’’طلبہ یونین کے حق میں نہیں، انٹری ٹیسٹ ضروری ہے‘‘

رانا نسیم  پير 9 دسمبر 2013
ہنگاموں اور ہڑتالوں سے کھنڈر بننے والی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کوحیات نو بخشنے والے وائس چانسلر محمد اکرم خاں کی گفتگو۔ فوٹو: فائل

ہنگاموں اور ہڑتالوں سے کھنڈر بننے والی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کوحیات نو بخشنے والے وائس چانسلر محمد اکرم خاں کی گفتگو۔ فوٹو: فائل

بلاشبہ عصر حاضر کی انسانی ترقی سائنس و ٹیکنالوجی کی مرہون منت ہے۔ جس ملک یا قوم نے اس علم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا، پھر اسے دنیا پر راج سے کوئی نہیں روک سکتا۔

امریکا، چین و چاپان جیسے ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جن کے سر پر دنیا کی حکمرانی کا تاج سجا ہی سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث ہے۔ اور شائد یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں بھی سائنس و ٹیکنالوجی کی افادیت کو سمجھا جانے لگا ہے۔ وطن عزیز میں یوں تو ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کے شعبہ جات بہت زیادہ مضبوط و مستحکم نہیں، لیکن پھر بھی اب نوجوانوں کو سائنٹیفک اور انجینئرنگ ٹیکنالوجی میں جدید ریسرچ اور صلاحیتوں کے اظہار کے بھرپور مواقع حاصل ہو رہے ہیں، اور یہ مواقع پیدا کرنے میں یونیورسٹی آف انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی لاہور نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یو ای ٹی کی ترقی اور کامیابیوں کے سفر میں موجودہ وائس چانسلر لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد اکرم خاں کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔

16سال قبل انہوں نے اس وقت یو ای ٹی کی باگ ڈور سنبھالی، جب یہ عظیم درسگاہ بعض سیاسی جماعتوں کی سرپرستی کی وجہ سے سیاست کا اکھاڑہ بن چکی تھی۔ ہنگاموں اور ہڑتالوں کے باعث یونیورسٹی دو دو ماہ بند رہا کرتی اور چار سالہ ڈگری چھ اور سات سال گزرنے پر بھی مشکل سے ملتی۔ ایسے نامساعد حالات میں انہوں نے یوای ٹی کے بکھرے ہوئے شیرازے کو بچانے کا مشکل ترین فریضہ بڑی جانفشانی اور ایمانداری کے ساتھ انجام دیا اور آج تک دے رہے ہیں۔ سربراہ ادارہ کی فہم وفراست اور عمیق نگاہ کے نتیجے میں جہاں اکیڈمک اور ریسرچ میں انقلابی تبدیلیاں آئیں، وہاں انہوں نے قلیل مدت میں اس جامعہ کو وہ حیات نو بخشی کہ دیکھنے والا یقین نہیں کرسکتا کہ یہ وہی یو ای ٹی ہے جہاں بارود کے دھویں اٹھا کرتے تھے، عمارتیں اور سڑکیں کھنڈرات بنے ہوئے تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد اکرم خاں کی قیادت میں یوای ٹی میں ایک نئی صبح کا ظہور ہوا۔ اس تناظر میں ’’ایکسپریس‘‘ نے لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد اکرم خاں سے ملاقات کرکے ان کے خیالات جانے، جو قارئین کے لئے پیشِ خدمت ہے۔

وائس چانسلر یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی محمد اکرم خاں کچھ یوں گویا ہوئے کہ ’’سربراہان ادارہ کا عزم و ہمت کسی بھی ادارے کو ترقی کی بلندیوں پر لے جا سکتا ہے، ہم نے یوای ٹی کی بہتری کیلئے بہت سارے اقدامات کئے یہ سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے۔ اس کی کئی ایک مثالیں دی جا سکتی ہیں، جیسے گزشتہ سال ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے سفارش کردہ رسائل میںہماری یونیورسٹی کے 19 جبکہ بین الاقوامی رسائل وجرائد میں39 ریسریچ پیپرز شائع ہوئے جبکہ لیزر، سافٹ وئیر، نینو ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیو نی کیشن وغیرہ کے جدید عنوانات پر تحقیق ہورہی ہے۔ اس رفتار کو بڑھانے کے لئے سال 2000 ء میں جو دوریسرچ سنٹر کام کررہے تھے، اب ان کی تعداد بڑھ کر 15 تک جا پہنچ چکی ہے۔ سپورٹس کمپلیکس، تمام شعبوں اور تمام 17ہاسٹلز میں انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے۔ کسی بھی تعلیم ادارے میںلائبریریاں مطالعہ وتحقیق کا سرچشمہ ہوا کرتی ہیں۔ چنانچہ یہاں کی نیشنل لائبریری آف انجنیئرنگ سائنسز تین لاکھ کتب ورسائل کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل لائبریری سپورٹ کی حامل ہے جسے پاکستان میں انجینئرنگ کی جامعات میں امتیازی مقام حاصل ہے۔ یوای ٹی بین الاقوامی حیثیت کی حامل دانش گاہ ہے، جس کا دنیا بھر کی جامعات سے ایک مربوط تعلق ہے۔ تقریباً20 ممالک کی جامعات سے اساتذہ و طلبہ کے تحقیق اور دیگر علمی سرگرمیوں کے اشتراک وتبادلے کے معاہدات ہیں۔ یو ای ٹی نے جہاں دنیا کی بڑی بڑی جامعات سے یو ایم او سائن کررکھے ہیں وہاں بڑے بڑے صنعتی اداروں کے ساتھ روابط بھی استوار کر رکھے ہیں۔‘‘

انٹری ٹیسٹ، یونین سازی سمیت طلبہ کے دیگر مسائل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وائس چانسلر یو ای ٹی نے کہا کہ ’’جہاں تک انٹری ٹیسٹ کی بات ہے تواس کا انعقاد ہونا چاہیے، اس سے طالب علم کی صلاحیتوں کا پتہ چلتا ہے۔ پھر پاکستان ایک غریب ملک ہے اس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں لیکن ہمیں انہی وسائل میں رہتے ہوئے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنا ہے۔ انٹری ٹیسٹ اس لحاظ سے بھی بہتر ہے کہ طلبا کو بورڈ نتائج میں رہ جانیوالی کمی کو انٹری ٹیسٹ کے نمبروں سے پورا کرنے کا ایک موقع مل جاتا ہے دوسرا جو طلبہ بورڈ امتحان میں ناجائز ذرائع استعمال کر کے زیادہ نمبرز حاصل کر لیتے ہیں یہ ان کے معیار کو جانچنے کا بھی بہترین ذریعہ ہے۔ میں طلبہ یونینز کے حق میں نہیں ہوں کیوںکہ ان سے تعلیمی ادارے سیاسی اکھاڑے بن جاتے ہیں، البتہ طالب علموں کے مسائل حل کرنے کے لئے ہم نے سٹوڈنٹس پر مشتمل ایسوسی ایشنز بنا رکھی ہیں وہی طالب علموں کے مسائل حل کرتے ہیں۔‘‘

محمد اکرم خاں نے نصاب و نظام تعلیم پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’ نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کسی بھی ملک اور معاشرہ کا بے حد بنیادی اور اہم حصہ ہوتا ہے۔ نصاب تعلیم اور نظام تعلیم سے اس ملک اور سماج کی ترقی کو پرکھا جاسکتا ہے۔ سماجی ساختیات میں ان دو عناصر کا بے حد اہم رول ہوتا ہے۔ اس سے یہ بھی طے ہوتا ہے کہ نوجوان نسل کیسی ہوگی اور اپنے سماج اور پوری دنیا پر وہ کس طرح اور کس قدر اثر انداز ہوگی۔ اثر ونفوذ بڑھانے کی صلاحیت ایک ہمہ گیر معیاری نظام تعلیم کے ذریعہ ہی نوجوان نسل میں پیدا کی جاسکتی ہے۔ قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ موقوف ہوتی ہے۔ اس تخیل کی تعمیر تعلیمی نظام سے ہی ہوتی ہے۔ اعلی دماغ تیار کرنے کے لئے ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جو دوسروں پر محتاجی کو ختم کردے، ایسا تعلیمی نظام جس میں تعلیم برائے نوکری نہ ہو بلکہ تعلیم برائے شخصیت سازی اور سماج سازی ہو۔ نصاب سازی اور نظام سازی کی سمت جو بھی کوششیں اب تک ہوئی ہیں ان کا دائرہ اثر نہایت محدود رہا ہے۔‘‘

پاکستان میں انجینئرنگ و ٹیکنالوجی کے فروغ بارے اظہار خیال کرتے ہوئے وائس چانسلر کا کہنا تھا ’’قائداعظمؒ نے پاکستان کی ترقی و تعمیر کے لئے سائنس و ٹیکنالوجی کی اہمیت کو ان الفاظ میں بیان کیا کہ ’’ہمارے لوگوں کو فورا سائنٹیفک، ٹیکنیکل میدان میں مہارت حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہمارے ملک کی معاشی حالت کے مستقبل کو مضبوط بنایا جا سکے۔‘‘ اور آج ہم قائدؒ کے اسی فکر کے حصول میں سرگرداں ہیں کیوں کہ کسی بھی ملک کی خوشحالی اور ترقی کا دار مدار اس کے انجینئروں کی کارکردگی پر منحصر ہے اور ان کی مہارت کی عکاسی کرتا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں پیشہ ورانہ سہولیات کی فراہمی سے پاکستان میں نوجوانوں کو صلاحیتوں کے اظہار کے بھرپور مواقع حاصل ہو رہے ہیں۔ پاکستانی طلبہ کی ذہنی صلاحیتوں اور مہارت کا کوئی ثانی نہیں اور انہوں نے بین الاقوامی سطح پر ہونے والے مقابلوں اور امتحانات میں صلاحیتوں کے بل بوتے پر اپنی برتری ثابت کی ہے۔ حکومتی کاوشوں سے پاکستان نے ٹیلی کام، کنسٹرکشن، پاور جنریشن، آٹو موبائل، انجینئرنگ کے شعبوں میں شاندار ترقی کی ہے اور انجینئرنگ اداروں سے تربیت پانے والے اعلی ملازمتیں حاصل کر کے صنعتی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔‘‘ جامعات کے وائس چانسلرز کے اختیارات میں کمی کے سوال محمد اکرم خاں نے انتہائی اختصار سے جواب دیا کہ’’ وائس چانسلرز کے اختیارات میں کمی بعض اداروں کی اپنی کمزوریوں کے نتیجے میں ہوئی ہے، جنہوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا اور میرٹ اور شفافیت کو نظر انداز کیا جس کی وجہ سے حکومت کو اس قسم کا اقدام اٹھانا پڑا۔‘‘

انرجی بحران کے حل میں یو ای ٹی کی کوششیں

پنجاب حکومت کے تعاون سے یو ای ٹی کالا شاہ کاکو کمیپس میں انرجی سنٹر قائم کیا گیا ہے، جو پنجاب میں توانائی کے علوم کے لئے تدریس کا نہ صرف مثالی ادارہ ثابت ہو گا بلکہ توانائی کے حصول کے جدید ذرائع پر تحقیق کرے گا۔ توانائی کے متباد ل ذرائع کے حصول کیلئے قائم اس سنٹر کا مقصد پنجاب کے توانائی کے مسائل کو ہنرمندی کے جدید طریقوں سے حل کرنا ہے۔ یہاں توانائی کے ماہرین جدید توانائی کی مختلف اقسام پر تحقیق کریں گے۔ اس سنٹر میں سات شعبے ہوں گے، فوٹو وولٹک (پی وی)انرجی ڈویژن(Photovoltaic (PV) Energy Division)، سولر تھرمل انرجی ڈویژن، ونڈ انرجی ڈویژن، بائیو انرجی ڈویژن، کول انرجی ڈویژن، ہائیڈل انرجی ڈویژن، مختلف انرجی ٹیکنالوجیز ڈویژن۔ اس کے علاوہ یہاں انرجی کے مضمون میں ایم ایس سی ‘ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی کلاسز کا اجراء بھی کیا جا چکا ہے۔ وی سی لیفٹینینٹ جنرل (ر) محمد اکرم خاں کے مطابق تمام تر مشکلات کے باوجود توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے اس عظیم الشان منصوبہ کی بنیاد رکھی گئی۔ ہم عوام اور وزیراعلیٰ پنجاب کو یقین دلاتے ہیں کہ ہمارے پروفیسرز اور ڈاکٹرز توانائی کے بحران کے حل میں ان کی امیدوں پر پورا اتریں گے۔

یو ای ٹی کا قیام اور کامیابیوں کا سفر

پاکستان کی سب سے قدیم انجینئرنگ یونیورسٹی یو ای ٹی کا باقاعدہ قیام1972 ء میں عمل میںآیا۔1921ء میں اس ادارے نے ’’مغل پورہ ٹیکنیکل کالج‘‘کے نام سے اپنے کام کا آغاز کیا۔ جب1923 ء میں پنجاب کے گورنر سر ایڈورڈز میکلیگن نے اس کی بنیادی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا، تب اس کو ’’میکلیگن انجینرنگ کالج‘‘کہا جانے لگا۔1962ء میں اس ادارے کو ویسٹ پاکستان یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کا نام دیا گیا۔ طلبہ کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر 1975ء میں ٹیکسلا میں انجینئرنگ یونیورسٹی سے ملحقہ ایک کالج کا آغاز ہوا، جسے 1978 ء میں یو ای ٹی ٹیکسلا کا درجہ مل گیا۔ یو ای ٹی لاہور کی شاخیں کالا شاہ کاکو، فیصل آباد، گوجرانوالہ اور نارووال میں قائم ہیں، جو یو ای ٹی کے ذرائع کے مطابق جلد ہی خود مختار یونیورسٹیاں بن جائیں گی۔ جامعہ سے الحاق شدہ دیگر اداروں میں گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی بہاول پور، فیصل آباد اور لاہور کے علاوہ این ایف سی فیصل آباد اور حمایت اسلام خواتین ڈگری کالج لاہور شامل ہیں۔ جامعہ میں آج 38 مختلف شعبہ جات ہیں اور اسی وسعت کی وجہ سے اساتذہ کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ 2000ء میں اساتذہ کی تعداد281 تھی جس میں81 پی ایچ ڈی اساتذہ تھے۔ اب 2013ء میں فیکلٹی ممبرز کی تعداد بڑھ کر893 تک جا پہنچی ہے جن میں181پی ایچ ڈی اساتذہ ہیں۔ طلبہ کی تعداد جو 2000ء میں 4854 تھی آج بڑھ کر 11313تک پہنچ چکی ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے معیار اور تحقیق کی بنیاد پر پاکستانی جامعات کی درجہ بندی 2013ء کا اعلان کیا ہے، جس کے مطابق یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی دوسرے نمبر پر ہے۔ یہ جامعہ ایشیاء کی100 بہترین یونیورسٹیوں میں بھی شامل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔