ملزم جانور

ندیم سبحان  اتوار 8 دسمبر 2013
حراست میں لئے گئے جانور جرائم پیشہ افراد کی جانب سے اپنی کارروائیوں کو آگے بڑھانے کے لئے خصوصی طور پر سدھائے گئے تھے فوٹو: فائل

حراست میں لئے گئے جانور جرائم پیشہ افراد کی جانب سے اپنی کارروائیوں کو آگے بڑھانے کے لئے خصوصی طور پر سدھائے گئے تھے فوٹو: فائل

مختلف جرائم کی پاداش میں انسانوں کے گرفتار ہونے اور پھر جیل کی ہوا کھانے کی خبریں تو آپ روزانہ ہی پڑھتے اور سنتے ہیں، مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ انسانوں جیسا یہ ’سلوک‘ جانوروں کے ساتھ کیے جانے کے واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں؟ ذیل کی سطور میں ہم چند ایسے ہی دل چسپ و منفرد واقعات کا تذکرہ کررہے ہیں، جن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کئی جانوروں کو مختلف الزامات کے تحت گرفتار کیا۔

1۔ جیل میں موبائل فون اسمگل کرنے کی منصوبہ بندی پر بلی کی گرفتاری

جون 2013ء میں پولیس اہل کاروں نے اس وقت ایک بلی کو حراست میں لیا جب وہ موبائل فون اور چارجر جیل کے اندر پہنچانے کی کوشش کررہی تھی۔ یہ جیل روسی دارالحکومت ماسکو سے 600 میل شمال مغرب میں Syktyvkar کے شہر میں واقع ہے۔ جیل کے اہل کار حسب معمول گشت پر تھے کہ انھیں احاطے کی دیوار پر ایک بلی بیٹھی ہوئی نظر آئی۔ غور سے دیکھنے پر انھیں احساس ہوا کہ بلی کے پیٹ کے ساتھ کچھ بندھا ہوا تھا۔

بالآخر پولیس اہل کاروں نے بڑی ہوشیاری سے بلی کو پکڑ لیا۔ تب ان پر انکشاف ہوا کہ اس کے پیٹ پر موبائل فون اور چارجر بندھا ہوا تھا۔ اس انکشاف کے بعد بے زبان جانور کو باقاعدہ گرفتار کرلیا گیا۔ تفتیشی اہل کاروں کا کہنا تھا کہ مجرموں نے موبائل فون جیل میں اپنے کسی ساتھی تک پہنچانے کے لیے بلی کو باقاعدہ تربیت دی تھی، اور اگر بلی پر نظر نہ پڑتی تو وہ ضرور اپنے مقصد میں کام یاب ہوجاتے۔

2۔ پولیس کی گاڑی تباہ کرنے کے الزام میں بکریوں کی گرفتاری

رواں برس جون ہی میں تین بکریوں کو حراست میں لیے جانے کی خبریں ذرائع ابلاغ کی زینت بنی تھیں۔ یہ واقعہ بھارتی شہر چنائے کے علاقے کلپوک میں پیش آیا تھا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق متعلقہ تھانے کے اہل کار بکریوں کی مبینہ توڑ پھوڑ کی کارروائیوں سے پہلے ہی تنگ تھے۔ اور جب ان جانوروں نے انہی کو نشانہ بنایا تو بالآخر ان کی ہمت جواب دے گئی۔ ہوا کچھ یوں کہ کلپوک تھانے کو سرکار کی طرف سے نئی گاڑی ملی تھی۔ یہ گاڑی تھانے کی عمارت کے باہر کھڑی تھی کہ ایک درجن بکریوں نے مبینہ طور پر گاڑی پر حملہ کردیا۔ پولیس کے مطابق بکریاں گاڑی کے اوپر چڑھ گئی تھیں، اور انھوں نے اس کے وائپر، بیک ویو مرر توڑ دیے تھے اور بونٹ اور باڈی پر خراشیں ڈال دی تھیں، جس کے نتیجے میں گاڑی کا رنگ بھی جگہ جگہ سے اتر گیا تھا۔

جب پولیس اہل کار ’ جائے وقوعہ‘ پر پہنچے تو تین بکریاں اب بھی اپنی کارروائی میں مصروف تھیں۔ انھوں نے فوری طور پر ’ملزمان‘ کو حراست میں لیا اور لے جاکر حوالات میں بند کردیا۔ بکریوں کی مالکہ 37 سالہ میری ایروگنتھن بھی جلد ہی تھانے پہنچ گئی۔ پولیس اہل کاروں نے مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میری کے خلاف شکایت درج کی اور بکریوں کو جانوروں کو تشدد سے بچانے کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے کے حوالے کردیا۔

3۔ مارپیٹ اور تشدد کے الزام میں گدھے کی گرفتاری

2008ء میں میکسیکو کی ریاست Chiapas میں واقع ایک مویشی خانے کے قریب ایک لدو گدھے نے دو آدمیوں کو دولتی جھاڑی اور پھر انھیں کاٹ بھی کھایا۔ گدھے کے اس فعل کا سبب کچھ بھی رہا ہو، مگر سزا اسی کو ملی۔ گدھے کے ’ تشدد‘ کا نشانہ بننے والے دونوں عمررسیدہ افراد تھے۔ ان میں سے ایک کی عمر 52 اور دوسرے کی 63 سال تھی۔ باون سالہ اینڈرس ہرنانڈز کا کہنا تھا کہ گدھے نے گینرو ویزکوئز کو سینے میں کاٹ کھایا اور جب وہ اپنے ساتھی کو بچانے پہنچا تو اسے بھی دولتی جھاڑ دی، جس سے اس کے ٹخنے میں فریکچر ہوگیا۔

بعدازاں چھے آدمی بہ مشکل مشتعل گدھے پر قابو پاسکے۔ دونوں زخمی افراد کی مرہم پٹی کے بعد تھانے جاکر گدھے کی ’ پُرتشدد ‘ کارروائی کی شکایت درج کروائی گئی جس کے نتیجے میں پولیس نے ’ملزم‘ کو پکڑا اور شراب پی کر گڑ بڑ پھیلانے والے ملزمان کے لیے مخصوص حوالات میں بند کردیا۔ گدھا اس وقت تک سلاخوں کے پیچھے رہا جب تک کہ اس کے مالک نے آکر زخمی افراد کے علاج معالجے پر اٹھنے والے اخراجات نہ ادا کردیے۔

4۔ قتل کے مقدمے میں گرفتار ہونے والی گائے

جنوب مغربی نائجیریا کے علاقے سانگو اوٹا میں نوجوانوں کی بڑی تعداد کارنیوال کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ سالانہ تہوار کی تیاریوں کے سلسلے میں سبھی جوش و خروش دکھا رہے تھے۔ اسی دوران کچھ لڑکوں کے درمیان کسی بات پر اختلاف رائے پیدا ہوا، بات بڑھتے بڑھتے تکرار تک پہنچی اور پھر ہاتھا پائی کی نوبت آگئی۔ اسی دوران ڈایو نامی نوجوان نے غصے کے عالم میں کانچ کی بوتل توڑی اور اسے خنجر کی طرح چوبیس سالہ عزیز سلاکو کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ عزیز کو زخمی حالت میں دیکھ کر تمام نوجوان نودوگیارہ ہوگئے۔ زیادہ خون بہہ جانے کے باعث جائے وقوعہ پر ہی عزیز کی موت ہوگئی۔

جب پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی تو وہاں شامت کی ماری ایک گائے ہی موجود تھی جسے کارنیوال کے دوران قربان کرنے کے لیے لایا گیا تھا۔ پولیس اہل کاروں نے بے چاری گائے ہی کو حراست میں لیا اور تھانے لے جاکر پس زنداں دھکیل دیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ قتل کے اس مقدمے میں پولیس کسی انسان کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔

5۔ پھول چرنے کی پاداش میں گرفتار بکری

رواں برس جنوری میں آسٹریلوی شہر سڈنی کی پولیس نے ایک بکری کو گرفتار کرلیا تھا۔ گیری نامی اس بکری پر الزام تھا کہ اس نے عجائب گھر کی کیاری میں لگے ہوئے پھول دار پودے چَر لیے تھے۔ پولیس کا موقف تھا کہ اس ’جرم‘ میں گیری کا مالک جِم بھی برابر کا شریک تھا اور اسی نے اپنی بکری کو اس حرکت پر اکسایا تھا۔ اسی لیے پولیس نے جِم پر 440 آسٹریلوی ڈالر جرمانہ بھی کردیا تھا۔

جم نے پولیس کا موقف ماننے سے انکار کردیا جس کے نتیجے میں معاملہ عدالت میں چلا گیا تھا۔ جم نے اپنی بکری کے دفاع کے لیے وکیل بھی کیا۔ مقدمے کی سماعت کے بعد مجسٹریٹ نے یہ رولنگ دیتے ہوئے گیری کے خلاف مقدمہ خارج کردیا کہ نہ تو یہ بکری اور نہ اس کا مالک کسی جرم کے ذمہ دار ٹھہرتے ہیں، کیوں کہ ایسی کوئی شہادت موجود نہیں ہے کہ جم دانستہ اپنی بکری کو پودوں کے قریب لایا ہو۔

یہ مقدمہ انٹرنیٹ ورلڈ میں بہت مشہور ہوا تھا۔ یہاں تک کہ فیس بُک پر گیری کا پیج بھی بنادیا گیا تھا۔

6۔ مسلح ڈکیتی پر حراست میں لیا گیا بکرا

2009ء میں نائجیریا کی پولیس نے ایک بکرے کو مسلح ڈکیتی کے سلسلے میں شک کی بنیاد پر حراست میں لے لیا تھا۔ تفتیشی اہل کاروں کا کہنا تھا کہ سیاہ و سفید بکرا دراصل ڈاکو تھا، جس نے ایک مزدا ٹرک میں سوار مسافروں کو اسلحے کے زور پر لوٹا تھا، اور ٹرک بھی لے جانے کی کوشش کی تھی، اور پھر گرفتاری سے بچنے کے لیے جادو کے زور سے اپنی جَون بدل لی تھی، اور بکرا بن گیا تھا۔

براعظم افریقا کے گنجان ترین ملک نائجیریا کے باشندے جادو ٹونے پر بے حد اعتقاد رکھتے ہیں، اور پولیس اہل کار بھی اس سے مبرا نہیں۔ اس عجیب و غریب گرفتاری کی خبریں ذرائع ابلاغ میں نمایاں طور پر شائع ہوئی تھیں اور لوگوں کی بڑی تعداد ’ ڈکیت بکرے‘ کو دیکھنے کے لیے تھانے پہنچ گئی تھی۔

7۔ جاسوسی کے شبہے میں کبوتر کی گرفتاری

2010ء میں بھارت کے سرحدی علاقے کی پولیس نے ایک کبوتر کو ’حراست ‘ میں لے لیا۔ پولیس اہل کاروں کے مطابق انھیں شبہہ تھا کہ یہ کبوتر پاکستان نے جاسوسی کی غرض سے بھارتی علاقے میں بھیجا تھا۔ سفید و سیاہ کبوتر کو بھارتی پنجاب کے سرحدی علاقے سے پکڑ کر امرتسر سے 25 میل دور واقع ایک پولیس اسٹیشن لے جایا گیا تھا۔ پولیس اہل کاروں کے مطابق کبوتر کے پاؤں میں ایک چھلّا تھا اور اس کے جسم پر سرخ روشنائی میں پاکستان کا فون نمبر اور پتا چھپا ہوا تھا۔

پولیس اہل کاروں کو ہدایت کی گئی تھی کہ کبوتر سے کسی کو ملنے نہ دیا جائے۔ کبوتر کا طبی معائنہ بھی کروایا گیا تھا اور اسے پولیس کی حفاظت میں ایک ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں رکھا گیا تھا۔

8۔ سرحدی خلاف ورزی پر گرفتار بندر

2011ء میں پاکستان کے صوبے پنجاب میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہل کاروں نے بھارتی سرحد پار کرکے چولستان کی حدود میں داخل ہونے والے ایک بندر کو حراست میں لے لیا تھا۔

ابتدائی طور پر مقامی لوگوں نے بندر کو پکڑنے کی کوشش کی تھی، جس میں ناکامی پر انھوں نے پولیس کو مطلع کیا۔ پولیس اہل کاروں نے خاصی تگ و دو کے بعد بندر کو قابو کیا اور بعدازاں وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کردیا۔ اس بندر کو بہاولپور کے چڑیا گھر منتقل کردیا گیا تھا۔

9۔ تین خواتین کی ہلاکت پر ہاتھی کے خلاف مقدمہ

یہ واقعہ جنوری 2013ء میں بھارتی ریاست کیرالا میں پیش آیا تھا۔ ایک مذہبی تہوار کے دوران راما چندرن نامی ہاتھی مشتعل ہوگیا۔ اشتعال کے عالم میں تین عورتیں اس کے پاؤں تلے آکر روندی گئیں۔ ان عورتوں کی ہلاکت کا مقدمہ راما چندرن کے خلاف درج کیا گیا۔

گرفتار شدہ ہاتھی کو محکمۂ ماحولیات کی نگرانی میں رکھا گیا۔ ہاتھی کی رہائی کے لیے اس کے مالک کو 30لاکھ روپے جرمانہ اد ا کرنے کے ساتھ دو ضامنوں کا انتظام بھی کرنا پڑا تھا۔ علاوہ ازیں اس واقعے کے بعد تین ماہ تک راما چندرن کی مذہبی جلوسوں میں شرکت پر پابندی بھی لگادی گئی تھی۔

10۔ ممنوعہ اشیا لے جانے پر گرفتار بلی

رواں برس جنوری میں برازیلی شہر Arapiraca کی ایک جیل کے مرکزی دروازے پر تعینات پولیس کے اہل کاروں نے ایک بلی کو حراست میں لیا۔ بلی مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوچکی تھی جب ایک اہل کار کو محسوس ہوا کہ اس کے جسم سے کچھ بندھا ہوا تھا۔

بلی کے جسم کے ساتھ ٹیپ کی مدد سے چپکائی گئی اشیا میں برمے، ایک موبائل فون، چارجر، اور ایئرفون شامل تھے۔ بلی کے جسم سے ان اشیا کو علیحدہ کرنے کے بعد اسے جانوروں کے مرکز بھجوادیا گیا تھا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ یقینی طور پر یہ حرکت جیل میں قید خطرناک مجرموں کے ساتھیوں کی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔