آسیب زدہ قلعہ کی بحالی

آصف محمود  جمعرات 18 جون 2020
مغل اورسکھ دورکی یادگار یہ قلعہ سیاحوں کے لئے بند ہے۔

مغل اورسکھ دورکی یادگار یہ قلعہ سیاحوں کے لئے بند ہے۔

 لاہور: صوبائی محکمہ آثارقدیمہ پنجاب نے مبینہ طورپرآسیب زدہ قلعہ شیخوپورہ کے مختلف حصوں کی بحالی کا کام شروع کردیا ہے۔

مغل اورسکھ دورکی یادگار یہ قلعہ سیاحوں کے لئے بند ہے۔ مقامی لوگوں نے اس قلعے اوریہاں موجود حویلیوں کے کھنڈرات کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور کررکھی ہیں تاہم آثارقدیمہ کے لوگ ان کہانیوں کو فرضی قراردیتے ہیں۔

شیخوپورہ قلعہ لاہور کے شمال مغرب میں 36 کلومیٹر دور واقع ہے، یہ ایک محفوظ یادگار ہے اور حکومت پنجاب کے محکمہ آثار قدیمہ کے انتظامی کنٹرول میں ہے۔

قلعے کو شہنشاہ جہانگیر نے 1607 ء میں تعمیر کیا تھا۔ اسے کشمیر اور کابل کے شاہی دوروں کےدوران قیام گاہ کے طورپراستعمال کیاجاتا تھا، سکھ کے دور میں قلعہ میں کچھ حویلیاں شامل کی گئیں۔

تاریخی دستاویزات کے مطابق برطانوی راج کے دوران اس قلعے کو 1849 سے لے کر 1851 تک ضلع گوجرانوالہ کے اداراتی ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔

ضلعی ہیڈ کوارٹر کے ضلع گوجرانوالہ میں منتقل ہونے پر اس قلعے کو بعض اوقات فوجی پوسٹ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ 1918 میں جب شیخوپورہ کو الگ ضلع بنایا گیا تو اس قلعے کو پولیس ہیڈکوارٹرزکے طورپراستعمال کیاجاتا رہا ، 1947 میں تقسیم کے بعد اسے بھارتی پنجاب سے آنے والے مہاجرین کی پناہ کے لئے استعمال کیا گیا اور اس کے بعد 1964 میں اسے محفوظ یادگارکا درجہ دیا گیااور یہ تاریخی ورثہ آثارقدیمہ کی نگرانی میں چلاگیا۔

اب اس قلعے میں داخلی دروازے کی بالائی آرائش کے علاوہ مغل دور کے طرز تعمیر کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ اگرچہ لاپرواہی کا شکار ہے لیکن اس احاطے میں موجودہ دور تک پہنچنے والی واحد عمارت رانی نائکہ کی حویلی ہے ۔اس حویلی کا سب سے نمایاں پہلو اس کی آرائش ہے۔

رانی نائکہ سکھ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی بیوی اورکھڑک سنگھ کی والدہ تھیں، مہاراجہ رنجیت سنگھ نے جب یہ قلعہ فتح کیاتواسے اپنے بیٹے کھڑک سنگھ کے حوالے کردیاتھا،رانی نائکہ اپنی زندگی کے آخری دن تک یہاں قیام پذیررہیں۔ انیسویں صدی کے وسط میں جب طاقت برطانیہ کی ہاتھ میں آئی تو شیخوپورہ کے قلعے کو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی آخری ملکہ اور مہاراجہ دلیپ سنگھ کی ماں رانی جنداں کی نظر بندی کے لئے استعمال کیا گیا۔

اس وقت اس حویلی کے لکڑی کے قیمتی دروازوں ، کھڑکیوں اور چھت کے کچھ حصے غائب ہو چکے ہیں اور حویلی ایک بھوت گھر کا منظر پیش کرتی ہے۔
کھنڈرات کے کمروں کے داخلی حصے اگرچہ چمگادڑوں کا نشیمن بن چکے ہیں لیکن ابھی بھی داخلی دیواروں پر کانگرہ اسٹائل میں رنگین تصاویر کو دیکھا جا سکتا ہے۔ رانی نائکہ کی حویلی کا یہ آرائشی آرٹ ورک عبادت سے لے کر جذبات تک انسانی زندگی کے تمام پہلووں کی تصویر کشی کرتا ہے۔

قلعہ کی ویرانی اورکھنڈرات کی وجہ سے اس سے متعلق کئی کہانیاں مشہورہیں۔ شیخوپورہ کے ایک مقامی رہائشی ماجدعلی نےبتایا کہ انہوں نے اپنے بزرگوں سے سن رکھا ہے کہ اس قلعے میں آسیب رہتے ہیں ، اس قلعہ اورحویلی میں جوملکہ اوران کی شہزادیاں رہتی تھیں آج بھی ان کی روحیں یہاں گھومتی ہیں۔

ایک اوربزرگ عبادت علی نے ان کہانیوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ڈراورخوف کی وجہ سے کوئی بھی شخص رات کے وقت اس قلعے میں جانے کی جرات نہیں کرتا ہے، کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں آسیب زدہ چند معروف مقامات میں سے ایک یہ شیخوپورہ فورٹ بھی ہے۔

دوسری طرف آثارقدیمہ کے سابق ڈائریکٹرافضل خان نے بتایا کہ قلعہ کے آسیب زدہ ہونے سے متعلق سب کہانیاں فرضی ہیں، لاہورکے شاہی قلعہ کے کئی حصوں سے متعلق بھی اسی طرح کی کہانیاں مشہورہیں، انہوں نے کہا کہ ان کا جنات کے ہونے پریقین ہے ، وہ کہیں بھی بسیراکرسکتے ہیں لیکن یہ جو بدروحوں ، بھوت اورپریت کی باتیں کی جاتی ہیں ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔

پنجاب آرکیالوجی کے موجودہ ڈائریکٹرملک مقصود نے بتایا کہ قلعہ کی خستہ حالی کی وجہ سے یہاں عام شہریوں کا داخلہ بندہے ، یہ کوئی آسیب زدہ مقام نہیں ہے ، انہوں نےبتایا کہ قلعہ شیخوپورہ کی بحالی کے حوالے 2010 میں امریکی حکومت نے حکومت پاکستان کے ساتھ مل کرمشترکہ منصوبہ شروع کیا تھا۔لیکن 18 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد جب آثارقدیمہ کا محکمہ وفاق سے صوبوں کو منتقل کردیاگیا توامریکا کی طرف سے قلعہ کی بحالی کا منصوبہ بھی ختم ہوگیا۔

تاہم 2017 میں پنجاب حکومت نے اس قلعے کی ماندہ حصے کی بحالی، دستاویزات کی تیاری، اسے سیلاب اوربارشوں کے پانی سے محفوظ رکھنے کے منصوبے کی منظوری دی ۔ اس کے لئے ساڑھے چارملین روپے مختص کئے گئے تھے۔اس منصوبے کے تحت یہاں کام جاری ہے۔ مالی سال دوہزارانیس اوربیس کے لئے ایک کروڑ روپے کے فنڈزمختص کئے گئے تھے،پہلے مرحلے میں یہاں کا ڈیزائن اورڈاکومنٹیشن مکمل ہوگی اس کے بعد بحالی کا کام شروع ہوجائیگا۔

قصر شاہی صدیوں کے گرم سردہواؤں، زلزلوں کے صدمات اور تباہ کاریوں کے اثرات سے کسی حد تک محفوظ ہے تاہم کچھ حصے گر چکے ہیں لیکن جلال اور عظمت اس حصے کو اب بھی حاصل ہے جو اس دور میں کبھی رہی ہو گی۔ دیواروں پر حسین و منقش تصاویر جابجا نظر آتی ہے ان پر فارسی زبان میں اشعار کی خطاطی دل کو بہت بھاتی ہے دیواروں پر ان نفیس و نازک نقوش کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے صدیاں گزر جانے کے باوجود اس کے حسن و رعنائی میں نمایاں فرق نظر نہیں آتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔