نثار کا سوال، کیانی کا جواب

تنویر قیصر شاہد  اتوار 8 دسمبر 2013
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

جناب اشفاق پرویز کیانی آرمی چیف کے بلند اور محترم عہدے سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔ انھوں نے جس باوقار انداز میں فوجی کمان کو آگے منتقل کیا ہے، سب نے اس اسلوب کی تعریف و تحسین کی ہے۔ ان کے ناقدین بھی اس کردار کے معترف ہوئے ہیں۔ ہم نے ایک گزشتہ کالم میں گزارش کی تھی کہ اب جب کہ کیانی صاحب فوج سے سبکدوش ہو چکے ہیں، میڈیا میں ان کے بارے میں متنازعہ باتوں سے گریز کرنا چاہیے مگر محسوس یہ ہوتا ہے کہ سنسنی خیزی کا عادی ہمارا الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اس گزارش کو قبول کرنے اور اجتماعی نظم برقرار رکھنے کے لیے تیار نہیں۔ مثال کے طور پر یہ در فنطنی چھوڑی گئی کہ جنرل کیانی نے 29 نومبر 2013ء سے قبل جنرل ہارون اسلم کو جوائنٹ چیفس آف اسٹاف مقرر کرنے کے لیے بہت کوششیں کیں۔ کیانی صاحب کی ان مبینہ کوششوں میں مسلم لیگ ن کی قیادت بھی شامل تھی لیکن ہارون اسلم صاحب نے یہ عہدہ قبول کرنے کے بجائے فوج سے ریٹائرمنٹ لینا زیادہ مناسب خیال کیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ جنرل پرویز کیانی صاحب، جنرل ہارون اسلم کو بطور آرمی چیف نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ ایک نجی ٹی وی کے مذاکرے میں شریک ایک مبصرنے تُنک کر کہا: ’’جنرل کیانی کی رخصتی پر اخبارات میں شہ سرخیاں لگانے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ خبر زیادہ سے زیادہ سنگل یا ڈبل کالم شایع کی جانی چاہیے تھی۔ بھارت میں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘

ہمیں نہیں معلوم جنرل (ر) کیانی صاحب کے بارے میں اب تک بے بنیاد خبریں شایع کر کے کس کی خدمت کی جا رہی ہے؟ انگریزی زبان کے ایک اور کالم نویس کو یہ دکھ کھائے جا رہا ہے کہ فوجی قیادت کی تبدیلی کے حوالے سے جو تقریب جی ایچ کیو میں منعقد ہوئی، اسے اتنا رنگ برنگ بنانے اور ’’لاتعداد‘‘ مہمانوں کو مدعو کرنے کی بھلا کیا ضرورت تھی؟ قومی ٹی وی پر تشہیر کیوں کی گئی؟ ہم ان سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ انھیں جنرل کیانی اور اب جنرل راحیل شریف پر جو غصہ ہے اسے تھوک دیں۔ خود کو نارمل کرنے کی کوشش کریں۔

جنرل اشفاق پرویز کیانی صاحب اب ریٹائر ہو کر تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان کی خدمات اور مبینہ غلطیاں ہمارے عسکری باب کا عنوان بن چکی ہیں۔ فیصلہ اب مؤرخ کے دربار میں ہے جو یقینا ان سے انصاف کرے گا، تعصب کی عینک پہن کر ڈنڈی مارنے کا مرتکب نہیں ہو گا۔ جنرل کیانی صاحب کے ریٹائر ہونے سے قبل بھی ہم نے ان سے حُسن ظن ہی رکھا ہے لیکن ان کی رخصتی سے قبل چار پانچ ہفتوں کے دوران ہم نے تواتر سے ان کے بارے میں تین کالم لکھے۔ ان میں توقع بھی کی گئی تھی کہ کیانی صاحب فوج سے فراغت کے بعد اپنے تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر ایک تاثراتی کتاب لکھیں گے جو یقیناً ان کے پیچھے آنے والوں کے لیے مشعل راہ اور روشنی و تربیت کا مینار ثابت ہو گی۔

اگر بھارتی افواج کے کئی جنرلز (مثال کے طور پر جنرل وی کے سنگھ، جنرل ہر بخش سنگھ، جنرل جے جے سنگھ وغیرہ) ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی یادوں اور تجربات پر مبنی کتابیں لکھ سکتے ہیں تو ہمارے کیانی صاحب کو بھی علم دوستی کے اس میدان میں قدم رکھنا چاہیے لیکن اس سلسلے میں کیانی صاحب کے ایک برادر خورد، جو خود بھی فوجی افسر رہ چکے ہیں، نے پچھلے ماہ ایک معاصر کو انٹرویو دیتے ہوئے ہماری توقعات اور امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ کیانی صاحب کے چھوٹے بھائی، جو اب ٹھیکیداری کرتے ہیں اور ماشاء اللہ خاصے خوشحال بھی ہیں، نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جنرل (کیانی) صاحب ریٹائرمنٹ لینے کے بعد کوئی کتاب نہیں لکھیں گے، صرف آرام کریں گے۔ گویا ہماری امید کا ایک چراغ بجھ سا گیا ہے۔ یکم دسمبر 2013ء کو وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی جنرل کیانی سے کچھ اسی قسم کا سوال کیا۔ چوہدری صاحب اپنی بے پناہ مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر ریٹائر ہونے والے جنرل کیانی صاحب سے ملنے ان کے گھر تشریف لے گئے۔ انھوں نے کیانی صاحب سے سوال کیا: ’’جناب، ریٹائرمنٹ کے بعد (اب) کیا پروگرام ہے؟‘‘ اور کیانی صاحب نے کمال اطمینان سے جواب دیا : ’’آرام کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

زیادہ اطمینان کی بات یہ ہے کہ اس بار نئے آرمی چیف (جنرل راحیل شریف) کا انتخاب کرتے ہوئے وزیر اعظم جناب محمد نواز شریف نے مبینہ طور پر چوہدری نثار صاحب سے مشورہ نہیں کیا۔ وزارت عظمی کے دوسرے دور میں نواز شریف صاحب نے، چیف آف آرمی اسٹاف کا انتخاب کرتے وقت، چوہدری صاحب کی مشاورت پر عمل کر کے برسوں جس جہنم کا سامنا کیا، اُسے ایک دنیا نے دیکھا ہے۔ ہاں‘ چوہدری صاحب کا یہ اقدام قابل ستائش قرار دیا گیا ہے کہ وہ خوشی خوشی جنرل کیانی صاحب سے یکم دسمبر کو ملنے ان کے دولت کدے پر گئے اور ان کی پیشہ ورانہ زندگی کی ستائش بھی کی۔ چوہدری صاحب نے کیانی صاحب کے بارے میں کہا: ’’جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی نے دوران ملازمت اچھی روایات قائم کیں۔ ان کا سارا کیریئر انتہائی باعزت اور قومی وقار کا حامل رہا۔ دوران ملازمت انھوں نے نہ صرف قومی و عسکری خدمات کی درخشاں مثالیں قائم کیں بلکہ سول و ملٹری تعلقات کو ایک نئی جہت دی۔ اسے جدت بخشی۔ میں نے خود جنرل اشفاق پرویز کیانی کو غیر ملکی طاقتوں کے سامنے پاکستان کی آزادی و خود مختاری کا کیس انتہائی جذبے سے وکالت کرتے سنا اور دیکھا۔ انھوں نے نہ صرف اپنے حلف کے مطابق فوج کو سیاست سے علیحدہ رکھا بلکہ جمہوری روایات کی پاس داری کرتے ہوئے پاک فوج کے اُس پیشہ ورانہ عزت و مقام کو بحال کیا جسے ان کے پیش رَو کے دور میں شدید دھچکا لگا تھا۔‘‘ چوہدری صاحب نے بجا طور پر رخصت ہونے والے جنرل کیانی صاحب کو خراج تحسین پیش کیا لیکن ہمیں معلوم نہیں کہ ان کے تاثرات سے نئے نئے وزیر دفاع بننے والے خواجہ صاحب بھی اتفاق کرتے ہیں یا نہیں جن کے بارے میں ایک سینئر اخبار نویس نے تبصرہ کرتے ہوئے ان کے فوج کے بارے میں خیالات کے حوالے سے خاصے بڑے اور خاصے زیادہ تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

فوج میں بیالیس برس گزارنے کے بعد جنرل (ر) کیانی صاحب اب آرام کر رہے ہیں۔ تناؤ اور ذہنی کشاکش سے دور ایک مطمئن زندگی۔ وہ ابھی اللہ کے فضل و کرم سے صحت مند اور چاق و چوبند ہیں۔ دنیا یقینا ان کے تجربات سے مستفید ہونا چاہے گی۔ وہ فکر اور غور و خوض کرنے والی عسکری شخصیت ہیں؛ چنانچہ ان کے افکار اور تجزیوں سے دنیا بالخصوص پاکستانی عوام کو محروم نہیں کرنا چاہیے۔ اسی لیے ہم ابھی تک، ان کے ایک برادرِ خورد کے اعلان کے باوصف، مُصر ہیں کہ انھیں حرفِ مطبوعہ، کتابوں کی دنیا آباد کرنی چاہیے کہ ان کا دل و دماغ رازوں کا دفینہ ہے۔ جنرل اکبر خان رنگروٹ، جنرل ایوب خان، جنرل فیض علی چشتی، جنرل پرویز مشرف اور جنرل شاہد عزیز نے بھی تو چشم کشا کتابیں لکھیں اور داد سمیٹی۔ کتاب سے محبت کے حوالے سے امریکی صدر اوباما نے حال ہی میں ایک شاندار اور قابل تقلید مثال قائم کی ہے۔ پچھلے ماہ جب امریکا میں THANKS  GIVING  کی رسم کا دن آیا تو امریکی صدر نے دو درجن کتابیں خرید کر اپنی دونوں بیٹیوں کو تحفے میں پیش کیں۔ کیا ہمارے ہاں حکمران طبقے میں ایسی کوئی مثال موجود ہے؟

نوٹ: 2دسمبر 2013ء کو شایع ہونے والے ہمارے ایک کالم بعنوان ’’نئی فوجی قیادت‘‘ کی پہلی سطر یوں تھی: ’’چار دن قبل، بروز جمعۃ المبارک 29 جنوری 2013ء کو دمکتی چمکتی دھوپ میں ۔۔۔۔‘‘ تاریخ غلط شایع ہوگئی۔ 29 جنوری 2013ء کی جگہ 29 نومبر 2013ء شایع ہونا چاہیے تھا۔ قارئین کرام نوٹ فرما لیں۔ شکریہ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔