یہ زخم ہیں یارمہرباں کے

شاہد سردار  اتوار 21 جون 2020

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ قومی ادارے قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں جو ملک کو اقتصادی و معاشی جلا بخشنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے وہ ادارے جوکسی دور میں پاکستان کی معیشت کے ماتھے کا جھومر تھے ہمارے کچھ حکمرانوں اور افسر شاہی کے ذاتی مفادات کی نذر ہوگئے۔

اور اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ قومی ادارے بہرطور ملک کا سرمایہ ہوا کرتے ہیں تاہم بسا اوقات ملکی مفاد کی خاطر ان اداروں کے حوالے سے کچھ تلخ فیصلے بھی کرنا پڑتے ہیں۔ ایسا ہی فیصلہ پاکستان اسٹیل ملزکے حوالے سے قوم کے سامنے آیا ہے، جس کے مطابق حکومت نے یکمشت ادائیگی کے لیے 20 ارب روپے کی منظوری کے ساتھ ادارے کے 9 ہزار 350 ملازمین کو فارغ کرنے کی بھی منظوری دے دی ہے، یوں اسٹیل ملز کے 100 فیصد ملازمین کو فارغ کردیا جائے گا اور ہر ملازم کو اوسطاً 23 لاکھ روپے ادا کیے جائیں گے۔

کون نہیں جانتا کہ ملک کی اس سب سے بڑی انڈسٹری کی بربادی میں سیاسی سطح پر ہونے والی بدعنوانی، نااہلی اور بے جا بھرتیاں شامل حال رہیں، اس لیے اس ادارے کو اس حالت تک پہنچانے کی مکمل تحقیقات ضروری ہیں کہ کئی دوسرے قومی اداروں میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے اور یہ بات چاروں طرف گردش کر رہی ہے کہ ان اداروں کی نجکاری تحریک انصاف کی قیادت کا اہم ترین منشور ہے اور عزم بھی۔ اس حوالے سے یہ بھی غلط نہیں کہ تحریک انصاف کے منشور میں یہ بات بھی اوپری صفحات میں نمایاں طور پر درج تھی کہ خسارے میں چلنے والے قومی اداروں کو تحریک انصاف اپنے پاؤں پرکھڑا کرے گی، لیکن افسوس ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھال کر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنے کہے کے قطعی برعکس فیصلے کر رہے ہیں جس میں 46 پبلک سیکٹر اداروں کی نجکاری اور اسٹیل ملز کے ملازمین کو ملازمت سے برطرف کرنا ہے۔

کتنے ستم کی بات ہے کہ ملک و قوم کے بیشتر قومی ادارے غلط حکمت عملیوں اور نااہل ہاتھوں میں چلے جانے سے عام انسانوں کی زندگیوں یا ان کے پیٹ پر لات مارنے کا سبب بنتے چلے جا رہے ہیں اورکڑوی حقیقت اس حوالے سے یہ ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز ہر سال 24 ارب روپے، پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن 54 ارب روپے اور پاکستان ریلوے 35 ارب روپے کماتے رہے ہیں۔ حکومت کو اب ہوش کے ناخن لیتے ہوئے حالات میں بہتری کے بعد درست وقت میں نجکاری کا فیصلہ کرنا چاہیے اور اس عمل کو شفاف اور موثر انداز میں مکمل کیا جانا چاہیے تاکہ قومی دولت اور وسائل مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھوں میں رہنے کے بجائے معاشرے کے عام، بے نوا غریب عوام میں بھی گردش کرے اور ملک میں روزگار کے بہترین مواقع میسر آسکیں۔

میکاولی نے کہا تھا کہ ’’حکمران کسی کے باپ کو قتل کرا دے تو اس کے بیٹے اسے معاف کرسکتے ہیں لیکن اگر حکمران کسی کی زمین، کاروبار یا روزگار چھین لے یا اسے نقصان پہنچا دے تو وہ اسے کبھی معاف نہیں کرتے۔‘‘

ہم نے پاکستان کی تاریخ میں اس سنہری قول یا اصول کو کار فرما ہوتے دیکھا ہے۔ اسٹیل ملز کے بانی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو نے چاولوں کی ملیں اور چھوٹے بزنس مینوں کی ملکیت کو قومیانے کا جو فیصلہ کیا تھا اس کے سیاسی اثرات آج تک محسوس ہوتے ہیں۔ اور وقت کے مورخ کا یہ فیصلہ سبھی نے سنا اور دیکھا کہ پنجاب کے بازار اورکاروبار سے پیپلز پارٹی کو اس کے بعد سے کبھی ووٹ نہیں مل سکا۔سبزی منڈیاں، فروٹ منڈیاں، آڑہتیں اور ملیں اس وقت سے آج تک پیپلز پارٹی سے ناراض چلی آ رہی ہیں اور برسوں سے پنجاب جیسے بڑے صوبے میں پیپلز پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ اب عمران خان کے دلیرانہ فیصلے پر جہاں کہیں داد کے ڈونگرے برسیں گے تو وہیں ان پر شدید تنقید بھی ہوگی جس کے ان کے سیاسی کیریئر پر بہرطور اچھے اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔

ہماری جنم بھومی سندھ ہے لہٰذا یوں ہم خود کو سندھ کا سپوت سمجھتے ہیں، دریائے سندھ کی تہذیب میں جنم لینے اور دریائے سندھ کا پانی بھی ہم پیتے چلے آ رہے ہیں اور اس کی تاریخ کا ایک ادنیٰ طالب علم بھی خود کو گردانتے ہیں۔ ان وجوہات کی وجہ سے اور عروس البلاد کراچی کی ماند پڑتی روشنیوں کو دیکھتے اور سندھ سمیت پورے کراچی کو کچرے کے ڈھیروں میں دبا دیکھ کر بہت اذیت ہوتی ہے، رہی سہی کسر سندھ اور بالخصوص کراچی کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بے روزگاریوں کو دیکھ کر دل بری طرح کڑھتا ہے۔ ہمارا جی چاہتا ہے کہ ہمارا سندھ بھی تیزی سے ترقی کرے مگر افسوس کہ اس کی اندرونی لڑائیاں سندھ کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتی آ رہی ہیں۔

دکھ ہوتا ہے کہ سندھ حکومت برسوں سے اس صوبے میں حکمرانی کر رہی ہے لیکن صحت، صفائی اور پینے کے پانی کے حوالے سے اس کی کارکردگی صفر ہی چلی آ رہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مغربی ممالک کے واش روم ہمارے ملک کے کچن سے زیادہ صاف رہتے ہیں۔ صفائی کو ہمارے نبی کریمؐ نے نصف ایمان قرار دیا ہے لیکن یہ آدھا ایمان ہمارے پورے ملک میں دور دور تک کہیں دکھائی نہیں پڑتا۔ افسوس صرف دو مسلم ممالک ترکی اور ملائیشیا میں صفائی کی حالت بہتر کہی یا دیکھی گئی ہے اور ہمارا وطن تو صفائی نہ ہونے یا پھر گندگی کے لحاظ سے اپنی مثال آپ بنا ہوا ہے جس کے ذمے دار ہمارے حکمران ہی کہلائیں گے۔

وقت آگیا ہے کہ اداروں اور صوبوں کو بچانے کے لیے ایک دوسرے کے حقوق پر قبضہ کرنے کے بجائے ایک دوسرے کا جائز حق تسلیم کریں، بے شک سیاست الگ رکھیں لیکن مسائل کے حل کے لیے اکٹھے ہوجائیں۔ اسی سے سندھ اور اسی سے پاکستان مضبوط ہوگا، لیکن تکلیف دہ سچائی اس حوالے سے یہ ہے کہ وفاق (مرکزی حکومت) اور صوبہ سندھ کی حکومت کے درمیان آئیڈیل تعلقات کبھی بھی نہیں رہے اور کورونا کی وبا اور این ایف سی کے معاملے میں دونوں کے تعلقات بہت زیادہ بگڑ گئے ہیں۔

ہمارے حکمرانوں، سیاست دانوں یا ارباب اختیارکو یہ بات اپنی گرہ میں باندھ لینی چاہیے کہ کچھ مسئلے ایسے ہوتے ہیں جن کا حل شور شرابے سے نہیں چپ چاپ نکالا جاتا ہے اور یہ بھی کہ سیاست میں لڑائی جھگڑے سے زیادہ بے وقوفی خطرناک ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔