سیاستدانوں کا لاہور

عبدالقادر حسن  ہفتہ 20 جون 2020
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

جیسا کہ میں عرض کرتا رہتاہوں کہ پاکستانی جذباتی ہیں لاپرواہ ہیں مگر بے وقوف اور ’جاہل‘ بالکل بھی نہیں ہیں۔ پاکستانیوں نے ہر شعبہ زندگی میں دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے یعنی وہ جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے والا معاملہ رکھتے ہیں۔

کورونا وبا ایک عذاب ہے جو دنیا پر نازل ہوا ہے اور فی الحال اس کے تدارک کے لیے دنیا کی بڑی طاقتیں بھی ناکام نظر آتی ہیں۔ وباء سے پناہ مانگنے کے لیے ہم نے دیکھا اور سنا کہ دنیا کے مختلف شہروں میں اللہ اکبر کی صدائیں گونج رہی ہیں یعنی مشرک بھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار اور رجوع کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور اپنی مشکلات کا حل واحدہ لاشریک سے مانگ رہے ہیں۔

کورونا ایک ایسا عذاب ہے جو کسی ایک شہر پر نازل نہیں ہوا بلکہ پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آگئی ہے ۔ حکومتیں اس سے بچائو کے اقدامات کر رہی ہیں، کسی ملک میں زندگی مکمل طور پر بند کر دی گئی ہے تو کہیں جزوی طور پر زندگی کی رونقیں بحال ہیں۔

ہمارا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ وباء کے آغاز میں ہم نے مکمل لاک ڈائون کی پابندی کی لیکن جیسے ہی دو ہفتے کا وقت مکمل ہوا ہم عید کی شاپنگ کے لیے گھروں سے باہر نکل آئے اور بازاروں میں پہنچ گئے جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ پاکستان دنیا کے ان چند ملکوں میں شامل ہو گیا ہے جہاں پر کورونا کے مریضوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے ۔ لیکن اس پھیلتی وباء کی وجہ سے تقریروں اور گفتگو میں فقرہ بازی کرنا اورخاص طور پر لاہوریوں کا مذاق اڑانا کسی صورت میں بھی قبول نہیں کیا جا سکتا۔

لاہوریوں سے ناراضگی اپنی جگہ مگر لاہوریوں کے جذبات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اس شہر لاہورنے لاتعداد حکمران اور حملہ آور دیکھے ہیں جو آئے اور گزر گئے یا کسی حکمران کو اپنے پیچھے چھوڑ گئے جیسے محمود غزنوی نے ایاز کو لاہور کا گورنر بنا دیا تھا جو یہیں اس شہر میں مدفون ہیں ۔ یہ اعزاز صرف شہر لاہور کو حاصل ہے کہ سیاستدان ہوں یا فنکار وہ اپنی قسمت آزمانے کا پہلا مرحلہ اسی شہر کو قرار دیتے ہیں ۔ اس شہر کے خوش ذوق زندہ دلان کا فیصلہ ہی پوری قوم تسلیم کرتی ہے۔

متحدہ ہندوستان میں فلمیں تو بمبئی میں بنتی تھیں لیکن کسی فلم کی کامیابی و ناکامی کا فیصلہ لاہور میں ہوتا تھا ۔ جب یہ فلم لاہور میں ریلیز ہوتی تھی تو اس کا مالک سیٹھ بمبئی میں ٹیلی فون کے ساتھ لگ کر بیٹھ جاتا تھا۔ پہلے شو کے ختم ہونے پر تماش بینوں کی کھلی رائے سے سیٹھ کو فوراً باخبر کیا جاتا تھا اس شہر کے فلم بینوں کی موافق یا ناموافق رائے کسی فلم کا مستقبل بن جاتی تھی۔ لگتا یہ ہے کہ یہی فارمولا سیاسی فلموں پر بھی لاگو ہے اور میدان کارزار میں سیاسی پارٹیاں لاہور کی حکمرانی کے دعوے کرتی ہیں۔

بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی کو بھی لاہوریوں نے عروج تک پہنچایا اور میاں نواز شریف کا قلعہ بھی لاہوریوں کے مرہون منت رہا۔ عمران خان کا مشہور و معروف جلسہ بھی لاہوریوں نے کامیاب کیا، یعنی لاہوریوں نے جس کے ساتھ بھی محبت اور وفا کی والہانہ کی، یہ الگ بات ہے کہ ان کو اس والہانہ محبت کے جواب میں ان بے وفا سیاستدانوں سے کیا ملا۔

جب میں نے لاہور میں قدم رکھا تو یہ ہنستا کھیلتا اپنی تمام تر رنگین اور دلربا روایتوں کے ساتھ مہکتا ہوا ایک زندہ و تابندہ شہر تھا ۔ یہاں شاہی قلعہ ، شاہی مسجد اوراس کے پڑوس میں بازار حسن بھی تھا اور جدید لاہور میں مال روڈ جگمگا رہی تھی ۔ اسی مال روڈ پر چند بیٹھکیں تھیں کافی ہائوس، شبینز لنچ ہوم اور پاک ٹی ہائوس۔ پہلی دو اپنے وقت میں ہر دم آباد سیاسی لیڈروں ، کارکنوں اور سیاست کا ذوق رکھنے والوںکی تھیں جب کہ ٹی ہائوس صرف ادیبوں کے لیے مخصوص تھا اور اس قدر کہ کوئی غیر ادیب داخل ہوتے ہوئے جھجکتا تھا ۔

میں اگر کبھی اپنے ادیب دوستوں کے ہمراہ یہاں آتا تو اپنے آپ کو اجنبی محسوس کرتا تھا جب کہ میں بھی صحافی ہوتے ہوئے ایک نیم ادیب تھا لیکن ادیب نہیںتھا نہ شاعر نہ افسانہ نگار نہ نقاد اور نہ ادب کی کسی دوسری صنف سے وابستہ لیکن میں لٹن روڈ پر رہتا تھا اور لیل و نہار میں کام کرتا تھا اور اس طرح دفتر آتے جاتے ٹی ہائوس میرے راستے میں پڑتا تھا ۔ میرے ذہن میں اس ادبی مکتب کے کئی فارغ التحصیل ادیبوں کے نام آرہے ہیں مگر کس کس کا ذکرکروں کہ سب اس لاہور کی شان تھے اوروہ لاہور کے نام سے اور لاہور ان کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔

لاہور کی سیاست کا بازار موچی دروازے میں گرم ہوتا تھا مگر اب سیاستدان موچی دروازے والے یا دلی دروازے والے نہیں رہے لیکن ابھی تک کسی الیکشن کے موقع پر اسی شہر لاہور میں قسمت آزمائی کرتے ہیں اور لاہور سے پاکستان کا فیصلہ لیتے ہیں ۔ فیصلہ اسی شہر کو کرنا ہوتا ہے، سیاسی تاریخ میں بھٹو نے پہلا فیصلہ اس شہر سے لیا تھا اس سے قبل اور بعد میں بھی کتنوں کی قسمت آزمائی ہمارے سامنے ہے۔ اس شہر کے ’جاہل‘ باسیوں نے بہت سے سیاسی لیڈروں کو عزت دی ہے، لاہور کے زندہ دلان سیاست شناس اپنی توہین کا بدلہ کیسے لیتے ہیںیہ فیصلہ وہ خودکریں گے۔

اوچے برج لاہور دے،جتھے بلدے چار چراغ

اک پاسے دا داتا وارث،اک دا مادھو لال

اک پاسے شاہ عنایت،دوجے پاسے شاہ جمال

اوچے برج لاہور دے،جتھے بلدے چار چراغ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔