دنیا کدھر جارہی ہے

زبیر رحمٰن  اتوار 8 دسمبر 2013
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

ڈھائی ہزار سال قبل ارسطو نے کہا تھا کہ ’’طبقاتی نظام تمام برائیوں کی جڑ ہے۔‘‘ حضرت انسان 50 لاکھ سال قبل جب حیوان نما انسان کی شکل میں رہتا تھا تو اس وقت رنگ و نسل، ذات پات، مذہب فرقے کے تصور کا گمان تک نہ تھا۔ پھر 50 ہزار سال قبل جب کاشتکاری اور غلہ بانی کرنے لگا تو شروع میں طبقاتی تفریق نہ تھی لیکن جب کچھ بلوانوں نے انگلی اٹھاکر کہا کہ یہ زمین یا یہ گائے میری ہے، اس وقت سے طبقاتی تصور آیا اور پھر ریاست کے وجود میں آنے سے یہ طبقاتی تقسیم زیادہ مستحکم اور پائیدار ہوگئی۔ ریاست در حقیقت دولت مندوں کی محافظ بن گئی جس نے آگے چل کر عالمی سرمایہ داری یا سامراج کی شکل اختیار کرکے دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم کرلی۔ جیسے کارل مارکس، باکونن، پیترکروپوتگن، ایما گولڈ مان اور ولادیمیر ایچ لینن نے مختلف انداز میں اپنی مختلف کتابوں میں یہ کہا کہ ایک جانب دولت کا انبار تو دوسری جانب افلاس زدہ لوگوں کی فوج ہوگی۔ پھر طبقاتی کشمکش میں اضافہ ہوگا اور کارکنان ریاستی اجارہ داری کو شکست دے کر ایک غیر طبقاتی ہموار معاشرے کی تشکیل دیں گے۔

آج دور جدید کی عالمی سرمایہ داری میں یہ بات درست ثابت ہو رہی ہے۔ عالمی سرمایہ داری، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ڈبلیو ٹی او اور اے ڈی پی وغیرہ کی شکل میں اتنی عالمگیریت حاصل کرچکی ہے کہ کہیں ایک کڑی اگر ٹوٹتی ہے تو عالمی سرمایہ داری میں زلزلہ آجاتا ہے۔ 1997-1929 اور 2008 کی معاشی انحطاط پذیری اس کی واضح مثال ہے۔ اگر وال اسٹریٹ مندی میں جاتا ہے تو ہانگ کانگ پر بھی اس کا اثر پڑ جاتا ہے۔ جیساکہ امریکا اور چین کے تضادات وقتی طور پر کم ہونے پر امریکا نے چین اور بھارت کو ایران سے متعلق پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ ایران کے جوہری ڈیل سے اجناس کی عالمی منڈیاں گرگئیں۔ خام تیل، پلاٹینم، تانبے، ایلومینیم، لیڈ، ٹین، کلئی، جست، چینی اور مکئی کی قیمتوں میں کمی ہوگئی۔ اس طرح کے تضادات عالمی سرمایہ داروں کے مابین دنیا بھر میں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر صومالیہ اور سوڈان میں امریکا اور چین کے تضادات، مشرق وسطیٰ، افغانستان اور پاکستان میں امریکا، چین، قطر، سعودی عرب اور ایران کے تضادات۔ امریکی سامراج اور لاطینی امریکا کے ممالک خاص کر کیوبا، بلوویا، وینزویلا، ارجنٹینا، یوروگئے، ایکواڈور اور پیراگوئے وغیرہ کے مابین تضادات، چین اور انڈیا کے تضادات۔ یہ سارے تضادات دنیا بھر کی دولت کی لوٹ کے لیے ہیں۔

کل تک جب سوویت روس سوشلسٹ بلاک میں تھا تو پوتن کے پاس کوئی اثاثہ نہیں تھا مگر آج صدر پوتن دنیا کے امیر ترین سربراہ مملکت ہیں۔ وہ 40 ارب ڈالر کے مالک ہیں جب کہ سعودی فرمانروا 16 ارب ڈالر کے ساتھ چوتھے نمبر پہ ہیں۔ دوسری جانب اس وقت روس میں 22 فیصد اور سعودی عرب میں 25 فیصد لوگ بے روزگار ہیں۔ پاکستان کا معاشی دارالخلافہ کراچی ہے اور یہاں کی صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ اس وقت کراچی میں بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان، ڈکیتی، چوری، قتل، کاروں، موٹر سائیکلوں اور موبائل فونز کا چھینا جانا عام ہے۔ اس کے خلاف رینجرز اور پولیس کو زیادہ بااختیار بناکر آپریشن بھی جاری ہے لیکن ان وارداتوں میں کمی نہیں آرہی ہے۔ صرف ایک ماہ نومبر میں 153 شہری قتل کردیے گئے، 307 گاڑیاں اور 1657 موٹرسائیکلیں چھین لی گئیں اور 2643 موبائل فونز چھین لیے گئے دو بینک ڈکیتیوں میں 48 لاکھ روپے لوٹ لیے۔ ادھر سیکڑوں تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوان کباڑ کے کاروبار سے منسلک ہوگئے۔ گزشتہ ماہ کباڑ میں کام کرنیوالے 85 ہزار افراد سے بڑھ کر ایک لاکھ ہوگئے۔

فالتو اشیا دو بار خریدی اور ایک بار فروخت کی جاتی ہیں، باسی روٹی باڑہ مالکان کو فروخت اور کاغذ کی ردی پنجاب بھیج دی جاتی ہے، بوتلوں کی ری سائیکلنگ ہوتی ہے، شیشے چوڑی ساز کارخانوں کو بھیج دیے جاتے ہیں۔ اس طرح سے جائزہ لیں تو اس وقت لاکھوں کروڑوں نوجوان جو اپنے معیار سے گھٹیا کام کرنے پر مجبور ہیں جب کہ حکمراں کارخانے بنانے کے بجائے موٹر وے بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 73 فیصد روزگار کالے دھن سے منسلک ہے۔ اس غیر قانونی کالی معیشت میں بیروزگار نوجوانوں کو خام مال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو بیروزگاری کی نحوست سے تنگ آکر انتہائی کم اجرت پرکام کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ یہی وہ کالی معیشت ہے جسے زندہ رکھنے کے لیے ہر روز درجنوں انسانی جانوں کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ یہ خونی ریاست اور اس کے گماشتے حکمران اس کھلواڑ میں حصے دار ہیں اور یہ کالا دھن اس معیشت کی ناگزیر ضرورت ہے۔  دہشت گردی، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان کی صنعتوں میں بیروزگار نوجوانوں کو بطور اوزار استعمال کیا جارہا ہے۔

اس کے علاوہ گلی کوچوں کے جرائم میں نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد شامل ہے جن کو اس سماج نے دھتکار دیا ہے۔ بیروزگاری محض نوجوانوں کی صلاحیتوں کو ضایع نہیں کر رہی بلکہ اس نے پورے سماج کو ایک عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یہ بے چینی اور عدم تحفظ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سماج ایک نہ ختم ہونے والی وحشت بن چکا ہے۔ پاکستان میں 75 فیصد نوجوان ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ مستقبل کا خوف ہر وقت ان کے سروں پر منڈلاتا رہتا ہے۔ ہر آنے والا دن ان کی بقا کے لیے خطرے کا پیغام لے کر آتا ہے۔ منشیات کے استعمال میں گزشتہ چند برسوں کے دوران 200 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ لاکھوں روپے سے خریدی ہوئی تعلیم بھی ان کے مستقبل کو روشن نہیں کر پا رہی۔ کسی نسل کے ساتھ اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس کا مستقبل ہی اس کے لیے خوف بن جائے اور وہ ماضی کے اندھیروں، مایوسی، فرسودگی، پسماندگی اور بیگانگی میں پناہ تلاش کرنا شروع کردے۔ ان تمام مسائل اور برائیوں کا خاتمہ صرف ایک غیر طبقاتی، ہموار سماج اور امداد باہمی کے نظام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس کے سوا سارے راستے بند گلی میں جاتے ہیں۔ انقلابی تبدیلی ہی عوام کو خوشحالی دلا سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔