ہر جگہ اپنا ذکر ضروری ہے!

مریم کنول  پير 9 دسمبر 2013
خود پسند افراد رشتے نبھانے میں کمزور واقع ہوتے ہیں۔ فوٹو: فائل

خود پسند افراد رشتے نبھانے میں کمزور واقع ہوتے ہیں۔ فوٹو: فائل

انسان کو سماجی حیوان بھی کہا جاتا ہے، یہ جہاں تنہا نہیں رہ سکتا وہیں یہ اپنے احساسات اور خیالات کو بھی دوسروں کو بتانے پر مجبور ہوتا ہے۔

قوت گویائی کی نعمت کے ذریعے یہ اپنے جیسے دوسروں لوگوں کے سامنے اپنی رائے ظاہر کرتا ہے، جس میں کبھی کوئی موضوع ہوتا ہے اور کبھی کوئی مضمون۔ اسی طرح بعض چیزوں پر اتفاق ظاہر کرتاہے اور کچھ چیزوں پر اسے اختلاف ہوتا ہے۔  انسان کی اسی نعمت کے تعلق سے ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ گفتگو کرتے لمحے زیادہ تر خود سے متعلق ہی بات پر مرکوز رہتے ہیں وہ دراصل اپنی مخصوص ذہنی کیفیت کے تحت ایسا کر رہے ہوتے ہیں۔

جرمنی سے تعلق رکھنے والے ماہرین نفسیات کے مطابق بار بار اپنے بارے میں بات کرنے والے لوگ عام طور پر ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ جو اپنے جملوں میں بہت زیادہ ’’میں‘‘، ’’مجھے‘‘ اور ’’میرے بارے میں‘‘ جیسے الفاظ کی تکرار کرتے ہیں، ان میں بے چینی یا ذہنی دبائو کا شکار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ اپنی گفتگو میں بہت زیادہ اسم ضمیر میں مجھے اور میرا استعمال کرتے ہیں عام طور پر توجہ کے حصول کے طلب گار ہوتے ہیں۔ انہیں باہمی رشتے نبھانے میں بھی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، جب کہ ان کے برعکس ایسے لوگ جو گفتگو میں جمع اسم ضمیر مثلاً ہم ، ہم سب زیادہ استعمال کرتے ہیں اپنے رشتوں کو زیادہ بہتر طریقے سے نبھانا جانتے ہیں۔

جریدے’’ریسرچ ان پرسنالٹی‘‘ میں شایع ہونے والے تحقیقی مطالعے میں 103 عورتوں اور 15مردوں نے حصہ لیا جن کی اکثریت نفسیاتی مسائل کا شکار تھی اور ان کا علاج جاری تھا۔ 20 سے 90 منٹ کے انٹرویو میں مریضوں سے تعلقات نبھانے کا طریقہ خود کے بارے میں رائے اور ماضی سے متعلق سوالات پوچھے گئے، جب کہ  ڈپریشن کے حوالے سے بھی ایک سوال نامہ بھروایا گیا۔ محققین  نے بعد میں ہر انٹرویو میں بولے جانے والے جملوں میں سے واحد اسم ضمیر (میں مجھے اور میرا ) اور جمع اسم ضمیر مثلاً (ہم ، ہم سب) الفاظ کی گنتی کروائی۔ جن لوگوں نے اپنے انٹرویو میں بار بار میں کا زیادہ استعمال کیا تھا انھوں نے ڈپریشن ناپنے کے اسکیل پر زیادہ اسکور حاصل کیا۔ یہ لوگ خود کے ساتھ نامناسب رویہ رکھنے کے علاوہ تنہائی پسندی کا بھی شکار نظر آئے۔ محققین کہتے ہیں کہ ’’جن شرکا نے اپنی گفتگو میں زیادہ جمع اسم ضمیر مثلاً ’’ہم ‘‘ استعمال کیا اس میں ایک قسم کا کم شدید طرز عمل نظر آیا۔‘‘

اس طرز عمل کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہی ٹھنڈا رویہ دراصل رشتوں میں مناسب حد برقرار رکھنے کے حوالے سے ایک مثبت پہلو کے طور پر کام کرتا ہے۔ گفتگو میں جمع اسم ضمیر زیادہ استعمال بہتر سماجی تعلقات پر زور دیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ واحد اسم ضمیر ’میں‘ کا استعمال خود کو نمایاں ہستی کے طور پر پیش کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ تحقیق کے مطابق واحد اسم ضمیرکا بہت زیادہ استعمال دوسروں سے توجہ حاصل کرنے کے لیے ایک حکمت عملی کا حصہ ہو سکتا ہے، تاہم اب تک ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ گفتگو میں، میں اور مجھے کی تکرار ڈپریشن کا باعث بنتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ لوگوں کی بولنے کی عادت غالباً ان کی اپنے بارے میں اور دوسروں سے متعلق سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔

بہت سی خواتین بھی اپنی گفتگو میں زیادہ تر اپنے حوالے سے ہی بولتی نظر آتی ہیں۔  اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب ایسے مزاج کی دو خواتین باہم روبرو ہوں تو گویا ایک دوسرے پر اپنی ’’میں، میں‘‘ کی دھاک بٹھانے کا ایک مقابلہ سا ہو رہا ہوتا ہے، یہ کسی تکرار اور لڑائی کے بغیر بھی ہوتا ہے، عمومی گفتگو شروع ہوتے ہی ایک طرف کی گفتگو چل رہی ہوتی ہے اور دوسری طرف سے اپنی گفتگو کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔ یعنی دوسری خاتون کو سنے اور اس کا جواب دیے بغیر ہی اپنی طرف سے بات شروع کر دی جاتی ہے اور دونوں میں سے کوئی بھی رک کر ایک فریق کو اپنی بات مکمل کرنے کا موقع نہیں دے رہا ہوتا۔  ایسے میں دیکھنے والوں کو یہ نہایت عجیب وغریب اور بچگانہ سا طریقہ لگتا ہے اور بعض مواقع پر نہایت غیر مناسب بھی۔ اس کے بعد ظاہر ہے دوسروں کی نظر میں آپ کی اہمیت اور وقعت بھی ضرور متاثر ہوگی اور آپ کی شخصیت کی بردباری اور وقار ختم ہوتا جائے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ گفتگو میں صرف اپنا ذکر ضرورتاً کریں اور خود سے خوامخوا نمایاں ہونے کی کوشش ہر گز نہ کریں۔ ہمیشہ سامنے والے کی بات مکمل ہونے کے بعد اپنی بات شروع کریں اور کبھی قطع کلامی کرنا پڑے تو پہلے اس کی معذرت کریں تاکہ دوسروں کو اندازہ ہو کہ آپ اس امر کا ادراک رکھتی ہیں کہ کسی کی بات کاٹنا معیوب بات ہے۔

گفتگو میں دوسروں کی بات اور مسائل کو اہمیت دینا اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ آپ سامنے والے کی قدر کرنا جانتے ہیں اور اسے خود سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور آپ ایک سنجیدہ اور خوش اخلاق خاتون ہیں۔ خود نمائی سے بچنے والوں کا مقام دوسروں کی نگاہ میں بھی بلند ہوتا ہے، جب کہ ہر وقت اپنی کام یابیوں کا ڈھنڈورا پیٹنا اور مسائل کا رونے والوں کو نہ صرف دوسرے اچھا نہیں سمجھتے، بلکہ ان کی محفل میں موجودگی بھی اچھی نہیں سمجھی جاتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ ازسر نو اپنی گفتگو کا جائزہ لیں، کہیں آپ بھی تو نادانستگی میں  اس کا شکار نہیں ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔