خود اپنا حال بیان کرنا ٹھیک نہیں لگتا لیکن محض رفع غرابت کے لیے لکھتاہوں کہ خود میں نے اسی عمر میں شاعری شروع کردی تھی۔

میری نثر نویسی کا آغاز بھی اسی عمر میں ہوا ہے۔ غالباً 1900 یا 1901 کی بات ہے، بمبئی سے حکیم عبدالحمید فرخ نے جو ’’ پنج بہادر‘‘ نکالا کرتے تھے، ایک گلدستہ ’’ارمغاں فرخ‘‘ کے نام سے نکالا اور کلکتہ کے بعض شعرا اس کی ماہوار طرحوں پر مشاعرہ کرنے لگے۔ ایک مرتبہ اس کی طرح تھی: ’’پوچھی زمین کی، توکہی آسمان کی‘‘ میں نے گیارہ شعر کی غزل لکھی، تین شعر ان مزخرافات کے اب تک ذہن نے ضایع نہیں کیے ہیں:

نشتر بدل ہے آہ کسی سخت جان کی

نکلی صدا، تو فصد کھلے گی زبان کی

گنبد ہے گرد بار، تو ہے شامیانہ گرد

شرمندہ میری قبر نہیں سائبان کی

آزادؔ بے خودی کے نشیب و فراز دیکھ

پوچھی زمین کی، تو کہی آسمان کی

یہ اشعار اب کس قدر لغو معلوم ہوتے ہیں لیکن اس وقت انھیں لغویات نے لوگوں کو حیران کردیا تھا۔ اس زمانے میں مرزا غالب کے ایک شاگرد، نادرشاہ خاں شوخی کلکتہ میں مقیم تھے انھیں کسی طرح یقین نہیں ہوتا تھا کہ جو غزلیں میں سناتا ہوں میری کہی ہوئی ہیں۔ کہتے تھے ’’خدا کی قسم عقل باور نہیں کرتی۔‘‘

مولانا آزاد لکھتے ہیں کہ پھر اسی زمانے میں نثرکی طرف طبیعت مائل ہوئی۔ ’’مخزن‘‘ نیا نیا نکلا تھا، اس میں چند تحریریں بھیجیں اور بالاالتزام مضامین نویسی ہونے لگی۔ پھر خیال آیا کہ یہ کافی نہیں ایک رسالہ خود نکالنا چاہیے۔ چنانچہ ’’ لسان الصدق‘‘ جاری کیا۔ اس وقت میری عمر پندرہ سولہ برس سے زیادہ نہ تھی۔ اسی زمانے میں تقریرکی طرف بھی طبیعت مائل ہوئی۔ سب سے پہلی تقریر میں نے 1903 میں کی، اس وقت میری عمر پندرہ تک پہنچی تھی۔ دوسرے سال انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں شریک ہوا اور تقریر کی۔ اس وقت سولہ برس کی عمر تھی۔

ایک اور خط میں مولانا آزاد لکھتے ہیں ’’افسوس ہے کہ زمانہ میرے دل و دماغ سے کام لینے کا کوئی سامان نہ کرسکا۔ غالب کو تو صرف ایک شاعری ہی کا رونا تھا، نہیں معلوم میرے ساتھ قبر میں کیا کیا چیزیں جائیں گی۔ بعض اوقات سوچتا ہوں تو طبیعت پر حسرت و الم کا ایک عجیب عالم طاری ہوجاتا ہے۔ مذہب، فنون، ادب، انشا، شاعری، کوئی وادی ایسی نہیں ہے جس کی بے شمار نئی راہیں مبدا فیاض نے مجھ نامراد کے دماغ پر نہ کھول دی ہوں اور ہر آن اور ہر لحظہ نئی نئی بخششوں سے دامنِ دل مالا مال نہ ہوا ہو۔ ہر روز میں اپنے آپ کو عالمِ معنی کے ایک نئے مقام پر پاتا ہوں اور ہر منزل کی کرشمہ سنجیاں پچھلی منزلوں کی جلوہ طرازیاں ماند کردیتی ہیں، لیکن افسوس، جس ہاتھ نے فکر و نظر کی ان دولتوں سے گرانبارکیا، اس نے شاید سروسامانِ کار کے لحاظ سے تہی دست رکھنا چاہا۔ میری زندگی کا ماتم یہ ہے کہ اس عہد اور محل کا آدمی نہ تھا مگر اس کے حوالے کردیا۔‘‘

اپنی سوانح عمری لکھنے پر اصرارکیا گیا تو مولانا غلام رسول کو ایک خط کے جواب میں لکھتے ہیں۔ ’’آپ کو اپنی محبت اور اخلاص کی وجہ سے جس بات کا خیال ہوا ہے، یہ بات بارہا بعض دوستوں اور عزیزوں کے سامنے آئی اور وہ نہایت مصر بھی ہوئے لیکن میری طبیعت کی آشفتگی ساتھ نہ دے سکی۔ اس بارے میں طبیعت کی افتاد کا یہ عالم ہے کہ اخبار والوں، ڈائریکٹری والوں کی طرف سے صرف چند سطروں کے مواد کا بھی تقاضا ہوتا ہے تو اس کے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔ اصل یہ ہے کہ اس معاملے کے لیے قدرتی راہ یہی ہے کہ موت کا انتظار کیا جائے۔ جب تک میری زندگی میرے اور لوگوں کے درمیان حائل ہے شاید وہ میرے لیے کچھ نہیں کرسکتے یعنی میرے حالات زندگی نہیں لکھ سکتے۔ صحیح وقت اس کا میرے بعد آئے گا۔ کیوں نہ اس کا انتظار کیا جائے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔