نوخیز کلیاں مرجھائی مرجھائی کیوں؟

زویا پارس  پير 9 دسمبر 2013
کچھ بچے مِل جُل کر، یعنی ٹیم کی شکل میں کھیلنے سے، گریز کرتے ہیں۔ وہ فطرتاً کم آمیز ہوتے ہیں۔ فوٹو: فائل

کچھ بچے مِل جُل کر، یعنی ٹیم کی شکل میں کھیلنے سے، گریز کرتے ہیں۔ وہ فطرتاً کم آمیز ہوتے ہیں۔ فوٹو: فائل

اولاد ماں باپ کی امیدوں کا محور ہوتی ہے۔ والدین اپنے بچے کو ایک مثالی بچے کے طور پر دیکھنا اور دوسروں کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔

اس تگ ودو میں اکثر والدین بچوں کی جسمانی اور نفسیاتی تبدیلیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ والدین چاہتے ہیں کہ اولاد ان کے ہر حکم کی فوری تعمیل کرے۔ اگر بچہ ان کے مطالبات اور توقعات پر پورا اترنے میں ذرا سی بھی کوتاہی کرے تو وہ معتوب ٹھہرتا ہے۔ اگر کبھی بچے سے کوئی کام کہا جائے اور وہ اس سے انکار کر دے، تو فوراً اسے بد تمیز قرار دے دیا جاتا ہے، لیکن یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ بچے نے یہ طرزِعمل کیوں اختیار کیا؟

بچے کوئی کام کرنے سے انکار کیوں کرتے ہیں، اس مسئلے کو والدین توجہ کے قابل ہی نہیں سمجھتے۔ بہت سے والدین بچوں کی ہٹ دھرمی کے آگے بڑی آسانی سے ہتھیار ڈال دیتے ہیں، جب کہ بچے کے رویے کا بہ غور جائزہ لیتے ہوئے اس مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جہاں اس کی کئی نفسیاتی وجوہ ہیں وہیں اس کا تعلق بچے کے معمولات سے بھی ہے۔ بچے جسمانی سرگرمیاں انجام دیتے دیتے بالآخر کاہلی کا شکار ہو جاتے ہیں اور غیرفعال زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے بڑی ذمے داری والدین پر عاید ہوتی ہے۔ زندگی کی دوڑ میں مصروف والدین کے پاس اولاد کو دینے کے لیے وقت نہیں۔ اس لیے اسے وڈیوگیمز، ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر جیسی سہولتیں فراہم کر دی جاتی ہیں، تاکہ بچہ ان سے لطف اندوز بھی ہوتا رہے اور ماں باپ کی نظروں کے سامنے بھی رہے۔ والدین یہ سمجھتے ہیں کہ ان چیزوں کی فراہمی کے بعد وہ اپنی ذمے داریوں سے سبک دوش ہوگئے۔

ویڈیو گیم، ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر میں بڑھتی ہوئی دل چسپی بچوں کو جسمانی سرگرمی سے محروم کرتی جا رہی ہے۔ وہ جوں جوں بڑے ہوتے ہیں، ان کا زیادہ تروقت ان ہی مشاغل میں گزرنے لگتا ہے، جس کی وجہ سے وہ کاہلی، منفی رویوں اور دیگر کئی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کے کھیل کود پر خاص توجہ دی جائے، تاکہ وہ جسمانی طور پر فعال رہیں اور کاہلی کا شکار نہ ہوں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کی جسمانی سرگرمیوں کا خیال رکھنا بھی نہایت اہم ہے۔  صحت اور ورزش لازم وملزوم ہیں۔ ماہرین اس سلسلے میں تجویز کرتے ہیں کہ بچوں کو روزانہ کم ازکم ایک گھنٹا درمیانے درجے کی ورزش اور بھاگ دوڑ کرنی چاہیے۔ بچوں میں سُستی ورزش نہ کرنے کے رجحان کا نتیجہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ناپختہ ذہن اچھے بُرے میں تمیز کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ اس لیے والدین کا فرض بنتا ہے کہ وہ بچوں کے لیے وقت نکالیں اور ان کے لیے خاص طور پر ورزش اور جسمانی سرگرمی والے کھیلوں کے پروگرام مرتب کریں۔ واضح رہے کہ ورزش سے مُراد ہر وہ جسمانی سرگرمی ہے، جس میں عضلات کی حرکت سے طاقت پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے جسمانی طور پر سرگرم رکھنے والے کھیل بہت مفید ہیں۔

بڑھتی عمر کے کچھ بچے اپنے اہلِ خانہ یا دوستوں کے ساتھ باہر جانے سے گریز کرنے لگتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی جسمانی سرگرمی میں کمی آجاتی ہے۔ ایسی صورت حال میں بچوں کے ساتھ زبردستی کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ بچے کو اس کی پسند اور ناپسند کے اظہار کا پورا موقع دینا چاہیے۔ اصرار کے بہ جائے اگر اس پسندیدہ مقام کو تفریح کے لیے منتخب کر لیا جائے، تو نہ صرف بچہ وہاں جانے کے لیے تیار ہو جائے گا، بلکہ اپنے انتخاب کو ملنے والی اہمیت کے باعث اس میں خوداعتمادی بھی آئے گی۔ وہ خود پر انحصار کرتے ہوئے رفتہ رفتہ جسمانی سرگرمیوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنالے گا۔

کچھ بچے مِل جُل کر، یعنی ٹیم کی شکل میں کھیلنے سے، گریز کرتے ہیں۔ وہ فطرتاً کم آمیز ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں کے لیے بھی ورزش اور دوسری جسمانی سرگرمیوں کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ ایسے بچوں کے لیے ضروری ہے کہ انہیں کھیل کے میدان میں لے جایا جائے، تاکہ انہیں دوسرے بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھنے کا موقع ملے۔ اس مشاہدے کی وجہ سے ان میں بھی کھیل کود کی تحریک، اُمنگ اور جوش پیدا ہوگا۔ کھیلتے کودتے بچوں کو دیکھ کر انہیں بھی کھیل سے رغبت ہوگی۔

کھیل کود ہر بچے کی زندگی کا لازمی حصہ ہے۔ بچہ اگر ویڈیوگیمز، ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر کا عادی ہو ہی گیا ہے، تو اسے زبردستی ان مشاغل سے الگ کرنا درست نہیں۔ اسے جسمانی سرگرمیوں کی طرف مائل کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ والدین بچے کے ساتھ خود کھیلنا شروع کر دیں۔ بعض اوقات بچے کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے والدین بھی اس کے ساتھ کھیل کود میں حصہ لیں۔ ایسا کرنا والدین کے لیے بعض صورتوں میں مشکل ضرور ہوتا ہے، لیکن اپنے بچے کی بہتر صحت کے لیے ایسی سرگرمیاں کرنا ضروری ہے۔

بچے اپنے بڑوں کی نقل کرتے ہیں۔ بیٹی ماں کا دوپٹہ پہن کر خوش ہوتی ہے تو بیٹا باپ کا چشمہ لگا کر اس کی نقل کرتا ہے۔ اگر والدین ہر وقت کمپیوٹر، سیل فون اور ٹیلی ویژن میں محو نظر آئیں گے تو بچہ کس طرح اس جنجال سے نکلے گا۔ اس کے برعکس وہ اگر والدین کو واک پر جاتا دیکھے گا تو اس کے دل میں بھی واک کا شوق پیدا ہوگا۔

بچوں کو ورزش کروانے کے ساتھ ساتھ انھیں پھلوں کا تازہ رس پلانا بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔  ماہرین کے مطابق متوازن غذا، ورزش اور اچھی نیند سے ذہنی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ بچوں میں کاہلی کی وجہ نیند کا پورا نہ ہونا بھی ہے۔ بچوں کی نیند کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے۔ نیند پوری نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر ان کے بیڈروم تک پہنچ گئے ہیں اور وہ ان میں مصروف رہتے ہیں۔ نیند کی کمی بچے کی جسمانی اور ذہنی کارکردگی کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔

بچوں کے لیے جسمانی ورزش، کھیل کود اور تفریح ضروری ہے، لیکن توازن کے ساتھ کہ کہیں پھر وہ اس کے اتنے عادی نہ ہو جائیں کہ تعلیمی سرگرمیوں سے اکتاہت اور عدم دل چسپی کا مظاہرہ کرنے لگیں۔ یہ نکتہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ سیروتفریح کے دوران ورزش کے ساتھ ساتھ مطالعۂ فطرت کے مواقع بھی میسر ہونے چاہئیں۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کی جسمانی سرگرمیوں پر خصوصی توجہ دیں اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں، تاکہ بچوں کی اچھی ذہنی اور جسمانی نشوونما ہو سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔