ٹرین کے مسافر

راؤ منظر حیات  اتوار 8 دسمبر 2013
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

یہ کالم میں شنگھائی کے Seagull ہوٹل کی سترویں منزل پر موجود اپنے کمرے میں لکھ رہا ہوں۔ رات کے تقریباََ تین بجے ہیں۔ کھڑکی سے شہر میں ہر طرف روشنی میں نہائی عمارتیں ہیں اور سڑکوں پرگاڑیوں کا ایک پر ہجوم کارواں نظر آ رہا ہے۔ میں ویت نام اور بیجنگ میں دس دن گزار کر یہاں پہنچا ہوں۔

یہ دونوں ملک کیا تھے اور کیا بن چکے ہیں۔ یہ معجزہ قابل ذکر ہے مگر اس سے بھی اہم ایک نکتہ  یہ ہے کہ ان ممالک نے ترقی کا سفر کب شروع کیا اور ان کے معاملات کس حد تک بگڑ چکے تھے۔ اس سفر کے بعد ذہن میں کافی الجھائو آ چکا ہے مگر کچھ سوالوں کا جواب دینا بھی آسان ہو چکا ہے۔ میں مرثیہ گوئی پر قطعاََ یقین نہیں رکھتا لیکن ملکی حالات دیکھ کر دل کو تکلیف ہوتی ہے۔ رنج و الم کے اس غبار کو سینے سے لگا کر رکھنا انسانی ذہن کے لیے اس درجہ تکلیف دہ ہے کہ بیان کرنا مشکل ہی نہیں  ناممکن ہے۔ پوری ترقی یافتہ دنیا اور تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک اب سچ اور صرف سچ کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہر ملک کا اپنا سچ ہے مگر وہ انتہائی بردباری کے ساتھ اپنے سچ پر قائم ہیں۔ ہمارے ملک میں سچائی کے راستہ پر ہم عرصہ دراز سے سفر کرنے سے نہ صرف خائف ہیں بلکہ اب تو ہم اس راستہ کو دیکھنے سے ہی خوف زدہ نظر آتے ہیں۔

ویت نام ایک ایسا ملک ہے جو اندرونی اور بیرونی جنگ کا شکار رہا ہے۔ امریکا اور اس کی ساتھی قوتوں نے اس ملک پر جنگ مسلط کر کے اس  کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ یہ ملک راکھ کے ڈھیر سے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوا اور آج یہ قابل رشک ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے۔ 1984-1985ء میں اس ملک کی سوشلسٹ قیادت نے ایک بہت دور رس فیصلہ کیا۔ اس ملک کو بند گلی سے نکال کر پوری دنیا کے سامنے سرمایہ کاری کے لیے کھول دیا گیا۔ قلیل عرصے میں دنیا کی اول درجے کی کمپنیوں نے یہاں اپنے کارخانے لگا لیے۔ سستی لیبر اور امن و امان کی بہتر صورت حال کی وجہ سے اس ملک میں ایک صنعتی انقلاب آ گیا اور یہ ملک 10%-20% کی شرح سے ترقی کرنے لگا۔ یہ کہانی صرف بیس پچیس سال کی ہے۔

ہنوئی زندگی سے بھر پور شہر ہے۔ تقریباََ ایک کروڑ باسیوں کا یہ شہر ترقی کی حیرت انگیز مثال ہے۔ شاہراوں، پلوں، ہوٹلوں اور بلند و بالا عمارتوں کا ایک سمندر ہے جو صرف چند سالوں میں معرض وجود میں آیا ہے۔ صنعتکار اور باہر سے آنے والے ماہرین اب اس شہر میں بین الاقوامی سطح کی زندگی گزار رہے ہیں۔ حکومت کی گرفت انتہائی مضبوط ہے اور پرندہ بھی حکومتی مرضی کے خلاف پَر نہیں مار سکتا۔ ہنوئی شہر میں Temple of Literature کے نام سے ایک قدیم ادارہ موجود ہے۔ دراصل یہ ہزار سال قبل کی ایک عظیم یونیورسٹی کے نشانات ہیں۔ اس عجوبہ درسگاہ میں طالب علموں کی ریاضت کی جگہیں، باغات اور پانی کے تالاب موجود ہیں۔ اس درسگاہ میں کنفیوشس کے خیالات اور بدھ مت کے زیر اثر تعلیم کا سلسلہ صدیوں تک جاری رہا۔ اس درسگاہ کو بادشاہوں کی مکمل معاونت اور سر پرستی حاصل رہی۔ آج بھی مقامی یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ لڑکے اور لڑکیاں اپنے گائون اور کالی ٹوپیاں پہن کر یہاں تصاویر بنوانے  آتے ہیں اور تصویر کے بعد اپنی ٹوپیاں ہوا میں اچھالتے ہیں۔ ایسی ہی ایک پُر مسرت تقریب کو وہاں دیکھنے کا موقع ملا۔

ویت نام میں مذہب کا  وجود نہیں ہے۔ حکومت کی سطح پر سوشلسٹ پارٹی کا مکمل کنڑول ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ لوگوں میں بہت حد تک خوف ہے، وہ حکومت کی کسی پالیسی پر تنقید نہیں کرتے۔ بلکہ حکومتی سطح کے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے گریز کرتے ہیں۔ ہر شخص پارٹی کی گرفت میں ہے۔ ہنوئی شہر میں پاکستانی 75-100 سے زیادہ نہیں ہیں۔ ہنوئی سے چار گھنٹے کی مسافت پر ایک بہت بڑی جھیل ہے۔ جھیل کے آخر میں کئی ہزار سال پرانا غاروں کا ایک مجموعہ ہے۔ غاروں کو دیکھنے کے لیے لاکھوں سیاح پوری دنیا سے یہاں آتے ہیں۔ ان کی صفائی اور ان کو اس حالت میں قائم رکھنا بذات خود ایک عجوبہ ہے۔

پانی میںCruise ایک دلچسپ سیر تھی۔ مرزا شمس الحسن کے چٹکلے، امتیاز کے پشتو سے بھر پور قہقہے، ناصر کے موبائل فون پر مناڈے کے پرانے گانے اور ندیم بیگ کا مختصر لہجہ بذات خود اس سیر کے برابر کی تفریح تھے۔ ہنوئی سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ہم لوگ ایک صنعتی صوبے  میں گئے۔ وہاں پارٹی کے نائب چیئرمین نے شاندار دفتر میں ہمیں اپنی صنعتی ترقی کے متعلق ایک بریفنگ دی۔ اس تقریب کے آخر میں ایک ظہرانہ کا انتظام تھا۔ اور اس کے ساتھ بیس منٹ کا ایک ثقافتی پروگرام بھی تھا۔ دونوں تقاریب انتہائی پُر وقار اور متوازن تھیں۔ شام کو ہمارے میزبان نے دونوں فنکشنز کا بل ہمیں بھجوا دیا جو تقریباََ 300 امریکی ڈالر تھا۔ مشرقی مہمان داری کے اصولوں سے یہ رویہ ذرا مختلف سا تھا۔ اب ہنوئی میں ہر تقریب سے پہلے ہم معلوم کر لیتے تھے کہ اس میں چائے یا کھانے کا بل ہم نے دینا ہے یا میزبان نے؟ بہر حال یہ بڑی معمولی سی بات تھی۔

چین کے دونوں شہر بیجنگ اور شنگھائی اپنی مثال آپ ہیں۔ بیجنگ دارالحکومت  ہونے کی وجہ سے ایک سرکاری تاثر دیتا ہے۔ یہ بہت مہنگا شہر ہے۔ اس میں خریداری کے لیے لاکھوں دکانیں ہیں۔ میرے خیال میں بیس سے پچیس برس میں یہ دنیا کی طاقت کا اصل محور ہو گا۔ چین بھی 1984ء تک مکمل طور پر دنیا سے کٹا ہوا ملک تھا۔ پاکستان کی قیادت نے چین کا ہاتھ تھاما اور چین اور امریکا کے درمیان رابطہ شروع کرایا۔ پی آئی اے  نے چین سے فلائٹس شروع کیں۔1984ء میں ڈنگ ژیاؤ پنگ نے چین کی معیشت کو دنیا کے لیے کھول دیا۔ آج چین دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت ہے۔ چین کے ملکی ذخائر تین ٹریلن امریکی ڈالر ہیں۔ دنیا کے تمام ممالک نے چین کے ساتھ اقتصادی روابط مضبوط کر رکھے ہیں۔25-30 سال سے چین کسی قسم کے علاقائی قضیے میں شامل نہیں ہے۔ اُس کو احساس ہے کہ وہ صنعتی اور اقتصادی ترقی کے مرحلے سے گزر رہا ہے اور اسے کسی بھی طریقے سے کسی ملک کے ساتھ بگاڑ کی کیفیت سے محفوظ رہنا ہے۔ چین کے انڈیا سے بہت مضبوط تجارتی روابط ہیں۔ پاکستان سے اس کا تجارتی حجم بہت کم ہے۔ بلکہ اگر موازنہ کیا جائے تو انڈیا کے مقابلے میں پاکستان سے تجارت تقریباََ 1:8 کے موازنے سے ہے۔

تائیوان سے چین کے تعلقات بہت کشیدہ رہے ہیں اور آج بھی دونوں ممالک ایک دوسرے کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس کے باوجود چین اور تائیوان کے درمیان تجارتی مراسم بہت قوی ہیں۔ میں نے چین میں ایک خاص رویہ دیکھا ہے۔ یہ رویہ سرکاری، غیر سرکاری اور اہل علم تمام حلقوں میں ایک جیسا ہے۔ ایک چینی محاورہ ہے۔Hide Your Shine  یعنی کامیابی کو چھپائو۔ کسی بھی جگہ چین کے ذمے دار لوگوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ ایک سپر پاور بننے جا رہے ہیں۔ کسی نے یہ نہیں جتلایا کہ 20-25  برس کے بعد چین اقتصادی اور فوجی طاقت کے اعتبار سے امریکا سے بہت آگے نکل جائے گا۔  بلکہ ہر جگہ ہمیں صرف یہ کہا جاتا رہا کہ چین ابھی ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہے۔  یہ صرف اور صرف ایک مشرقی رویہ ہے بلکہ میرے خیال میں یہ ایک بہت ہی سنجیدہ رویہ ہے۔

لیکن اس کے برعکس ایک اور چیز بہت ہی غور طلب ہے۔  پاکستان اور چین کے باہمی تعلقات از سر نو ترتیب پا رہے ہیں۔  جو حلقہ پاکستان کے حق میں ہے اس کی موجودگی اب صرف بالائی سطح تک محدود ہو چکی ہے۔  حکمران پارٹی کے اوپر کے طبقے کو اندازہ ہے کہ پاکستان نے چین کو دنیا سے روشناس کرانے کے لیے کتنا اہم رول ادا کیا ہے۔  مگر یہ احساس عام شہری اور تجارتی طبقات میں بڑی تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔  اس کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن ایک بہت بڑی وجہ چین اور انڈیا کی بڑھتی ہوئی تجارت ہے۔ ہندوستان کے شہری کاروبار کے سلسلے میں چین کے ہر اہم شہر میں موجود ہیں۔ شنگھائی کے متعلق میں کسی اور وقت عرض کروںگا۔

لیکن یہ سب کچھ سِکّے کا ایک رُخ ہے۔ میں اب پاکستان کے معروضی حالات کی طرف آتا ہوں۔ یہاں کاغذوں میں سب کچھ ہے مگر اصل میں کچھ نہیں ہے۔ صنعتی ترقی اور اقتصادی انقلاب تو بہت دور کی بات ہے ہم نے بھر پور معاشی ترقی کی طرف پہلا قدم تک نہیں اٹھایا۔ دہائیوں سے قوم سے مسلسل جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ ہم اسٹیشن پر کھڑی ہوئی ٹرین ہیں جو عرصے سے خراب ہے مگر ٹرین کا عملہ اور ڈرائیور ہمیں روز وعظ کرتا ہے کہ یہ ٹرین سو کلومیٹر کی رفتار سے تیزی سے سرپٹ دوڑ رہی ہے؟ مجھے کہیں بھی سنجیدہ منصوبہ بندی اور ایماندارانہ کوشش نظر نہیں آتی۔ اگر ویت نام جیسا برباد شدہ ملک صرف 25 سال میں دنیا میں ترقی کی مثال بن سکتا ہے تو ہمیں کیا ہوا ہے؟ یقین مانئے! دوسرے ملکوں کی ترقی کی مثال دیتے ہوئے میرا دل دکھتا ہے؟ مگر ہم اپنی ناکامی چھپائیں بھی تو کیسے؟ ساری دنیا میں ہم بالکل اجنبی بن کر رہ گئے ہیں؟ کھڑی ہوئی ٹرین میں سفر کرنا تو در کنار، اب سانس لینا بھی دشوار ہو چکا ہے؟ لیکن ہمیں باور کرایا جا رہا ہے کہ ہم بھر پور ترقی کر رہے ہیں؟ میں اس ٹرین سے اترنا چاہتا ہوں مگر اس کے تمام دروازوں اور کھڑکیوں کو بند کیا جا چکا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔