اسمارٹ، ویری اسمارٹ !

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین  پير 15 جون 2020

کوئی چاہتا ہی نہیں ہے کہ معاشرہ تبدیل ہوجائے،کسی کے تصورات کی اوقات وبساط ہی نہیں کہ وہ پاکستان میں ایسے ’’پاک‘‘ خیالات کے ساتھ جینے کی تمنا کرے، ایک غلیظ، بد بودار اور تعفن زدہ معاشی نظام کے ساتھ ہم ایک ’’بہترین معاشرے‘‘ کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، کتنے بے وقوف اورگم گشتہ جہالت کی دھندلی تصویر ہیں ہم ! جانتے بوجھتے اُسی بے حیا اشرافیہ اور بدکردار کرداروں کے ساتھ سانسیں لینے کے متمنی ہیں جو حیات کی ڈورکاٹنے کے لیے نظریہ ضرورت کی تیز چھریاں لیے بیٹھے ہیں…

کامل یقین ہونے کے باوجود کہ بداعمالیوں کا منبع ومحور یہی مٹھی بھر بدطینت وبدعنوان نما انسان ہیں ہم اِن ہی کو نیا عنوان دے کر اِن کی بدنمائیوں اور اپنی خودنمائیوں کی نئی تعمیر کرتے ہیں… جو خود ایک بوجھ ہوں وہ پشت پر سے بوجھ نہیں اُتارتے بلکہ خنجرگھونپنے کے لیے گھات لگائے تیار ہوتے ہیں… یہ موقع کے منتظر وہ مالی نہیں کہ جسے باغ کے چھوٹے چھوٹے پودوںکو توانا کرنے کے لیے میونسپلٹی  کے نلکے میں پانی آنے کا انتظار ہوتا ہے بلکہ یہ وہ موقع پرست ہیں جو باری کے بعد اپنی ہی باری کی پھر سے باری کا باری، باری انتظارکرتے ہیں کیونکہ چہرہ کسی کا بھی ہو باری بہرحال صرف اِن ہی کی ہوتی ہے…

سطح پر تیرتے ہوئے یہ سطحی مشورے دینے والے جانگلوس لاک ڈاؤن کے لیے بھی سخت یا نرم کی اصطلاحات استعمال کر کے اب اِسے اتنا ’’اسمارٹ‘‘ بنا چکے ہیں کہ وہ اپنے طریقوں پر ’’اسمارٹلی‘‘ چلتے ہوئے  وہی کچھ کر رہا ہے جو اُسے کرنا چاہیے… آج تک ہم ایک سخت ترین لاک ڈاؤن نہ کرسکے جوکاش کہ اگر ہم صرف ایک بار یکسو ہو کر، مل کر اور صوبائی اجتماعیت کا مظہر بن کرکر لیتے تو پندرہ دن یا دس دن کی توسیع، پانچ دن کی نرمی یا چارگھنٹوں کی نرمی جیسے ’’القاعدہ مشوروں‘‘سے محفوظ رہتے… ہاں جانتا ہوں کہ بہت زور سے بے حیا اشرافیہ کی آواز آئے گی کہ ’’کیا سب بھوک سے مرجائیں؟ لوگوں کے روزگار چھین لیے جائیں؟ گھر پر بیٹھے ہوؤں کو تم کھلاؤگے؟ مکمل لاک ڈاؤن سے فاقوں کی نوبت آجائے گی؟‘‘ مگر حضورِ والا ! مساجد کو محدود پیمانے پر کھولنے کی ایس او پیز بنا کر دینے والے، اُن بازاروں کو ایس او پیز کے مطابق بند کیوں نہ کرواسکے جنھیں عیدپر خریداری کے لیے یوں کھلوایا گیا تھا کہ جیسے کورونا کان میں چپکے سے کہہ کر گیا ہو’’میں بھی وائرسوں کی عید منانے جارہا ہوں،ملتے ہیں بریک کے بعد‘‘… اور پھر بریک کے بعد پھر ایک نیا ’’آؤٹ بریک‘‘ سامنے کھڑا تھا…

بس کیجیے تہذیب کی باتیں! ختم کیجیے چھابڑی کا شور! طے کر لیجیے قوم بچانا ہے یا چند افراد؟…کہے دیتا ہوں ’’سخت ترین فیصلے کے سوا کوئی چارہ نہیں‘‘…کانوں میں روئی ٹھونس لیں کیونکہ آوازیں آئیں گی ’’ہمارے ملک کی معیشت اتنی مضبوط نہیں کہ مکمل اور بے رحم لاک ڈاؤن کے متحمل ہوسکیں‘‘… طبیب کوکبھی کبھی بے رحم بننا پڑتا ہے… غفاروغفور نے قہار و جبارکی صفاتِ جلالت سے ہم سب کو یہ امر ربی دیا ہے صرف کشتی میں بیٹھ کر دریا عبورکرنا مت سیکھو،پیرتے ہوئے شل بازوؤں کے ساتھ اگر کنارے تک جانا پڑے تو کبھی چُوکنا نہیں……. اسفارِ حیات آسان راستوں کی پر کیف منازل کا نام نہیں بلکہ پر تکان راہوں پر گھڑی بھر پڑاؤ کی منازل کو زندگی کا سفر کہا جاتا ہے… اگر اب بھی یہ سفاک فیصلہ نہیں کیا، اگر اب بھی ریڑھی فروش اور ملازمت پیشہ کی مصنوعی فکر میں مستغرق رہے تو پھر اُن کے لاشے اُن کے گھر والوں کے پاس ’’آخری دیدار‘‘کی خاطر لے جانے کا بھی انتظام کرالیجیے گا۔

یہ جو ایک ہجوم باہر نکل پڑا ہے،یہ جو ایک جم غفیرکورونا کو مذاق سمجھے تماش بینوں کی صف میں کھڑا ہے،اِنہیں آج نہیں تو کل خاکم بدہن خود ایک سانحہ بننا پڑے گا اور اِس کا ذمے دار وہ اسمارٹ لاک ڈاؤن ہوگاجو صرف اسمارٹ نہیں ویری اسمارٹ ہے… صرف ایک ماہ کے لیے پورا پاکستان بے رحمی سے بند کر دیجیے ورنہ یاد رکھیے کہ کورونا،جنگل کی وہی پرانی کہانی والا پرانا شیر ہے جو روز ایک جانورکو اُس کی مرضی سے کھاجاتا تھا، اِس شیر کو لاک ڈاؤن کے کنویں کے سامنے لے جاکر اُس میں ایک اورکورونا کا عکس دکھانا ہوگا تاکہ کہانی ختم ہوسکے… باقی جو مرضی جناب کی !!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔