’کورونا‘ کے خلاف خاتون حکم رانوں کی کامیابیاں۔۔۔

ابنِ صابر  منگل 16 جون 2020
وبا کے خلاف نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم کی فتح دنیا بھر کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ فوٹو: فائل

وبا کے خلاف نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم کی فتح دنیا بھر کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ فوٹو: فائل

بھلے ہی خلا سے دیکھنے پر کرہ ارض اپنے مدار پر محو حرکت نظر آتی ہو، لیکن زمینی گولے کے اندر اِن دنوں زندگی اپنی ڈگر پر معمول کی طرح رواں دواں نہیں۔۔۔ تھم سی گئی ہے اور کسی اَن جانے سے خوف میں خاموش ہے۔۔۔ یہاں امید اور خوف کی جنگ جاری ہے، جیت کس کی ہوگی اور کب ہوگی۔۔۔ کسی کو کچھ خبر نہیں۔

دنیا بھر میں کورونا وائرس کی ہلاکت خیزیاں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں، کہیں یہ اپنے عروج پر ہے، تو کسی ملک میں اگلے چند ماہ میں ہونے والی ریکارڈ اموات کا خطرہ منہ کھولے کھڑا ہے۔ عالمی قوتیں اور عالی دماغ اس عفریت کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ صنعتوں کا پہیا جام ہے، تعلیمی ادارے بند ہیں، ذرایع آمد و رفت معطل ہیں اور ہر طرف خوف کا راج ہے۔

صدارتی انتخابات کے باعث امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ماتھے پر آنے والے سلوٹیں دراصل تاجر طبقے کی ناراضی اور ووٹروں کا اعتماد کھو جانے کا خوف ہے۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن تو خود روبہ صحت ہوگئے ہیں، لیکن اِن کا ملک اب بھی اس وائرس کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ بھارت میں معاملات مودی سرکار کے ہاتھوں سے نکلتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں۔

ایسا نہیں کہ صرف جمہوری ممالک کی کورونا وائرس کے آگے دال نہیں گلی، اس وائرس نے ’’ملٹری رول‘‘ کو بھی للکارا اور کئی محاذوں پر شکست بھی دی۔ اسی طرح یہ انصاف پسند وائرس بادشاہوں کا درباری بھی ثابت نہیں ہوا۔ خلیجی ممالک جہاں بادشاہت قائم ہے، وہاں اب اس وائرس کا راج ہے۔

غالباً 1997ء کی بات ہے، جب ایک بھارتی فلم میں معروف اداکار نانا پاٹیکر کا ڈائیلاگ ’’سالا ایک مچھر انسان کو ہیجڑا بنا دیتا ہے!‘‘ کافی مقبول ہوا تھا۔ آج بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے کہ بڑے بڑے ’بت‘ ایک چھوٹے سے وائرس کے آگے زمین بوس ہورہے ہیں۔

ایسے میں ایک کھلکھلاتا ہوا چہرہ، جیت کی خوشی سے لبریز مسکراہٹ کے ساتھ جلوہ افروز ہوتا ہے اور دنیا کو کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں فتح کا مژدہ سناتا ہے۔ یہ نیوزی لینڈ کی دھان پان سی وزیراعظم اور ’فاتحِ کورونا‘ جسینڈا آرڈن ہیں۔ نیوزی لینڈ میں ’کووِڈ 19‘ یعنی کورونا کا اب ایک بھی مریض نہیں۔ اس لیے مقامی سطح پر لاک ڈاؤن کو مرحلہ وار ختم کیا جا رہا ہے، تاہم عالمی پروازیں اب بھی بند رہیں گی۔ سخت اور فوری اقدام کی وجہ سے نیوزی لینڈ میں صرف 11 سو 53 افراد اس مہلک وائرس سے متاثر ہوئے اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد 22 تک محدود رہی۔

’کورونا وائرس‘ کی جائے پیدائش چین ہے، تاہم وہاں اس وبا پر قابو پالیا گیا ہے، لیکن چین سے نکل کر اب بھی یہ وائرس انسان سے انسان کو منتقل ہوتا ہوا تقریباً دنیا کے تمام ہی ممالک میں پنجے گاڑ چکا ہے۔ چین کے بعد کورونا وائرس کو شکست دینے والا ملک امریکا، برطانیہ، جاپان، فرانس یا جرمنی نہیں بلکہ حیران کن طور پر یہ کارنامہ ایک چھوٹے سے ملک نیوزی لینڈ نے انجام دیا ہے۔

نیوزی لینڈ میں کورونا وائرس کو شکست جواں سال وزیراعظم کی قائدانہ صلاحیتوں کے مرہون منت ہی نہیں، بلکہ اس میں ملک کے جغرافیے، آبادی، بلند شرح تعلیم اور عوام کی قربانیاں بھی شامل ہیں تاہم جسینڈا آرڈن کی روزِ اول سے کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں واضح اہداف کے حصول میں کھری پالیسی کے ساتھ مکمل دل جمعی اور اعتماد سے آگے بڑھتے رہنے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

لگ بھگ 50 لاکھ آبادی والا جزیرہ نیوزی لینڈ دو بڑے زمینی ٹکڑوں پر مشتمل ہیں جنہیں شمالی اور جنوبی جزیرہ کہا جاتا ہے، جب کہ ان کے علاوہ بھی کئی چھوٹے جزیرے اس ریاست کا حصہ ہیں۔ اپریل کے پہلے ہفتے میں کورونا وائرس کا پہلا مریض سامنے آنے پر سب سے پہلے بیرون ملک پروازوں اور زمینی سرحدوں کو آمد و رفت کے لیے بند کر دیا گیا، جس کے بعد مقامی سطح پر بھی وزیراعظم جسینڈا آرڈن نے سخت لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا، جو وبا کے اختتام تک یعنی سات ہفتے جاری رہا۔

جزیرہ نما ہونے کی وجہ سے نیوزی لینڈ کو دنیا کے دیگر ممالک سے خود کو دور کرنے میں آسانی رہی، آبادی بھی بہت زیادہ نہیں تھی اور بالغوں میں شرح تعلیم 99 فی صد تک ہے۔ عوام نے لاک ڈاؤن کے دوران نہایت صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور اپنی حکومت کے شانہ بہ شانہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں حصہ لیا اور کام یابی حاصل کی۔ یہ خصوصیات بھی نیوزی لینڈ کو دیگر ممالک سے ممتاز کرتی ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں جب نیوزی لینڈ کی وزیراعظم اور عوام نے دنیا بھر کو حیران کر دیا ہو، 15 مارچ 2019ء کا دن بھی نیوزی لینڈ کے باشعور شہریوں کے لیے ایک امتحان تھا، جب ایک سفید فام جنونی آسٹریلوی نوجوان برینٹن ہریسن ٹیرنٹ نے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں نماز جمعہ کے وقت اندھا دھند فائرنگ کر دی تھی، جس کے نتیجے میں 50 نمازی شہید اور 45 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

اس دل دہلا دینے والے واقعے سے پوری دنیا کے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی، خود ’کیوی‘ یعنی نیوزی لینڈ کے باسی بھی دہشت گردی کے اس واقعے پر چونک اُٹھے تھے، کیوں کہ وہاں جرائم کی شرح بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس موقع پر جسینڈا آرڈن نے خود لواحقین سے ملاقات کی، ہم دردی کا اظہار کیا، معافی مانگی اور ہر طرح کا خیال رکھا۔ ان کا کردار ایسا ہی تھا جیسے ایک ’’ماں کی طرح ریاست‘] کا ہونا چاہیے۔

دوسری جانب نیوزی لینڈ کے شہری بھی بلا تفریق رنگ و نسل اور مذہب مسلمانوں کی دل جوئی کے لیے نکل آئے، مساجد کھلوائیں اور نماز جمعہ کے اجتماعات کی خود پہرہ داری کی۔ کیوی وزیراعظم اور عوام نے اپنے کردار سے ثابت کر دیا کہ ایک جنونی دہشت گرد کی پست ذہنیت کا نیوزی لینڈ سے کوئی تعلق نہیں۔ پارلیمان نے اسلحہ رکھنے کے قوانین میں ترمیم کیں۔ خودکار اور بڑا اسلحہ واپس لے لیا گیا اور سفاک قاتل کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔

جسینڈا آرڈن اس واقعے کے بعد پوری دنیا کے سامنے ہم دردانہ رویے، قانون کی عمل داری اور متحرک وزیراعظم کی طور پر ابھریں اور اپنی قوم کے وقار اور سر بلندی کا باعث بنیں۔ ایک سال بعد پھر جسینڈا آرڈن اور کیویوں نے کورونا وائرس کو شکست دے کر پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرلیا ہے۔

نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم جسینڈا آرڈن کے ساتھ ساتھ دیگر کئی خواتین حکمرانوں نے بھی کورونا وائرس کی جنگ میں حیرت انگیز نتائج دیئے ہیں۔ جن میں تائیوان، فن لینڈ، ناروے، ڈنمارک، جرمنی، آئس لینڈ اور بھارتی ریاست کیرالہ کی خاتون  وزیر صحت شیلجہ شامل ہیں، جنہوں نے کورونا وائرس کا مردانہ وار مقابلہ کر کے مرد حکمرانوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔

نیوزی لینڈ کے مقابلے میں چین کے پڑوسی ملک تائیوان کی صدر سائی اِنگ وین کو بے پناہ مشکلات کا سامنا تھا، تائیوان چین کے صوبے ہوبی سے بہت نزدیک واقع ہے، جو کورونا وائرس کا گڑھ تھا اور جس کی وجہ سے ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ تین کروڑ کے لگ بھگ آبادی رکھنے والے تائیوان میں اس مہلک وائرس سے بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوگا اور معیشت تباہ ہو جائے گی لیکن خاتون صدر کی موثر حکمت عملی نے وائرس کو بے لگام نہ ہونے دیا۔

خیال تو یہ کیا جا رہا تھا کہ چین کے مقابلے میں تائیوان میں کورونا وائرس سے متاثرین اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہوگی لیکن تھوڑی ہی دوری پر جنم لینے والا اور سبک رفتاری سے پھیلنے والا وائرس پڑوسی ملک تائیوان میں صرف ایک ہزار افراد کو متاثر کر سکا اور صرف سات افراد لقمہ اجل بنے۔

تائیوان کی خاتون صدر سائی ان وین نے جنوری میں ہی یہ خطرہ بھانپ لیا تھا، جب کورونا وائرس نے چین ہی میں سر اُٹھایا تھا۔ انہوں نے فوری طور چین، مکاؤ اور ہانگ کانگ سے آنے اور جانے والی پروازیں بند اور ماسک اور دیگر طبی آلات کو برآمد کرنے پر پابندی عائد کر دی۔

تائیوان نے 2003ء میں مہلک وبا ’سارس‘ کے بعد ایک قومی صحت کمانڈ سینٹر تشکیل دیا تھا، جس کا مقصد آئندہ آنے والی آفات اور وباؤں کے لیے تیاری کرنا تھا، تاکہ مستقبل میں کسی وبا کے نتیجے میں ’سارس‘ جیسی بحرانی کیفیت پیدا نہ ہوں۔ یہ ادارہ وبا کی وجہ، مرض اور مریض سے متعلق اعداد و شمار جمع کرتا ہے، جس کی روشنی میں ماہرین کی مختلف ٹیمیں سدباب کے لیے کام کرتی ہیں۔

تائیوان کی صدر سائی انگ وین نے وبا کے تدارک کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال پر زور دیا، جس کے تحت قومی صحت انشورنس کے اعداد و شمار کو امیگریشن اور کسٹم سے حاصل ڈیٹا کے ساتھ ہم آہنگ کیا جس سے طبی عملے کو کورونا وائرس کی ٹیسٹنگ کٹس کے آنے سے قبل ہی مشتبہ مریضوں کی شناخت میں کافی مدد ملی۔

تائیوان میں ایئرپورٹ پر مسافروں کو ’’کیو آر کوڈ اسکین‘‘ کے ذریعے سفری معلومات اور بیماری کی اطلاع دینے کی سہولت بھی فراہم کی گئی۔ ان معلومات کے جواب میں مسافروں کو ایک ٹیسٹ میسج آتا جسے دکھانے پر کم خطرے والے مسافروں کو ایئرپورٹ سے باہر نکلنے کی اجازت دے دی جاتی اور مشتبہ مریضوں کو اسپتال بھیج دیا جاتا۔

تائیوان کی صدر نے ’سارس‘ کے بعد ہی سے حیاتیاتی طبی تحقیق میں سرمایہ کاری میں اضافہ کرنا شروع کر دیا تھا اور کورونا وبا کے دوران بائیو میڈیکل ٹیم نے بھرپور کردار ادا کیا۔ ایسے پروٹین کی نشاندہی کرنے والے اینٹی باڈیز تیار کیں، جو کورونا وائرس کا سبب بنتے ہیں۔ تیز رفتار اور مستند ٹیسٹ کٹس تیار کیں اور طبی عملے کو جدید ٹریننگ دیں۔

عوام نے اپنی صدر کا ساتھ دیتے ہوئے سخت سے سخت اقدام کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا اور کسی ایک بھی پابندی کی خلاف ورزی نہیں کی۔ حکومت کے ہاتھ مضبوط کیے اور ایک دوسرے کی ڈھارس بندھائی۔ ایک متحد قوم کی طاقت کیا ہوتی ہے، وہ نیوزی لینڈ اور تائیوان کی عوام کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے بھی نیوزی لینڈ اور تائیوان کی حکومتوں کے اقدامات کی تعریف کی اور اسے مشعلِ راہ قرار دیا۔ امریکی ماہرین بھی تائیوان کی کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں کام یابی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ تائیوان نے سب سے پہلے خطرہ بھانپ لیا اور صدر سائی اِنگ وین نے ایک بھی لمحہ ضائع کیے بغیر ’’کلیئر پالیسی‘‘ وضع کی۔

تائیوان کی صدر سائی انگ وین نے نہ صرف اپنے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے آگے بند باندھے رکھا، بلکہ وہ چاہتی ہیں کہ دنیا بھر سے اس وائرس کا نام و نشان مٹ جائے، جس کے لیے وہ دیگر ممالک کی مدد بھی کرتی ہیں اور حال ہی میں انہوں نے امریکا اور یورپ میں 10 ملین ماسک کا تحفہ بھجوایا ہے۔

بھارت میں مودی سرکار کی پالیسیوں سے کورونا وبا پر قابو تو نہ پایا جا سکا، البتہ بغیر منصوبہ بندی کے آناً فاناً لاک ڈاؤن لگانے کی وجہ سے حالات کافی بے قابو ہوگئے، فاقہ کشی کی نوبت آگئی اور اب تک 100 کے قریب مزدور شہروں سے اپنے گاؤں جانے کے لیے سواری نہ ملنے کے سبب مختلف واقعات میں حادثات کی نذر ہوچکے ہیں۔۔۔!

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ناکامی اپنی جگہ لیکن بھارتی ریاست کیرالہ کو کورونا وائرس کے خلاف موثر پالیسی اپنانے اور بہترین منصوبہ بندی کرنے کی وجہ سے عالمی ادارہ صحت اور طبی ماہرین کی جانب سے کافی سراہا جا رہا ہے۔ تین کروڑ سے زائد آبادی اور بھارت کی گنجان ترین ریاست میں پہلا مریض جنوری میں پہلا مریض سامنے آیا تھا۔

کیرالہ کی خاتون وزیر صحت شیلجہ نے اپنے لوگوں کو اس مہلک وائرس سے بچانے کا بیڑہ اُٹھایا، 31 جنوری کو ایئرپورٹ پر اسکریننگ سے پہلا مریض سامنے آنے پر 50 ہزار سے زائد اسکریننگ کے بعد صرف 50 مریض سامنے آئے، اس کے باوجود 3 فروری 2020ء کو صحت ایمرجینسی نافذ کر دی۔

لاک ڈاؤن سے قبل 200 بلین کا پیکیج منظور کرایا گیا، جس میں 10 بلین دیہی علاقوں میں بے روزگاروں کی مالی مدد کے لیے استعمال کیا گیا، پورے صوبے میں ایک ماہ تک مفت راشن دیا گیا۔ تربیت یافتہ 800 ڈاکٹروں کو ضلعی سطح پر تعینات کیا، 3 لاکھ 75 ہزار بچوں کو گھر پر غذا پہنچائی اور مفت ماسک تقسیم کیے۔

کیرالہ کی خاتون وزیر صحت کی محنت رنگ لائی اور اب تک صوبے میں کورونا وائرس صرف 2 ہزار 244 افراد کو متاثر کر سکا اور 18 افراد ہلاک ہوئے، جب کہ کیرالہ کے علاوہ دیگر بھارتی ریاستوں میں ’کووِڈ 19‘ کے مریضوں کی تعداد 3 لاکھ تک جا پہنچی ہے اور 8 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہیں۔

گویا دنیا بھر کی مختلف خاتون حکمرانوں نے ’مرد حکمرانوں‘ کو کھلا چیلنج دے دیا ہے اور اب دیکھنا ہے کہ اس مثبت مقابلے میں کون سا مرد حکمراں میدان میں آتا ہے اور مردوں کی ’لاج‘ رکھ پاتا ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔