ریاست اور نجی شعبہ مل کر معیشت چلائیں

ایڈیٹوریل  اتوار 8 دسمبر 2013
اداروں کو سرکاری تحویل میں لینے سے ملکی معیشت تباہ و برباد ہوئی، وزیراعظم نوازشریف  فوٹو: پی آئی ڈی

اداروں کو سرکاری تحویل میں لینے سے ملکی معیشت تباہ و برباد ہوئی، وزیراعظم نوازشریف فوٹو: پی آئی ڈی

وزیر اعظم محمد نواز شریف نے جہاں ملک بھر میں نوجوانوں کے لیے قرضہ اسکیم کا اعلان کر کے صائب قدم اٹھایا وہاں انھوں نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی نیشنلائزیشن پالیسی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ اس پالیسی سے پاکستان کو بہت نقصان پہنچا‘ اداروں کو سرکاری تحویل میں لینے سے ملکی معیشت تباہ و برباد ہوئی‘ یہ پالیسی نہ ہوتی تو آج خطے میں سب سے زیادہ ترقی کرنے والا ملک پاکستان ہوتا‘ جنوبی کوریا سمیت کئی ممالک پاکستان سے آگے نکل گئے اور پاکستان فی کس آمدنی میں دیگر ایشیائی ممالک سے پیچھے رہ گیا۔

دائیں بازو کی تمام سیاسی جماعتیں اپنے معاشی نظریے کے مطابق فری مارکیٹ اکانومی کی حامی ہیں‘ مسلم لیگ ن بھی اسی معاشی نظریے کی حامل ایک سیاسی جماعت ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ فری مارکیٹ اکانومی کے مقابل پیپلز پارٹی کی نیشنلائزیشن کی پالیسی وہ مطلوبہ نتائج نہ دے سکی جن کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اختیار کی گئی تھی۔ نیشنلائزیشن پالیسی کے تحت بیورو کریسی کا اختیار بڑھا جس کی وجہ سے سرکاری تحویل میں لیے جانے والے ادارے اپنی پوری صلاحیت کے مطابق کام نہ کر سکے نتیجتاً ان کی کارکردگی سرکاری ملازمین کی روایتی تساہل پسندی اور فرائض سے اغماض برتنے کے باعث آہستہ آہستہ زوال پذیر ہوتی چلی گئی اور سرکاری ادارے حکومتی خزانے پر بوجھ بن گئے۔ انھیں چلانا حکومت کے لیے مشکل ہوتا چلا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی نیشنلائزیشن پالیسی کا دورانیہ تین چار سال کے عرصے پر محیط رہا اور 1977ء میں ان کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ بھٹو صاحب کے بعد زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لینے والے جنرل ضیاء الحق نے نیشنلائزیشن پالیسی کے برعکس ڈی ریگولیشن اور پرائیویٹائزیشن پالیسی اپنائی جس کے تحت قومیائے گئے اداروں کو ان کے مالکان کے سپرد کرنے کے عمل کا آغاز کر دیا گیا۔

ضیاء الحق کے گیارہ سالہ اور اس کے بعد برسر اقتدار آنیوالی حکومتوں کے دور میں ایک پالیسی کے تحت سرکاری اداروں کو زوال کا شکار کیا گیا اس میں مسلم لیگ کی حکومت کا بھی حصہ رہا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ‘ پی آئی اے اور ریلوے اسی پالیسی کا شکار ہو کر زبوں حال ہوئے‘ دیگر اداروں کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ قومی اداروں کے زوال میں ذوالفقار علی بھٹو کے بعد قائم ہونے والی حکومتوں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ بلاشبہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی یہ بات صائب ہے کہ فیکٹریاں چلانا حکومتوں کا کام نہیں لیکن حکومتوں پر یہ بھی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کاروبار سمیت کسی بھی شعبے میں قائم اجارہ داریاں ختم کرے تا کہ اداروں سے حاصل ہونے والے فیوض کسی خاص طبقے تک محدود رہنے کے بجائے تمام شہریوں تک پہنچیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ حکومت کی کمزور پالیسی کے باعث تعلیم اور صحت سمیت دیگر شعبوں میں اجارہ داریاں قائم ہو رہی ہیں۔

تعلیم حاصل کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن یہ اتنی مہنگی ہو گئی ہے کہ عام آدمی اپنے بچوں کو پڑھا نہیں سکتا۔ سرکاری اسپتالوں میں صحت کی بہتر سہولتیں نہ ہونے کے باعث نجی اسپتال اور دیگر صحت کے مراکز عوام کا استحصال کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے ہفتے کو وزیر اعظم یوتھ قرضہ اسکیم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کے دکھ اور درد دیکھ کر قرضہ اسکیم تیار کی ہے۔ اس قرضہ اسکیم کے تحت ایک کھرب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ابتدائی مرحلے میں 6 ماہ میں ایک لاکھ لوگوں کو قرضہ ملے گا۔ 50 فیصد قرضہ خواتین کے لیے مختص کیا گیا ہے‘ کسی کے لیے کوئی صوابدیدی کوٹہ نہیں ہو گا‘ قرضوں کے اجرا اور ان کے استعمال کے لیے مانیٹرنگ نظام بھی بنایا گیا ہے۔ قرض کی واپسی کا دورانیہ آٹھ سال اور اقساط کی ادائیگی کا آغاز ایک سال بعد ہو گا۔ اس وقت ملک بھر میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد روز گار کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی ہے۔

پاکستان کی 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے مگر آج تک حکومتوں کی جانب سے کوئی ایسی پالیسی نہیں بنائی گئی جس میں ملکی ترقی میں زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔ وزیر اعظم نے بالکل درست جانب نشاندہی کی کہ ملائیشیا‘ جرمنی‘ کوریا‘ امریکا اور جاپان میں نوجوانوں نے ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کیا اور چھوٹے کارخانے ان ممالک کی ترقی کے ضامن بن گئے، پاکستان میں جتنی بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے یہ ملک کو بلندی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ اب وزیر اعظم نے قرضہ اسکیم کا اجرا کر کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اگر نوجوانوں کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا گیا تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کا شمار بھی خوشحال ممالک میں ہونے لگے گا۔ اس وقت ملک کو امن و امان کی بگڑتی صورتحال‘ روز بروز بڑھتے ہوئے جرائم‘ فرقہ واریت اور دہشت گردی جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ جب تک حکومت ملک کو درپیش ان مسائل پر خصوصی توجہ نہیں دے گی‘ ترقی کا کوئی بھی منصوبہ بار آور نہیں ہو سکتا۔

جہاں دہشت گردی نے امن و امان کے مسائل پیدا کرنے کے علاوہ ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا ہے وہاں فرقہ واریت کے ناسور نے بھی اس مذموم کھیل میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ سرکاری اداروں میں کرپشن کا عفریت ملکی ترقی کی راہ میں ہمیشہ بڑی رکاوٹ رہا ہے۔ ہرحکومت نے کرپشن کے خاتمے کا وعدہ کیا مگر حقیقت حال یہ ہے کہ کرپشن کم ہونے کے بجائے پہلے سے بھی کئی گنا بڑھ گئی اور اس میں حکومتی ارکان کا بڑا حصہ رہا جنہوں نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے کرپشن کو بڑھاوا دیا۔ حکومتوں کی طرف سے شہریوں کی ترقی اور فلاح کے لیے متعدد اسکیمیں شروع کی جاتی ہیں مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ اس کا فائدہ شہریوں کو کم اور لوٹ مار کرنے والے مافیا کو زیادہ پہنچتا ہے۔

نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روز گاری اور جرائم کی ذمے دار بھی حکومتیں ہیں جن کی پالیسیوں کی بدولت آج نہ صرف ملکی صنعت بلکہ ہر شعبہ شدید بحران کا شکار ہے۔ اسمال انڈسٹریز ملکی صنعت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ توانائی بھی مطلوبہ مقداد میں سستی فراہم ہو۔ توانائی مہنگی ہونے کے باعث پیداواری لاگت بڑھتی جاتی  اور مال کی کھپت بھی مارکیٹ میں کم پڑ جاتی ہے۔ اب حکومت نے نوجوانوں کو روز گار فراہم کرنے کے لیے قرضہ اسکیم شروع کی ہے تو امید ہے کہ وہ اسے شفاف اور کامیاب بنانے کے لیے بھی اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔ منڈی کی آزاد معیشت کی طرف سفر آج کے دور کی ضرورت ہے لیکن بھٹو کی نیشنلائزیشن پالیسی کی ناکامی کی بنیاد پر ریاست کو قومی اہمیت کے شعبوں پر کنٹرول سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے‘ ریاست اور نجی شعبہ مل کر چلیں تب ہی معیشت متوازن رفتار سے ترقی کر سکتی ہے ورنہ اجارہ داریاں قائم ہونے سے ایک طبقہ تو خوشحال ہو جائے گا‘ عوام غریب سے غریب تر ہوتے چلے جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔