ریاستی خودمختاری

بشیر واثق  اتوار 8 دسمبر 2013
گلوبلائزیشن نے ریاستی خود مختاری کے قدیم تصور پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ فوٹو: فائل

گلوبلائزیشن نے ریاستی خود مختاری کے قدیم تصور پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ فوٹو: فائل

پاکستان گزشتہ تیرہ سال سے ایک ایسی جنگ لڑنے پر مجبور ہے جو اس کی اپنی نہیں تھی۔ مگر پھر حالات و واقعات نے کچھ ایسا رخ اختیار کیا کہ افواج پاکستان کو اپنے خطے میں دوسروں کی لگائی ہوئی اس آگ کو بجھانے کے لئے میدان عمل میں اترنا پڑا۔

اس ساری صورتحال میں افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جاری اس جنگ میں دونوں طرف اپنے ہی لوگ ہیں جو امریکا کی لگائی ہوئی نفرت کی آگ کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ ایک طرف تو پاکستان اس جنگ کو لڑنے پر مجبور ہے تو دوسری طرف امریکا اور نیٹو افواج کی ارض پاک میں مداخلت بالخصوص ڈرون حملوں نے پاکستان کی خود مختاری اور آزادی پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اس سے پہلے کہ پاکستان کی خودمختاری کے حوالے سے بحث کی جائے یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ ریاست کیا ہے اور اس کے اہم عناصر کون سے ہیں۔

ریاست کے حوالے سے دانشوروں نے اپنی رائے کا اظہار مختلف انداز میں کیا ہے۔

سالمنڈ(salmond) نے ریاست کی تعریف کچھ اس طرح کی ہے’’انسانی معاشرہ جو ایک مخصوص خطہ ارض پر بزور طاقت امن و سکون اور انصاف کی خاطر رہائش پذیر ہو ریاست کہلاتا ہے۔‘‘

ارسطو (Aristotle)کہتا ہے کہ مختلف خاندانوں اور دیہات کے ایسے اجتماع کو ریاست کہتے ہیں جس کا مقصد ایک خوشحال اور آزاد انہ زندگی کے لئے سہولتیں بہم پہنچانا ہو۔

گارنر(Garner)کی رائے میں ’’ریاست افراد کا ایسا اجتماع ہے جو مخصوص خطہ ارض پر مستقل رہائش پذیر ہو، ہر قسم کے بیرونی دبائو سے آزاد ہو ، جس کی اپنی منظم حکومت ہو ، جس کی عوام عادتاً اطاعت کریں۔‘‘

پروفیسر ہال کے مطابق’’ ایک ایسی انسانی جماعت جو ایک مخصوص خطہ ارض پر رہائش پذیر ہو ، اس کا سیاسی مقصد ہو ، وہ ریاست کہلاتی ہے۔‘‘

گیٹل (Gattel)کہتا ہے کہ ’’ریاست افراد کا ایسا اجتماع جو مخصوص علاقہ میں رہ رہا ہو۔ بیرونی تسلط سے آزاد ہو۔ اس کی اپنی منظم حکومت ہو جس کے پاس قانون سازی کے اختیارات ہوں اور وہ ان قوانین کا اطلاق کر سکے۔‘‘

ان مفکرین کی رائے اپنے دور اور سیاق و سباق کے مطابق ہے۔ تاہم سب میں کچھ پہلووںکو بالخصوص بیان کیا گیا ہے جس سے ریاست کے اہم عناصر کا پتہ چلتا ہے جس سے ایک ریاست کے تار و پود ترتیب پاتے ہیں۔

سب سے پہلا عنصر (Territory)ہے کیونکہ جب تک ایک خاص علاقہ مختص نہ کیا جائے ریاست کا وجود قائم نہیں ہو سکتا ۔ اگر کوئی فرد ، قبیلہ یا قوم یہ دعوٰی کرتی ہے کہ وہ ایک ملک یا ریاست کے حکمران ہیں تو انھیں اس خطہ ارض کی حدود کا تعین کرنا پڑے گا، تب ان کے دعوے پر یقین کیا جائے گا۔ خانہ بدوش خواہ لاکھوں ، کروڑوں میں ہوںاور لاکھوں ایکڑ پر قبضہ کر یں ، مگر اسے ریاست کا درجہ نہیں دلا سکتے کیونکہ ریاست کے دوسرے عناصر جیسے خود مختاری اس خطہ ارض سے مفقود ہو گی تو ایسی صورت میں وہ علاقہ ریاست نہیں کہلا سکتا۔ اس کی ایک مثال یہودیوں سے بھی لی جا سکتی ہے کہ جب تک وہ مختلف ممالک میں ٹولیوں کی صورت میں آباد تھے ایک ریاست کے دعویدار نہ ہو سکے، پھر انھوں نے عرب علاقوں پر قبضہ کرکے اسرائیل بنایا تو ریاست کی شکل اختیار کر گئے۔

ریاست کا دوسرا اہم عنصرآبادی ہے جس کے بغیر ایک علاقہ ریاست ہی نہیں کہلا سکتا ہے کیونکہ یہی آبادی یعنی قوم اس علاقے کو ریاست کے درجے تک لے جاتی ہے۔ اب اگر کوئی شخص ایک خطہ حاصل کر لے اور یہ کہے کہ یہ ریاست ہے تو وہ بالکل غلط ہے کیونکہ اس سے پوچھا جائے گا کہ اس میں رہنے والے لوگ کہاں ہیں جن پر حکومت کی جائے گی جن کے لئے قوانین بنائے جائیں گے۔ یوں ایک معاشرہ تشکیل پائے گا جیسے ایک عمارت ہے اسے گھر کا درجہ تب ہی ملتا ہے جب وہاں لوگ آباد ہوتے ہیںورنہ وہ ہمیشہ عمارت ہی کہلائے گی، ایسے ہی خطہء ارض اس وقت تک ریاست نہیں کہلا سکتا جب تک وہاں معاشرہ تشکیل نہیں پاتا۔

ریاست کا تیسرا اہم عنصر ریاست کی آزادی اور خود مختاری ہے اور اس بات کو یقینی طاقت کے ذریعے بنایا جاتا ہے جو قدیم دور میں بادشاہ کو حاصل تھی اور وہ اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے فوج اور دیگر اداروں کے ذریعے ملک کی داخلی اور خارجی خود مختاری کو یقینی بناتا تھا۔ اب جدید دور میں یہ طاقت یعنی اقتداراعلیٰ پارلیمنٹ کو حاصل ہے جو عوام حق رائے دہی کے ذریعے پارلیمنٹ کو تفویض کرتی ہے اور وزیر اعظم اور اس کی کابینہ بطور پارلیمنٹ کے نمائندہ ملک کی داخلی اور خارجی خود مختاری کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کرتی ہے۔ داخلی خود مختاری سے مراد ریاست کے قوانین بنانا اور اور پھر اسے یکساں لاگو کرنا ہے جس سے معاشرے میں امن و استحکام قائم ہوتا ہے جبکہ بیرونی خود مختاری سے مراد ملک کو بیرونی جارحیت سے محفوظ کرنا، خود کو بیرونی طاقت کے زیر اثر نہ ہونے دینا ، دوسرے ممالک سے معاملات طے کرنا ، معاہدے کرنا ، سفارتی تعلقات قائم کرنا یا توڑنا ہے۔

ریاست کا چھوتھا عنصر حکومت ہے جس کے ذریعے وزیر اعظم اور اس کی کابینہ ملک کا نظم و نسق چلاتے ہیں۔ اس میں فوج ، عدلیہ ، پولیس غرض ہر ایسا ادارہ شامل ہے جو حکومت کے ماتحت کام کرتا ہے یعنی یہ ملک کی انتظامیہ ہے جو عوامی حق رائے دہی کے ذریعے برسر اقتدارآنے والے عوامی نمائندوں کے لئے دست و بازو کا کام کرتی ہے۔

اب ان تمام عناصر کا بطور ریاست پاکستان میں جائزہ لیا جاتا ہے تا کہ اندازہ ہو سکے کہ پاکستان ریاست کے ایک طے شدہ معیار کے مطابق کس سطح پر کھڑا ہے۔ پاکستان میں ریاست کا پہلا اور دوسرا عنصر یعنی علاقہ اور آبادی بدرجہ اتم موجود ہیں، یہ الگ بات ہے کہ عوام میں بطور قوم بہت سی خامیاں ابھی باقی ہیں اور بہت سے مفکرین یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ پاکستان کے لوگ ابھی خود کو ایک قوم نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ لوگوں کا ایک بہت بڑا ہجوم ہے اور اکثریت ذاتی مفاد کے لئے برسر پیکار ہے، اسی طرح بہت سے سرحدی تنازعات ابھی حل طلب ہیں جیسے مسئلہ کشمیر ، سیاچن گلیشیئر وغیرہ، ایسے ہی قبائلی علاقہ جات کے مسائل ہیں جو 66سال گزرنے کے باوجود ابھی تک جوں کے توں ہیں ۔

ریاست کا تیسرا اور چوتھا عنصر ریاستی خود مختاری اور حکومت بھی پاکستان میں بطور ریاست پائے جاتے ہیں مگر ان میں ریاستی خود مختاری اس درجے کی نہیں جو کسی بھی ریاست کے شایان شان ہوتی ہے۔ کیونکہ خود مختار ریاستیں اپنے اندرونی اور بیرونی معاملات میں مکمل طور پر آزاد ہوتی ہیں اور کسی بیرونی طاقت کو قطعاً اجازت نہیں ہوتی کہ وہ ان کے کسی بھی معاملے میں بلا اجازت ٹانگ اڑائے، جبکہ پاکستان کا معاملہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ ہمارے بہت سے قومی معاملات دوسرے ملکوں کی مرضی سے طے کئے جاتے ہیں جیسے ہمارے ملک میں خارجہ امور، محکمہ دفاع اور دیگر اہم امور میں بڑی طاقتوں کے اثرورسوخ اور مداخلت کا تاثر عام ہے، اس تلخ حقیقت کو قدرت اللہ شہاب نے اپنی سوانح عمری شہاب نامہ میں بیان کیا ہے، قدرت اللہ شہاب ایوب خان کے دور اقتدار میں سیکرٹری اطلاعات تھے اوراپنے عہدے اور قابلیت کی وجہ سے ایوب خان کے بہت قریب تھے، امریکی لابی قدرت اللہ شہاب کو پسند نہیں کرتی تھی، وہ لکھتے ہیں کہ انھیں صدر ایوب سے دور کرنے کے لئے ایوب خان پر ہمیشہ ہی دبائو رہا مگر ایوب خان نے اپنی ذاتی پسند کی وجہ سے اس دبائو کو کافی عرصہ تک برداشت کیا مگر کب تک، بالآخر ان کا تبادلہ دوسرے محکمے میں کر دیا گیا ۔ یہ تمام حالات تو شروع سے تھے ہی مگر امریکا میں نائن الیون کے واقعے کے بعد صورتحال میں بہت زیادہ تبدیلی آئی اور پاکستان نہ چاہتے ہوئے بھی امریکا کا اتحادی بن گیا اور نیٹو افواج کو اڈے اور راستے دینے پر بھی مجبو ر ہو گیا ۔ بات یہیں پر ختم نہ ہوئی بلکہ پاکستان میں ڈرون حملوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ جس نے پوری دنیا پر ہماری ریاستی خود مختاری کا پول کھول کر رکھ دیا ۔ کیونکہ پاکستانی حکومت کے احتجاج کے باوجود ڈرون حملے بڑے بھرپور انداز میں جاری رہے اور جاری ہیں۔

اقوام متحدہ کے منشور میں باب نمبر ایک میں ادارے کے مقاصد اور اصول بیان کرتے ہوئے واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کا کام عالمی سطح پر امن قائم کرنا اور مختلف ممالک میں موجود جھگڑوں کو نمٹانے کی کوشش کرنا ہے۔ تمام ممبر ممالک کو مساوی حقوق حاصل ہو ں گے۔ ممبر ممالک کے لئے قرار دیا گیا کہ وہ دوسری ریاستوں کی خود مختاری اور آزادی کا احترام کریں گے اور کسی ملک کی علاقائی سالمیت کے لئے خطرہ یا کسی طرح سے بھی طاقت کا استعمال نہیں کریں گے۔ اقوام متحدہ کے منشور سے واضح ہوتا ہے کہ امریکا اقوام متحدہ کے منشور کی کھلی خلاف ورزی کر رہا ہے ۔ اقوام متحدہ کی طر ف سے بھی امریکا کو ڈرون حملے بند کرنے کے لئے کہا گیا مگر امریکی حکام نے اس کا جواب تک دینا گوارہ نہیں کیا ۔ پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف اور پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان کا پہلے دن سے موقف رہا ہے کہ امریکی ڈرون حملے بند ہونے چاہیئں یہ پاکستان کی خودمختاری کے خلاف ہیں ۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ڈرون حملے بند کیوں نہیں ہو جاتے؟۔ اس سوال کا جواب سابق صدر پرویز مشرف اپنے ایک انٹرویو میں دے چکے ہیں کہ انھوں نے اپنے دور میں امریکا کو مشروط طور پر ڈرون حملے کرنے کی اجازت دی تھی، یہ بات انھوں نے اس وقت تسلیم کی جب انھیں اقتدار سے الگ کر دیا گیا تھا، پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی ڈرون حملے جاری رہے اس حوالے سے بھی یہی کہا جاتا ہے کہ یہ سب حکومتی مرضی سے ہوتا رہا، تاہم حکومت نے اسے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ اب موجودہ حکومت کا بظاہر موقف تو یہی ہے کہ ڈرون حملے بند ہونے چاہیئں۔ وزیر اعظم نواز شریف جب امریکا کے دورے پر تھے تو امریکی کانگریس میں ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے ایک رکن ایلن گریسن نے یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ اگر پاکستان چاہے تو ڈرون حملے بند ہو سکتے ہیں۔ اس بیان کی وضاحت انھوں نے اس طرح کی کہ پاکستان کی منظوری کے بغیر ایسا ممکن نہیں اور پاکستان کی دفاعی طاقت اتنی ہے کہ وہ ڈرون گرا سکتا ہے ایسے میں بھلا پاکستانی حکومت کی مرضی کے بغیر یہ حملے کیسے ہو سکتے ہیں ۔ گویا ایلن کے اس بیان نے بھی پاکستانی حکومت کی دہری پالیسی کا پول کھول دیا۔

اگر یہ کہا جائے کہ صرف ڈرون حملوں سے ہی ہماری ریاستی خود مختاری متاثر ہو رہی ہے تو یہ بالکل غلط ہے ۔ ریاستی خود مختاری کے فلسفے کی طرف دیکھیں تو پاکستان کی خود مختاری تو پہلے دن سے ہی متاثر ہو رہی ہے کیونکہ آزادی کے تھوڑے عرصہ بعد ہی ہم امریکا کی جھولی میں جا بیٹھے تھے اور اپنے بہت سے معاملات اس کی مرضی کے مطابق چلانے لگے تھے ، اس کی اصل وجہ پاکستان کا معاشی طور پر کمزور ہونا ہے، یہ کائناتی اصول ہے جب کوئی کسی کا دست نگر ہو گا تو اسے نہ چاہتے ہوئے بھی امداد دینے والوں کی بات ماننا پڑتی ہے، جب ہم اپنے پائو ں پر کھڑا ہونے کی بجائے دوسروں کے دست نگر رہیں گے تو ہمارے حکمرانوں کو عوام کے جذبات کا گلہ گھونٹتے ہوئے دوسروں کے ناجائز مطالبے بھی ماننا پڑیں گے۔

ریاستی خود مختاری کے قدیم فلسفہ سے ہٹ کر دیکھا جائے تو پاکستان ہر حوالے سے خود مختار ملک ہے کیونکہ گلابلائزیشن کے اس دور میں یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ ایک ملک کے حالات دوسرے پر اثر انداز نہ ہوں۔ ذرائع ابلاغ کی ترقی نے تمام ممالک کو باہم مربوط کر کے ایک بہت بڑی کالونی میں تبدیل کر دیا ہے ۔ ایسے میں ریاستی خود مختاری کا تصور بھی اب وہ نہیں رہا جو کسی زمانے میں تھا۔ اگر پاکستان کے اندرونی حالات کا اثر اپنے ہمسایہ ممالک پر پڑ رہا ہے تو وہ اس کا حل نکالنے کے لئے پاکستانی حکام سے رابطہ کریں گے۔ ایسے میں پاکستانی حکام یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے، دوسرے ممالک ان کی خود مختاری میں مداخلت کر رہے ہیں، بلکہ انھیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے دوسرے ممالک سے مذاکرات کرنا پڑیں گے اور دلائل سے اپنی پوزیشن واضح کرنا پڑے گی۔

اگر پاکستانی حکام ان کی بات نہیں سنتے تو وہ ممالک پاکستان سے تعلقات پر نظر ثانی کریں گے جس سے پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہو گا کیونکہ گلوبلائزیشن کے اس دور میں تنہا نہیں رہا جا سکتا ، تمام ممالک اس طرح ایک دوسرے سے جڑ چکے ہیں کہ ریاست کی بجائے ریاستوں کے گروہوں کا تصور سامنے آ رہا ہے جس کی بنیاد معاشی بہتری اور ترقی ہے جیسے یورپی یونین ،سکینڈے نیوین ممالک وغیرہ ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جن ممالک نے معاشی ترقی کی بلندیوں کو چھو لیا ہے انھی کا سکہ پوری دنیا میں چل رہا ہے اور نہ ہی انھوں نے کبھی قدیم تصور کے مطابق ریاستی خود مختاری کا شور مچایا ہے۔ اس لئے پاکستان کو بھی معاشی ترقی کے لئے بھرپور کوشش کر نا ہو گی، اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کا دفاع مضبوط ہونا بھی ضروری ہے تاکہ جارحیت کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دیا جا سکے مگر دفاعی طاقت تب ہی کام آئے گی جب ہم دوسرے ملکوں کے آگے ہاتھ پھیلانا ترک کردیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔