منتشر خوفزدہ نسلیں

خرم علی راؤ  اتوار 21 جون 2020
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جو سراسر انتشار کا دور ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جو سراسر انتشار کا دور ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آدم جی انعام یافتہ ناول ’’اداس نسلیں‘‘ جو بلاشبہ اردو زبان کے بڑے ناولوں میں شمار ہوتا ہے اور اداس نسلیں کا موضوع وہ زمانہ ہے جب ہندوستان پر برطانیہ کا راج تھا۔ یہ ناول اپنے اندر ایک عہد کی تاریخ سموئے ہوئے ہے۔ ناول کے واقعات کی ابتدا 1857 کی جنگ آزادی سے ہوتی ہے اور اختتام بٹوارے کے بعد پاکستان کے قیام پر ہوتا ہے۔

ناول میں 1857 کی جنگ آزادی، جاگیردارانہ ذہنیت کا پھیلاؤ، کانگریسی سیاست، مسلم لیگی جدوجہد کا بیان، جلیانوالہ باغ کا واقعہ اور ہونے والا قتل عام، مسلم تشخص کا احساس، دوسری عالمی جنگ یا جنگ عظیم دوئم اور اس کے ہندوستان پر اثرات، ہندوستان میں آزادی کی جدوجہد، تقسیم ہند کے دوران ہونے والے دردناک فسادات اور پاکستان کے قیام سے متعلقہ واقعات کو خاص کر اجاگر کیا گیا ہے۔

یہ ایک تاریخی ناول تھا جس میں تاریخی واقعات کے ساتھ ساتھ ایک نواب کی بیٹی اور کسان کے بیٹے کی محبت کی کہانی بھی چلتی ہے۔ ایک ایسا ناول جو آج بھی زندہ ہے اور کتنی ہی نسلیں اس کو پڑھ چکی ہیں۔ بقول عبداللہ حسین جب سے ’اداس نسلیں‘ لکھی گئی اس وقت سے اس کتاب کی خوش قسمتی اور ہماری بدقسمتی ہے کہ ہر نسل اداس سے اداس تر ہوتی جا رہی ہے۔ اسی بات کو بڑھاتے ہوئے مجھے یہ کہنے کی جسارت کرنے دیجیے کہ اگر اس عظیم اردو ناول کے مصنف عبداللہ حسین کو بیسویں صدی کے اختتام پر شروع ہونے والی اکیسویں صدی کی ابتدا سے تاحال کے درمیانی زمانے کو بیان کرنے کےلیے اپنی دل پذیر تحریر میں نئی دنیا اور نئے حالات کے تناظر میں کوئی ناول لکھنا پڑتا تو وہ اس کا اپنے پچھلے شاہکار ناول کے لحاظ سے اس کا کیا نام رکھنا پسند کرتے؟ میرا طالب علمانہ خیال اس مفروضے کے حوالے سے یہ ہے کہ اس مفروضہ ناول کا نام ’خوفزدہ نسلیں‘ یا ’منتشر نسلیں‘ رکھا جاتا۔

یہ کوئی بلیغ طنز نہیں بلکہ احوال واقعی ہے کہ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جو سراسر انتشار کا دور ہے۔ اور نہ صرف ہمارا ملک بلکہ یہ برصغیر، اور براعظم ایشیا ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ پہلی دنیا کے ممالک اور اقوام بھی طرح طرح کے ذہنی، جسمانی، روحانی، نفسیاتی، معاشرتی اور سیاسی و معاشی انتشارات کا شکار نظر آتی ہیں اور قبل از کورونا کی دنیا میں بھی ساری دنیا میں پیش آنے والے نوع بہ نوع منفی واقعات اس بات کے اور اس ہمہ اقسام کے عالمگیر انتشار کے شاہد ہیں۔ لیکن کرونا نے تو گویا قیامت ہی ڈھا دی۔ کورونا کی وبا نے گویا ساری دنیا میں موجود ہمہ گیر انتشار کو اور بھی مہمیز کردیا اور انتشار کے ساتھ اب دنیا میں ڈر، خوف اور وحشت نے بھی عالمگیر طور پر اپنی جگہ بنالی ہے۔

اب آپ ذرا وطن عزیز پر غور تو کیجئے۔ مجھ سمیت کیا ہر ایک فرد (کروڑوں میں معدودے چند کے سوا) لمحہ موجود میں طرح طرح کے نئے ڈراووں، انتشار اور تفکرات کا شکار نہیں ہے؟ کل سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھی جس میں دو تعلیم یافتہ افراد کے درمیان بات کچھ یوں ہورہی تھی کہ ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ بچوں کا تعلیمی سال اس موجودہ کووڈ 19 سے پیش آمدہ صورتحال کے ضائع ہوجائے گا اور بڑا نقصان ہوجائے گا۔ دوسرے صاحب فرمانے لگے کہ اگر زندہ رہے تو نقصان ہوگا ناں!

یہ جوابی فقرہ ہماری پوری اجتماعی موجودہ نفسیات کا احاطہ کرتا نظر آتا ہے۔ لوگ اب اپنا ارتکاز کھوتے جارہے ہیں اور سچی بات ہے کہ بڑے بڑے عالی دماغ بھی اس آفت اور اس سے پیدا ہونے والے تباہ کن اثرات کا تصور کرکے لرز رہے ہیں کہ اگر کسی طرح چند مہینوں میں یہ عالمگیر آفت پوری طرح قابو بھی آگئی تو ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک کو اس کے بدترین اثرات سے نکلتے نکلتے نہ جانے کتنا وقت لگ جائے گا اور کتنا نقصان ہوجائے گا۔ ہر ذہنی اور فکری انتشار ایک خاص سطح سے گزرنے کے بعد مایوسی کو جنم دیتا ہے اور مایوسی کا لازمی نتیجہ کوئی نہ کوئی منفی قدم اٹھانا ہوتا ہے، جس سے کوئی فائدہ تو ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن پیش آمدہ فرضی یا حقیقی نقصان میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ تو یہ طرح طرح کے ڈراوے، تفکرات اور انتشار ہمیں یا تو مایوسی کی جانب لے جارہے ہیں یا خودغرضی اور بے حسی کی جانب اور حالات بد سے بدتر کی جانب ہی جاتے نظر آرہے ہیں۔

یہاں تک تو بات جو تھی وہ مایوسی ہی پھیلا رہی تھی، لیکن اب بات اگر اس سارے انتشار اور ڈر سے نکلنے کی ہے تو ہمارے پاس اس کےلیے کیا کیا ذرائع، وسائل، اقدام اور اسباب موجود ہیں؟ سرکاری اور حکومتی کوششیں اپنی جگہ، سماجی اور فلاحی اداروں کی کاوشیں بھی سر آنکھوں پر، مختلف بین الاقوامی اداروں اور ممالک کی امداد بھی بہت لائق تحسین، طبی اور جنیاتی تحقیق کاروں کو بھی سلام، لیکن ان سب عوامل کے ساتھ میری ناقص رائے میں جو چیز ہمیں سب سے زیادہ ڈھارس دے سکتی ہے وہ ہے عقیدہ، دین یا مذہب۔

کہا جاتا ہے کہ مذہب کی سب سے بڑی خوبی اس کے دیگر لاتعداد فوائد کے ساتھ یہ ہے کہ وہ انسان میں بدترین حالات میں بھی امید جگا دیتا ہے۔ اس کو دعا کا زبردست ہتھیار مل جاتا ہے اور دعا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تقدیر مبرم یعنی نہ ٹلنے والی تقدیر کو بھی تبدیل کردینے کی طاقت رکھتی ہے۔ تو آپ جس بھی عقیدے، مذہب اور مسلک کے ماننے والے ہوں، اپنے اپنے عقیدے کے مطابق اس لازوال اور سارے اختیارات اور قدرتوں کی حامل اس عظیم و عالیشان ذاتِ واحد کو پکاریئے اور اس سے تعلق کو مظبوط بنائیں تو بدترین صورتحال میں بھی آپ انتشار اور مایوسی کے اندھیروں سے ضرور بالضرور بچے رہیں گے اور امید کی روشنی آپ کے اردگرد جھلملاتی رہے گی۔ ہاں ملحدین اور خدا کو نہ ماننے والے اور اس مختلف مکتبہ فکر، جس نے خدا کو منفی کردیا ہے، کے عاملین کو اس ساری صورتحال میں کیا مشورہ دیا جائے، یہ ذرا دقت طلب سی بات ہے۔ لیکن کیونکہ وہ بھی تو انسان تو ہیں ناں، اس لیے اپنی دعاؤں میں بلا تخصیص رنگ و نسل، قوم و مذہب اور مقام ساری ہی انسانیت کو یاد رکھنا زیادہ بہتر ہوگا کہ اس طرح سے انسان ہونے کا ہم بھی کچھ نہ کچھ تو حق ادا کر ہی پائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

خرم علی راؤ

خرم علی راؤ

بلاگر استاد ہیں جبکہ شارٹ اسٹوریز، کونٹینٹ رائٹنگ، شاعری اور ترجمہ نگاری کی مہارت بھی رکھتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔