جینا ہے یا مرنا؟ فیصلہ آپ کا!

مناظر علی  جمعـء 19 جون 2020
کورونا سے ہمیں ایک ہی چیز بچا سکتی ہے اور وہ ہے احتیاط۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کورونا سے ہمیں ایک ہی چیز بچا سکتی ہے اور وہ ہے احتیاط۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہمارے ہاں ہمیشہ یہ المیہ رہا ہے کہ ہم قبل از وقت آنکھیں کھلی رکھنے کے بجائے جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تو پھر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے ہیں۔ پھر خود کو مصیبت کا ذمے دار ٹھہرانے کے بجائے دوسروں پر سارا نزلہ گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر تب پھڑپھڑانے کا کیا فائدہ جب وقت ہی گزر گیا ہو۔ آج میں اس موضوع پر کچھ بات کروں گا کہ کورونا کی صورتحال میں ہم کس حد تک ذمے داری کا مظاہرہ کررہے ہیں اور پھر اس کے نتائج خطرناک آنے پر ہم ذمے دار کسے ٹھہرا رہے ہیں۔

مستقل قارئین جانتے ہیں کہ کورونا کے ابھی اِکا دُکا کیسز ہی پاکستان میں رپورٹ ہورہے تھے تب میں نے ایک بلاگ لکھا جس میں یہ بتایا تھا کہ کورونا کے اصل سہولت کار کون ہیں؟ بلاشبہ حکومت کو اپنی ذمے داری احسن انداز میں نبھانے کی ضرورت ہے اور وہ بار بار احتیاطی تدابیر اپنانے کی تنبیہ بھی کررہی ہے۔ مگر کیا بازو سے پکڑ کر اور ٹانگوں سے باندھ کر گھر بٹھانا بھی حکومت کی ہی ذمے داری ہے؟ سب کے علم میں ہے کہ عیدالفطر پر ہم نے کیا کچھ نہیں کیا؟ کیا وبا کے دنوں میں شاپنگ ضروری تھی؟ نئے کپڑے، نئے جوتے، چوڑیاں اور نجانے کیا کیا ہم نے خریدنا فرض اولین سمجھ لیا اور ہم سب مل کر کورونا کے ایسے سہولت کار بنے کہ عید کے دن جی بھر کر جپھیاں ڈالیں، جوق در جوق رشتے داروں کے ہاں عید ملنے بھی گئے۔

میں حکومتی اداروں کو بالکل اس معاملے میں بری الذمہ قرار نہیں دے رہا، نہ ہی دینا چاہیے۔ انہیں بھی اس قوم کا علم ہے۔ یہ ایسی قوم ہے کہ ہیلمٹ ان کی حفاظت کےلیے ضروری قرار دیا گیا ہے مگر یہ اپنی جانوں پر کھیل کر ہیلمٹ نہیں پہنتے اور جب سختی ہوتی ہے تو پھر ٹریفک وارڈنز کو برا بھلا کہتے ہیں۔ پھر وہ دن بھی دیکھا کہ کسی شخص کو ہیلمٹ سے استثنیٰ نہیں دیا گیا اور آج لاہور کی سڑکوں پر کوئی شخص ہی شاید ایسا ہو جو ہیلمٹ کے بغیر ہو، وہ بھی کہیں وارڈنز سے چھپ چھپا کر گزر جائے ورنہ ڈنڈے کے زور پر پولیس نے عوام کو ہیلمٹ کی عادت ڈال دی۔ ہم یہ سب خود بھی تو کرسکتے تھے۔ جب ٹریفک پولیس آگاہی دے رہی تھی کہ ہیلمٹ آپ کی ضرورت اس لیے ہے کہ یہ آپ کی جان کا محافظ ہے۔ مگر ہم نے پیار نہیں بلکہ مار کو سمجھا۔ بالکل کورونا کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ ہم پیار کی زبان نہیں سمجھ رہے۔ غلطیاں ہم خود کررہے ہیں اور ذمے دار صرف حکومت کو قرار دے رہے ہیں۔ جب دکانیں بند کرائی گئیں تو ہم نے شور مچایا کہ حکومت ہمیں بھوکا مار دے گی۔ ہمیں کورونا سے نہیں بھوک سے ڈر ہے۔ ہم کورونا سے تو نجانے مریں نہ مریں، بھوک سے مر جائیں گے۔ پھر یہی بھوکے ننگے لوگ لاک ڈاؤن کھلا تو عید کی خریداری کےلیے دکانوں پر ٹوٹ پڑے اور آج صورتحال سب کے سامنے ہے۔

یہ سلسلہ خود رکنا ہے۔ نہ حکومت کے ہاتھ میں جادو کی چھڑی ہے جو کورونا کو غائب کردے گی، نہ ہمارے پاس اس کا علاج ہے۔ نہ ہمارے پاس اتنا بجٹ ہے کہ صحت کی سہولت ہر شہری کو دے سکیں یا گھر بٹھا کر لوگوں کو کھلا سکیں اور سب دفاتر اور فیکٹریاں بند کردیں۔ ہمارے ہسپتال ابھی سے بھرچکے ہیں، اگر خدانخواستہ ہم نے سماجی فاصلہ، ماسک، جراثیم کش محلول سمیت دیگر احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل نہ کیا تو خدا جانے ہم میں سے کون ہوگا جو 2021 کا سورج طلوع ہوتا دیکھے گا؟

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کا بیان آپ نے بھی پڑھا اور سنا ہوگا. انہوں نے واضح انداز میں کہا ہے کہ کورونا کے معاملے پر ہم کچھ چھپانا نہیں چاہتے اور اعدادوشمار اس لیے بتائے ہیں تاکہ لوگوں کو پتا چلے کہ آنے والے دنوں میں کن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے کیسز کی تعداد کم ہوسکتی ہے۔

صاحبو! مجھے، آپ کو اور ہم سب کو کورونا سے ایک ہی چیز بچا سکتی ہے اور وہ ہے احتیاط۔ اگر آپ کو انتہائی ضروری کام نہیں تو پھر گھر سے باہر نہ نکلیں۔ اور ضروری کام کون سے ہوتے ہیں یہ آپ کو خود معلوم ہونا چاہیے۔ نوجوانوں کی آوارہ گردی کوئی ضروری کام نہیں۔ دوست کو ملنے جانا ہے، سہیلی کی سالگرہ ہے، نیا سوٹ، نیا جوتا، گفٹ اور اس قسم کے کام اگر ہم زندہ رہے تو سب ہوجائیں گے۔ سوکھا راشن بار بار دکان پر جانے کے بجائے ایک ہی بار لے لینا چاہیے۔ بچوں کی اشیا جو اسٹور ہوسکتی ہیں، وہ کم ازکم کچھ دنوں کےلیے اکٹھی لے لیں۔ محلے کی آنٹی جس نے روزانہ دس گھروں میں خیر خبر لینے جانا ہے وہ کچھ دن موبائل پر ہی بات کرلیں۔ کتنے ہی ایسے کام ہیں جنہیں موخر کرکے ہم خود کو محدود رکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ دکان پر جاتے ہیں تو اگلا گاہک فارغ ہونے تک فاصلے پر رہیں اور گھر سے مجبوراً نکلنے کی صورت میں ماسک اور گلوز پہن کر جائیں۔ دکاندار بھی سماجی فاصلے اور سینی ٹائزر کا اہتمام رکھیں۔ اپنے گھر والوں کو محفوظ رکھنا ہے تو جب بھی گھر آئیں سب سے پہلے نہائیے اور لباس تبدیل کرلیجئے۔

کورونا خود چل کر کسی کے گھر کبھی نہیں آئے گا، جب بھی لائیں گے آپ خود لائیں گے۔ یہ آپ خود ہی فیصلہ کرلیجئے کہ آپ نے احتیاط کرکے اپنی اور دوسروں کی جان بچانی ہے یا پھر صرف حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کورونا کے سہولت کار بھی بنے رہنا ہے؟ خود کے ساتھ دوسروں کو بھی مارنا ہے یا پھر خود زندہ رہ کر دوسروں کی زندگی بھی بچانی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مناظر علی

مناظر علی

بلاگر مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے نیوزروم سے وابستہ رہ چکے ہیں، آج کل لاہور کے ایک ٹی وی چینل پر کام کررہے ہیں۔ عوامی مسائل اجاگر کرنے کےلیے مختلف ویب سائٹس پر بلاگ لکھتے ہیں۔ ان سے فیس بک آئی ڈی munazer.ali پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔