آئی سی سی کے چیئرمین ’’احسان مانی‘‘

سلیم خالق  پير 22 جون 2020
شائقین کو بے وقوف بنانے کے بجائے ابھی کوئی ٹھوس اقدامات کریں جس سے ٹیم کی پرفارمنس اور ڈومیسٹک کرکٹ بہتر ہو۔ فوٹو: فائل

شائقین کو بے وقوف بنانے کے بجائے ابھی کوئی ٹھوس اقدامات کریں جس سے ٹیم کی پرفارمنس اور ڈومیسٹک کرکٹ بہتر ہو۔ فوٹو: فائل

’’میرے پاس ایک بہت بڑی اسٹوری ہے، صرف تم کو بتا رہا ہوں، احسان مانی کوآئی سی سی کا چیئرمین بنایا جا رہا ہے، انھیں اس حوالے سے پیشکش ہوچکی، لگا دو کل کی ہیڈلائن‘‘

میرے ایک دوست جو پی سی بی والوں کے بھی پکے دوست بلکہ غیراعلانیہ ترجمان ہیں جب انھوں نے مجھے یہ ’’بریکنگ نیوز‘‘ دی تو میں نے ان کو مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ایسا ہونے کا ایک فیصد بھی چانس نہیں، ویسے آپ کو یہ خبر فلاں صاحب نے تو نہیں بتائی، یہ سن کر انھوں نے تھوڑا وقفہ لیا جس سے میری بات کی تصدیق ہو گئی پھر وہ بڑے اسٹائل سے کہنے لگے کہ ’’میں نہیں بتاؤں گا‘‘ یہ سن کر میں نے قہقہہ لگایا اور فون بند کر دیا۔

پی سی بی کی نئی انتظامیہ بھی اب پرانی ہونے لگی ہے مگر اس کے کریڈٹ پر کامیابیاں کم اور ناکامیاں زیادہ ہیں، گذشتہ کچھ عرصے کے دوران جوئے کی ویب سائٹ پر پی ایس ایل میچز لائیو دکھائے جانے، غریب ملازمین کو کورونا کے دنوں میں ملازمت سے نکالنے سمیت جو بڑے مسائل سامنے آئے اس سے ادارے کی ساکھ متاثر ہوئی، اسی لیے اب  امیج بہتر بنانے کی کوشش ہو رہی ہے،ملازمین کی بحالی، سی ای او کی جانب سے  ویلفیئر فنڈ میں رقم کرانے، یونس خان کی بطور بیٹنگ کوچ تقرری اس کی واضح مثالیں ہیں، یہ تمام فیصلے یقیناً اچھے ہیں لیکن سنگین غلطیوں کا ازالہ ایسے نہیں ہو سکتا۔

احسان مانی کو آئی سی سی چیئرمین شپ کا امیدوار ظاہر کر کے بھی  بورڈ کی ’’امیج بلڈنگ‘‘ کی کوشش ہوئی، سوچنے کی بات ہے کہ بھارت آئی سی سی میں اپنے ہم وطن ششانک منوہر کے پیچھے پڑا رہا، ان پر بورڈ کے مفادات کیخلاف کام کرنے کا الزام لگایا، وہ کیسے کسی پاکستانی کو اتنی اہم پوسٹ پر آنے دیتا، خود پی سی بی گورننگ بورڈ نے اپنے گذشتہ اجلاس میں انگلینڈ کے کولن گریوس کو سپورٹ کرنے پر اتفاق کیا  تھا، بورڈ کی سربراہی اتنی مشکل سے ملتی ہے، 75 سال کی عمر میں کیسے مانی صاحب اسے چھوڑ کر آئی سی سی میں چلے جاتے؟اس وقت ’’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور‘‘ والا معاملہ ہے۔

ایک طرف بورڈ کرپشن کیخلاف قانون بنانے کی باتیں کرتا ہے دوسری جانب جوئے کی ویب سائٹ پر پی ایس ایل کی لائیو اسٹریمنگ کا معاملہ معافی پر ختم کردیا، ویڈیو کانفرنس میں چیئرمین سے میں نے یہی سوال کیا  تو وہ  کہنے لگے کہ قانونی چارہ جوئی پر اخراجات زیادہ آجاتے اس لیے نہیں کی، دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی بورڈ نے حالیہ دنوں میں کئی مقدمے کرتے وقت اس حوالے سے نہیں سوچا،رکن قومی اسمبلی اقبال محمد علی بازی لے گئے اور انھوں نے کھیلوں میں کرپشن کیخلاف قانون کا بل جمع بھی کرا دیا، یہ طویل پراسس ہے، البتہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا خوش آئند ہے،ماضی کے فکسرز آج بھی ہیرو بنے پھرتے ہیں کیونکہ ان کے جرم کو ثابت کرنے کیلیے تحقیقات نہیں ہوئیں، بینک اکاؤنٹس و جائیدادیں بھی چیک نہیں کی جا سکیں۔

قانون بننے کے بعد تحقیقاتی ایجنسیز یقیناً ایسا کرسکیں گی جس سے انھیں جرم ثابت کرنے میں مدد ملے گی، اسی طرح  تھوڑی سی پابندی کاٹ کر کھیل میں واپس آنے والے کرپٹ کرکٹرز جو جوئے کی کمائی پر عیش کرتے ہیں ان کیخلاف بھی ایکشن لیا جا سکے گا اور جائیدادیں ضبط ہو سکیں گی، البتہ ابھی ’’دور کے ڈھول سہانے‘‘ والا معاملہ ہے، قانون کب پاس ہوگا یہ بات بھی غور طلب ہے، پھر پاکستان میں تو سگنل توڑنا، سیٹ بیلٹ نہ لگانا، عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی بھی ممنوع ہے مگر بیشتر لوگ ایسا کرتے ہیں، اصل مسئلہ قانون بنانے کے بعد اس پرعمل درآمد ہوگا، جب بغیر کسی دباؤ میں آئے کرپٹ کھلاڑیوں کو سزائیں ملیں گی تو دوسرے لوگ عبرت پکڑیں گے،انھیں فکسنگ میں لانے والوں کو بھی گرفت میں لانا ہوگا، تب ہی قانون بنانے کا کوئی فائدہ ہوگا، ابھی تو ایسا کچھ نہیں ہے اور جسے بچانا ہو اسے بچا لیا جاتا ہے۔

دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے، فی الحال تو کچھ دورئہ انگلینڈ کی بات کر لیتے ہیں پاکستان کرکٹ بورڈ بغیر کسی جوابی فائدے کے ٹیم بھیجنے کو تیار ہو گیا،یقیناً اس سے ای سی بی حکام کے دلوں میں وسیم خان کی عزت خاصی بڑھ گئی ہو گی،بورڈ اسی بات پر خوش ہے کہ چارٹرڈ فلائٹ پر ٹیم جائے گی  اور29 کرکٹرز و14رکنی مینجمنٹ پر مشتمل 43 رکنی اسکواڈ کے اخراجات انگلش بورڈ اٹھائے گا،اگر ایسی ہی پیشکش پی سی بی کرتا تو کیا انگلینڈ ٹیم بھیج دیتا؟

دراصل یہ سیریز صرف پیسوں کیلیے ہو رہی ہے، انگلش بورڈ نے اگر چارٹرڈ فلائٹ پر 10کروڑ روپے خرچ کیے یا زیادہ کھلاڑیوں کو بلایا تو اسے بھاری آمدنی بھی توہو گی، پاکستان سے سیریز کی ویلیو 7 کروڑ پاؤنڈ ہے، بہرحال اس سے کرکٹ کو ترسے شائقین کو ایکشن دیکھنے کا موقع تو مل ہی جائے گا،ایک اخباری رپورٹ کے مطابق اسی چارٹرڈ فلائٹ پر چیئرمین پی سی بی احسان مانی اور اہلیہ بھی اپنی سالانہ چھٹیوں کیلیے انگلینڈ جا رہے ہیں، وسیم خان، ذاکر خان و دیگر کے بارے میں ابھی تک کوئی رپورٹ نہیں آئی لیکن شاید وہ بھی کوئی بہانہ ڈھونڈ کر چلے ہی جائیں،ابھی طیارے کی کافی نشستیں بھرنا باقی ہیں۔

آخر میں کچھ آسٹریلیا میں شیڈول ٹوئنٹی 20 ورلڈکپ کا ذکر کر لیں، اس سال تو ایونٹ ہونا ممکن نہیں لگتا لیکن پاکستان کیلیے تشویش کی بات آئندہ برس فروری، مارچ کی ونڈو پر آئی سی سی کی نظر ہے، اگر میگا ایونٹ ان تاریخوں پر منتقل ہوا تو پی ایس ایل6 کا کیا بنے گا؟ پی سی بی حکام کو ابھی سے اس حوالے سے بات چیت کرنا شروع کر دینی چاہیے، آئی سی سی سے ملنے والے فنڈز تاخیر کا شکار ہیں، ایسے میں فرنچائز فیس بورڈ کیلیے بہت اہمیت رکھتی ہے، اگر ایونٹ پر غیریقینی چھائی رہی تو کون پیسے دے گا، ویسے ہی فرنچائزز کے ساتھ تعلقات خاصے خراب ہیں۔

چیئرمین بورڈ اور سی ای او کا تین، تین سال کیلیے تقرر ہوا مگر وہ پانچ سالہ منصوبے بنا رہے ہیں، شائقین کو بے وقوف بنانے کے بجائے ابھی کوئی ٹھوس اقدامات کریں جس سے ٹیم کی پرفارمنس اور ڈومیسٹک کرکٹ بہتر ہو، جب ایسا کریں گے تو امیج بلڈنگ کیلیے مصنوعی چیزوں کا سہارا لینے کی کوئی ضرورت نہیں پڑے گی۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پرفالو کر سکتے ہیں)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔