اپوزیشن جماعتوں کی سیاست آل پارٹیز کانفرنسوں تک محدود

شاہد حمید  بدھ 17 جون 2020

 پشاور:  چونکہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے زیر اہتمام منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کو متحرک رکھنے اورملک اور صوبہ کی سطح پر پائے جانے والے ایشوز کے حوالے سے اپوزیشن کی جماعتوں کے نقطہ نظر میں یکسانیت پیدا کرنے اورحکومت پر دباوء بڑھانے کی غرض سے آل پارٹیز کانفرنسز کے انعقاد کا سلسلہ جاری رکھاجائے گا۔

اس لیے اسی تسلسل میں پیپلزپارٹی کی جانب سے اے پی سی کا انعقاد کیاگیا جس میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی صوبائی قیادت نے شرکت کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر بڑا اکٹھ کیا۔ پیپلزپارٹی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی اے پی سی میں ’جس کے میزبان پی پی پی کے صوبائی صدر انجنیئر ہمایون خان تھے‘ حزب اختلاف کی جماعتوں نے لگ بھگ وہی مطالبات دہرائے جو جے یوآئی کی اے پی سی میں کیے گئے تھے جنھیں دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ اپوزیشن کی یہ اے پی سیز صرف ماحول گرم رکھنے کا ایک بہانہ ہے۔ مطالبات اور تنقید سے نہ تو کچھ حاصل ہونے والا ہے اور نہ ہی حکومت کی صحت پر کوئی فرق پڑے گا۔

یقینی طور پراپوزیشن جماعتوں کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ کورونا وائرس وباء کے حوالے سے جو صورت حال اس وقت بنی ہوئی ہے اس میں نہ تو وہ کوئی جلسہ کرسکتی ہیں اور نہ ہی کوئی احتجاج تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جن ایشوز کے حوالے سے اپوزیشن جماعتیں ،حکومت کو تنقید کا نشانہ بنارہی ہیں ان میں قومی مالیاتی کمیشن کی ازسرنو تشکیل اور کورونا وائرس کے حوالے سے حکومتی پالیسی کو غلط قراردیتے ہوئے نئی پالیسی کی ترتیب جیسے معاملات پر عدالتوں کا رخ کیا جا سکتا ہے۔ عدالتوں کا رخ کرنے کے بجائے اے پی سیز کا انعقاد اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ،حکومت کے ساتھ سیاست ،سیاست کھیلنے کے موڈ میں ہیں یہی وجہ ہے کہ اب پیپلزپارٹی کے بعد اے این پی یا جماعت اسلامی ،آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اپوزیشن جماعتوں کواکٹھا کرسکتی ہیں۔

تاہم اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو بادی النظر میں ان سے اپوزیشن کو کسی قسم کا کوئی سیاسی فائدہ ملتا ہوا نظر نہیں آتا۔اپوزیشن جماعتیں اگراس معاملے کو اٹھان دینے کی خواہاں ہیں تو اس کے لیے انھیں ایسی اے پی سیز کے انعقاد کے لیے پشاور کی بجائے اسلام آباد کا انتخاب کرنا ہوگا۔ جہاں تک بات کورونا وباء سے نمٹنے کی ہے تو لگتا ہے کہ نہ صرف حکومت بلکہ عالمی ادارے بھی کنفیوژن کا شکار ہیں۔ یقینی طور پر پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک لاک ڈاون کا متحمل تو نہیں ہوسکتا اس لئے موجودہ حالات میں اس کے علاوہ کوئی چارہ دکھائی نہیں دے رہا۔

حکومت کی جانب سے لاک ڈاون کا خاتمہ اسی لیے کیا گیا تھا تاکہ عوام جو معاشی طور پر پس کررہ گئی ہے، اسے سپورٹ مل سکے اورعید کے موقع پربازار اور مارکیٹیں کھلنے کی وجہ سے یہ سپورٹ ملی بھی لیکن اب جس رفتار سے کورونا وائرس کے کیس سامنے آرہے ہیں اور جتنی اموات ہورہی ہیں انھیں دیکھتے ہوئے لگ رہا ہے کہ حکومت کو نہ چاہتے ہوئے بھی ایک مرتبہ پھر لاک ڈاون کی طرف جانا ہوگا۔

خود حکومتی وزیر اسد عمر کہہ رہے ہیں کہ ماہ جولائی کے اواخر تک کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد دس سے بارہ لاکھ تک پہنچ جائے گی جو انتہائی خطرناک ہوگا اس لیے اس تعداد میں کمی لانے کے لیے حکومت کو کڑوا گھونٹ پیتے ہوئے لاک ڈاون کی طرف جانا چاہیے۔

،اور ان ہی حالات میں مرکزی حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ پیش کردیاہے جونہ صرف یہ کہ خسارہ پرمشتمل ہے بلکہ ساتھ ہی سرکاری ملازمین بھی تنخواہوں میں اضافے سے محروم رہ گئے ہیں،چونکہ مرکزی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں اضافہ نہیں کیا اس لیے صوبائی حکومتیں بھی ممکنہ طور پر اسی پالیسی پر عمل کریں گی جس سے سرکاری ملازمین میں بہرکیف مایویسی پائی جاتی ہے۔

دوسری جانب خیبرپختونخوا حکومت کہ جس نے 2018ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعداپنے آٹھ ماہ کے پہلا بجٹ بھی سرپلس دیا اور جاری مالی سال کے لیے بھی فاضل بجٹ ہی پیش کیا، وہ اس وقت خسارے کا شکار ہے اور آئندہ مالی سال کے لیے خسارے کا بجٹ پیش ہونے جارہا ہے ،گوکہ تیکنیکی انداز میں خسارے پر قابو پانے اور بجٹ میں خسارے کو کم سے کم رکھنے کے لیے اپنے طور پر کوششیں کی جارہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف جاری سال کے لیے خیبرپختونخوا کو مرکز کی جانب سے کم مالی وسائل منتقل کیے گئے بلکہ آئندہ مالی سال کے لیے بھی صورت حال ایسی ہی رہے گی ۔

اس صورت حال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مرکزی ہو یاصوبائی حکومتیں ،ان کی تمام تر توجہ کورونا وائرس اور اس سے نمٹنے پر مرکوز ہے جس کی وجہ سے روایتی انداز میں ترقیاتی منصوبے اور سکیمیں پس منظر میں چلے گئے ہیں ،گوکہ مرکزی حکومت نے بھی پی ایس ڈی پی کا اعلان کیاہے اور صوبائی حکومتیں بھی اپنے ترقیاتی پروگرامز کا اعلان کریں گی لیکن اس کے باوجود ان کی توجہ کا محور کورونا وائرس کے آگے بندھ باندھتے ہوئے اس کی راہ روکنا ہے جس کے لیے وسائل کی فراہمی ضروری ہے تاہم اس کے ساتھ چونکہ دیگر معاملات بھی چلانے ہیں اور سال بھر کی آمدنی و اخراجات پر مبنی تخمینہ جات کی تیاری بھی ضروری تھی۔

اسی لیے بجٹ پیش کیے جا رہے ہیں،خیبرپختونخوا حکومت نہ چاہتے ہوئے بھی بجٹ میں خسارہ پیش کرنے پر مجبور ہے تاہم اس کے ساتھ یہ کام بھی کیاگیا ہے کہ صوبائی حکومت اپنے آئندہ مالی سال کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں ترقیاتی منصوبوں اور سکیموں کے حوالے سے جاری سکیموں کی تکمیل کو فوکس کیے ہوئے ہے اور نئی ترقیاتی سکیموں کی تعداد کم رکھی گئی ہے ۔

اس پالیسی کو اپنانے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صوبہ پر مالی دباو کو کم کیاجاسکے۔ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں معاملات طے پا گئے ہیں۔ اپوزیشن بجٹ منظوری کے سلسلے میں حکومت کا ساتھ بھی دی گی تاہم اپوزیشن کے لیے اصل مرحلہ اس کے بعد شروع ہوگا اور وہ ہوگا اس فارمولے کے مطابق فنڈز کا حصول ،کیونکہ یہ فارمولا پہلی مرتبہ منظر عام پر نہیں آیا بلکہ اس سے پہلے بھی اسی فارمولے پر اتفاق کیا گیا تھا تاہم عمل درآمد نہیں ہوسکا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔