بہن بیٹیوں کی وراثت

محمد ابراہیم عزمی ایڈووکیٹ  اتوار 8 دسمبر 2013
03332257239@hotmail.com

[email protected]

طاہرہ چچی تھری ان ون ہیں۔ چچی کے علاوہ پپا و بہن کا اور ماں کی ممتا یعنی تینوں کا سنگم ہیں۔ ان سے یہ رشتہ میرے اسکول کے زمانے سے قائم ہوا ہے۔ چچی کے والد کا کپڑوں کا بڑا کاروبار تھا۔ تیس سال قبل چچا بھی بڑے ہینڈسم ہوا کرتے تھے۔ اب بہت کچھ بکھر چکا ہے۔ دس سال قبل چچی کے والد انتقال کرگئے۔ وراثت کی تقسیم نہ ہونے کی سرگوشیاں سنی جا رہی تھیں۔ اس وقت چچا کے حالات اتنے برے نہ تھے اس لیے چچی خاموش تھیں۔ ایک طرف مرحوم کی بیٹیوں کی غربت تھی تو دوسری طرف بیٹے عیاشیاں کر رہے تھے۔ ایک سے دوسرا بنگلہ اور دوسری سے تیسری دکان اور تیسرے سے چوتھے بچے کی دھوم دھام سے شادیاں۔ بھتیجوں کے ہنی مون ایک طرف تو چچی اور ان کے خاندان کے ضروری اخراجات کی الجھنیں دوسری طرف۔ چچا پریشان تھے اور اب کرائے کے مکان میں آگئے تھے۔ خاندان کی ایک تقریب ختم ہونے پر سر راہ چچی نے روک لیا اور وراثت کے بارے میں شرعی اور قانونی سوالات پوچھنے لگیں۔ میں نے کہا کہ یہ تو ہر وارث کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حصے مقرر کردیے ہیں جن میں تبدیلی کا اختیار کسی کو نہیں۔ وراثت انتقال کے بعد جلد از جلد تقسیم ہونی چاہیے۔ یہ تھے ان کے سوالات کی روشنی میں جوابات۔ 10 دسمبر کا دن خواتین کے حقوق کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔ آج ہمارے کالم کا اس سے بہتر موضوع کوئی ہوسکتا تھا؟

چچی کے بھائیوں کے ٹھاٹ باٹھ اور ان کی بہنوں کی غربت سب کو نظر آرہی تھی۔ ایک دن چچی کا فون آیا اور انھوں نے مجھے اپنی بہن کے گھر آنے کا کہا۔ معاملہ وہی بھائیوں کے حصہ دینے کا تھا۔ چچی کے تینوں بھائی میرے ہم عمر ہیں اور بچپن سے ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ چچی اپنے گھر کے بجائے بہن کے گھر بلا کر چچا کو شرمندگی سے بچانا چاہتی تھیں۔ جس شخص کو بچپن سے ٹھاٹھ باٹھ میں دیکھا تھا وہ اب اپنے خاندان کے ہمراہ سسر کی وراثت کی تقسیم کا منتظر تھا۔ چچی کی بہن کے حالات بھی اچھے نہ تھے۔ وہ بھی کرائے کے مکان میں رہ رہی تھیں۔ اب دو خواتین اپنے باپ اور شوہر کا عروج دیکھنے کے باوجود باپ کی غفلت اور بھائیوں کی لاپرواہی کے ہاتھوں بدحالی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھیں۔ ان کا افسوس یہ تھا کہ والد نے اپنے کمال کے دور میں بچیوں کے بارے میں کچھ نہ سوچا۔ اب بھائی سب کچھ ہونے کے باوجود حصہ دینے کو تیار نہیں۔ جائیداد کی مالیت کئی کروڑ تھی اور اکثر بھائیوں کے نام تھی۔ ایک بنگلہ والدہ کے نام تھا جو بھائیوں نے بہلا پھسلا کر اپنے نام گفٹ کروالیا تھا۔ بوڑھی اور کمزور بیوہ سب کچھ کرنے پر مجبور تھی کہ رہنا تو اسے بیٹوں کے ساتھ تھا۔ مظلوم خواتین نے بتایا کہ ایک دکان والد کے نام ہے جس کی مالیت اب کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ انھوں نے پوچھا کہ مقدمہ دائر کریں توکیا ہو؟ میری رائے تھی کہ خونی رشتے داروں کو عدالت جانے سے گریز کرنا چاہیے۔ کوئی اور راستہ ہو تو پہلے اسے آزمانا چاہیے۔ کورٹ کچہری جانے سے آپ کے والد کی عزت سر بازار اچھلے گی۔ بہتر ہے کہ آپ چند رشتے داروں یا کپڑا مارکیٹ کے تاجروں کو درمیان میں ڈالیں۔ دونوں بہنوں کو یہ بات پسند آئی۔

اگر بھائی قابض ہوں، غاصب ہوں، بدنیت ہوں اور پیسہ ان کے ہاتھوں بلکہ پنجوں میں ہو تو؟ کمزور بہنوں کو ٹالنے والوں کے لیے رشتے داروں اور اپنے کاروباری ساتھیوں کو بہلانا کیا مشکل تھا۔ ایک سال گزر گیا لیکن کچھ نہ ہوا۔ ایک بار پھر چچی کا فون آیا کہ وہ کچھ دینے کو تیار نہیں۔ ٹال رہے ہیں کہ کاروبار مندا ہے۔ دونوں بہنوں کا کہنا تھا کہ وہ ہمیں صرف مکان دلا دیں۔ ہم ہر مہینے کا کرایہ برداشت نہیں کرسکتے۔ آنکھ جھپکتے ہیں کہ مہینہ گزر جاتا ہے اور کرائے کی تلوار سر پر لٹک جاتی ہے۔ نہ وہ برادری کی سنتے ہیں اور نہ مارکیٹ ایسوسی ایشن کی اور عدالت جانا ہم نہیں چاہتے تو اب کیا ہوسکتا ہے؟ دو ماہ اور گزر گئے۔

ایک دن دونوں بہنیں دفتر آگئیں۔ ان کے ساتھ بیٹا تھا جو علاقے سے واقف تھا۔ سوچ رہے تھے کہ کیا کرنا چاہیے؟ چچی کی بہن نے تجویز دی کہ آپ آفس سے ابھی ہمارے بھائیوں کو فون کریں۔ انھیں بتا دیں کہ اب بھی کچھ نہ کیا تو ہم مقدمہ دائر کردیں گے۔ شاید اس ڈر سے وہ ہمیں ہمارا حق دینے پر آمادہ ہوجائیں۔ انھوں نے افسوس سے کہا کہ اب بھائی لوگ ہمارے فون بھی نہیں اٹھاتے اور ہم نے ان کے گھر جانا چھوڑ دیا ہے۔ فون شعیب نے اٹھایا۔ وہ پہچان گیا اور سمجھ بھی گیا کہ فون کیوں کیا ہے۔ اسے بتایا کہ آپ کی بہنیں میرے دفتر میں بیٹھی ہوئی ہیں اور وہ وراثت کی تقسیم کا کہہ رہی ہیں۔ شعیب نے کہا کہ میں اسمٰعیل بھائی کے ساتھ آپ کے آفس آؤں گا اور ہم معاملات طے کرلیں گے۔ ایک ہفتہ پہلے بہنوں کے چہرے پر غربت، مظلومیت اور بے چارگی دیکھی تھی۔ اب سات دن بعد بھائیوں کی خوشحالی نظر آ رہی تھی۔ وہ اسی طرح سامنے کرسیوں پر بیٹھے تھے جس طرح ایک ہفتے قبل ان کی بہنیں بیٹھی تھیں۔ بہن بیٹیوں کو وراثت میں حصہ نہ دینے کے اتنے واقعات ہیں کہ ہر ماہ ایک کالم لکھا جاسکتا ہے۔

وراثت کی تقسیم سے وہ انکاری نہ تھے۔ وہ جانتے تھے کہ بیٹے کے دو اور بیٹی کا ایک حصہ قرآن نے مقرر کردیا ہے لیکن دینا نہیں چاہتے تھے۔ نیت نہیں تھی یا کاروبار میں کہیں پیسہ پھنسا بیٹھے تھے۔ ان کا پہلا سوال تھا کہ ہماری بہنیں کس کس جائیداد کی تقسیم چاہتی ہیں؟ سوال بڑا شاطرانہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ تمام جائیداد تو مرحوم کے نام نہ تھی لیکن خریدی تو اسی کاروبار سے گئی تھی۔ میرا جواب تھا کہ وہ سب کچھ جو والد کے انتقال کے وقت آپ لوگوں کے پاس موجود تھا۔ دونوں کاروباری حضرات بہت تیز تھے۔ تیس سال سے ان لوگوں کو جاننے کے باوجود انھیں اتنا نہیں جانا جتنا کہ تیس منٹ میں پہچان لیا۔ میرے اس جواب سے وہ جھٹکا کھا گئے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ صرف ایک دکان کی بات ہوگی جو اس وقت والد صاحب کے نام ہے۔ ان کا سوال تھا کہ دکان کے علاوہ جائیداد تو ہم لوگوں کے نام ہے یعنی ان پر بہنوں کا حق نہیں بنتا۔ مسکرا کر ان سے پوچھا کہ کیا یہ سب کچھ آپ نے اپنی تعلیم، ہنر یا صلاحیت سے کمایا ہے یا دوسرے ملک جاکر محنت مزدوری کرکے کمایا ہے؟ آپ کے والد کا پیسہ نہ ہوتا تو آپ لوگ چند ہزار روپے کی نوکریاں کر رہے ہوتے۔ پورے خاندان سے واقفیت اور قانونی و شرعی جواب سے دونوں لاجواب ہوچکے تھے۔ اب انھوں نے اپنی مجبوریاں گنوانی شروع کردیں اور بتایا کہ ایکسپورٹ میں ان کی کروڑوں کی رقم ڈوب گئی ہے۔ میں بھی جانتا تھا اور چچی نے بھی بتایا تھا کہ یہ لوگ پھنس گئے ہیں۔ بہنیں کہتیں کہ ہمارا حق ہمیں دے دو تو مصیبتوں سے آزاد ہوجاؤ گے لیکن بھائیوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی۔ بہنیں صرف مکان مانگتی تھیں اور باقی سب کچھ بھائیوں کے لیے چھوڑنے پر آمادہ تھیں۔

بہن بیٹیوں کی وراثت وقت پر نہ دی جائے تو پھر دن بہ دن یہ کام مشکل ہوتا جاتا ہے۔ پہلا فرض باپ کا ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی، صحت اور کمال کے زمانے میں یہ کام کر گزرے۔ پھر موت، بیماری اور زوال کسی کو مہلت نہیں دیتے۔ ایک موقعے پر تمام بھائی بہنوں کو دفتر بلایا۔ بہنیں اپنا حق مانگتیں اور بھائی اپنی کاروباری مجبوریوں کا رونا روتے۔ ماحول اس وقت سوگوار ہوگیا جب ایک مرحلے پر دونوں بہنیں رو پڑیں اور دفتر سے چل دیں۔ بھائیوں کو نرمی و سختی سے سمجھایا اور اللہ و قانون سے ڈرایا۔ مکافات عمل کا فلسفہ بھی ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آنکھوں اور عقل پر دولت کی پٹی پڑی ہوئی تھی۔ ایک بھائی نے کہا کہ ہم کچھ کرنے کی کوشش کریں گے۔ بات اتنی بے دلی سے کہی گئی کہ امید نہ تھی کہ کچھ ہوگا۔ کیش رقم ان کے پاس نہ تھی۔ ایک کالم ’’ساٹھ سال کے بزنس میں‘‘ میں ہم نے نقد رقم تاجروں کو پاس رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔

کئی ماہ اور بیت گئے۔ چچی اس دوران فون کرتی رہیں۔ ان کو معاملہ اللہ کی ذات پر چھوڑ دینے کا مشورہ دیا۔ انھوں نے شکوہ کیا کہ ہمارے والد نے اچھی مالی پوزیشن، عمدہ صحت اور کاروبار پر کنٹرول کے باوجود ہمارا کچھ نہ سوچا۔ صرف دکانیں اور مکان لیتے رہے۔ پھر ان کی صحت خراب رہنے لگی اور سب کچھ بھائیوں کے کنٹرول میں آگیا۔ ہماری اس مشق کو تقریباً دو سال گزر چکے تھے۔ بھائیوں کے کاروباری خسارے کی خبریں خاندان میں گشت کر رہی تھیں۔ چچی نے بتایا کہ آدھا بنگلہ بک گیا ہے اور ایک بھائی کرائے کے مکان میں رہ رہا ہے۔ ایکسپورٹ کا کپڑا انگلینڈ میں تو چاول کوالٹی کے مطابق ایکسپورٹ نہ کرنے پر دبئی میں ضبط ہوچکا ہے۔ بھائیوں نے مارکیٹ کے بیچوں بیچ ایک دوسرے کو گالیاں دیں اور مار پیٹ کرکے والد کی عزت کو سر عام نیلام کردیا۔ چچی کہنے لگیں کہ لوگ کیا سو دو سو سال جینے کی امید رکھتے ہیں؟ ان کی پلاننگ اور لمبی چوڑی منصوبہ بندیاں ختم کیوں نہیں ہوتیں؟ پچاس، ساٹھ اور ستر برس کے لوگوں کے جنازوں میں شرکت انھیں اپنی زندگی کے خاتمے کا احساس کیوں نہیں دلاتی؟ یہ احساس بھی کہ تقسیم کرنی ہے بہن بیٹیوں کو وراثت۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔