بیماریاں بیچنے والے اور دوہنے والے

سعد اللہ جان برق  منگل 23 جون 2020
barq@email.com

[email protected]

ہمیں پتہ تھا۔پتہ تھا ہمیں کہ یہ انسان ،یہ خدا کی لائق فائق اور قابل، ہوشیار مخلوق اپنی ہوشیاری ثابت کرکے رہے گی اور کورونا عرف کووڈ نائنٹین کا علاج نکال کر ہی رہے گی اور اس نے کردکھایا۔

ابتدا میں تھوڑا سا گھبرا گیاتھا کیونکہ اس کووڈ ظالم نے اس کے ہاتھوں کے سارے طوطے بٹیر، چیل کوے اور بطخ کبوتر اڑا کر دیے تھے اور یہ مخبوط الحواس ہوکر کچھ عرصے کے لیے واقعی ’’بندے کا پتر‘‘بن گیاتھا بلکہ اچانک اسے بھولا بسرا خدا بھی یاد آگیاتھا۔آپ کو یاد ہو یا نہ ہو یا آپ نے دھیان دیا ہو یا نہ ہو لیکن ہم نے خوب دھیان دے کردیکھا تھا کہ چینلز اور اینکر تک’’انسان‘‘بن گئے۔

حیرت ناک بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹروں تک میں کچھ کچھ انسانوں کی نشانیاں دکھائی دینے لگی تھیں اور حکومتوں کے جھوٹے اور شوخے تک تسبیح پڑنے لگے تھے۔لیکن پھر جب ’’ضرب‘‘کا ابتدائی اثر کم ہوگیا، مہبوت انسان میں کچھ ہوش کے آثار پیدا ہونے لگے ،گویا زلزلہ اور پھر آفٹرشاک بھی گزر گیا۔تو اس کی’’گئی ہوئی‘‘یاداشت واپس آنے لگی۔

اسے یاد آیا کہ وہ بے خیالی میں ’’بندے کا پتر‘‘بن چلا تھا، اپنی ساری خوبیاں صفات اور کرتوت بھول چلا تھا، عادتیں اور علتیں مدہم پڑگئی تھیں۔تب اس نے انگڑائی لی اور اپنے سابق حالت پر آکر لگے رہو منابھائی ہوگیا۔چنانچہ چینلوں میں کورونا وائرس یا کووڈ نائنٹین کے بے شمار علاجات نشر کرنے لگا ’’مواقع ہی مواقع‘‘  تھے۔اور مواقع سے مواقع نکال نکال کر مواقع حاصل کرنے کا تو یہ عالمی بلکہ یونیورسل چمپئن ہے۔سولگ گیا اپنے کام سے۔صبح کا بھولا شام کو سیدھا اپنے گھر پہنچ گیاتھا اور سلسلے کو وہیں سے شروع کردیا جہاں سے چھوٹا تھا یا ٹوٹا تھا۔یا پتلا ہوگیاتھا۔پہلے صابنوں کو کووڈنائنٹین سے باندھ دیا۔پھر ٹوتھ پیسٹ یہاں تک کہ کپڑے دھونے والے ڈیٹرجنٹ بھی کورونا وائرس کو مارنے والے ’’نمبرون‘‘بن گئے چنانچہ اس وقت جہاں جہاں کوئی صابن یا شیمپو ہے وہ وہیں سے کورونا وائرس پر حملہ آور ہوچکاہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہرصابن کورونا وائرس کے خاتمے کے لیے دنیا بھر میں نمبرون ہوچکا ہے، ہم نے گنا کوئی نناوے صابن کورونا کے سلسلے میں عالمی نمبرون ہوچکے ہیں۔

سنا ہے پاوڈروں اور خوشبووں والے بھی کورونا کے خلاف ’’اشتہاری میدان‘‘میں اتر چکے ہیں۔نہایت ہی غیر مصدقہ اطلاع ہے کہ دنیا کے کسی نامعلوم مقام پر دواساز کمپنیوں اور ڈاکٹروں کا دوسرے’’سازوں‘‘سے ایک مباحثہ اور مزاکرہ بھی ہوچکا ہے۔ دواسازکمپنیوں اور ڈاکٹروں نے نکتہ اعتراض اٹھایا تھا کہ اگر یہ دوسری کمپنیاں مثلا صابن ٹوتھ پیسٹ شیمپو وغیرہ والے اپنی حدود کراس کرکے میڈیکل کے شعبے میں آجائیں گی تو دواساز کمپنیاں کیا بیچیں گی۔ ڈاکٹرز کیاکریں گے، حکومتوں کے محکمہ ہائے انسداد صحت اور ان کے افسران عالی مقام کیا بیچیں گے۔ایک ہی تو انسان ہے، آخر اس کے اندر کتنی بیماریاں ڈال کر ان کو دوہا جاسکتاہے۔ یہ دوسری’’ساز‘‘کمپنیاں اپنے اپنے کام سے کام رکھیں اور ہمارے دائرے میں نہ آئیں۔

میرے انگنے میں تمہارا کیاکام ہے۔لیکن دوسری’’ساز‘‘  کمپنیوں نے جن کی تائید ٹی وی چینلوں والے بھی کر  رہے تھے، نہایت کرارا جواب دیتے ہوئے کہاکہ بس بہت ہوگیا، تم نے انسان کی بیماریوں کو ’’بہت دوہا‘‘اب ہماری باری ہے۔لیکن دواساز کمپنیاں اور ڈاکٹر لوگ بھی ہٹے نہیں تھے، ترکی بہ ترکی بلکہ انگریزی بہ انگریزی جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر آج ہم بیماریاں’’دوہ‘‘ رہے ہیں تو یہ بیماریاں ہم نے اس انسان نامی’’کھیت‘‘میں کاشت بھی کی ہیں اور ڈاکٹروں کو زرکثیر دے کر ان کی پرورش و پرداخت اور نگہداشت بھی کی ہے۔

آج اس کھیت میں جو بیماریاں لہلہا رہی ہیں، ہماری ہی محنت شاقہ کا نتیجہ ہیں۔تم کون ہوتے ہو ہماری فصل میں ساجھے داری کرنے والے۔یہ آج انسان کا دفاعی قلعہ اگر سوراخ سوراخ اور دراڑ دراڑ ہوچکاہے کہ معمولی سردرد بھی ہماری گولیوں کے بغیر برداشت نہیں کرسکتا، ہماری ہی دواوں کی دعاہے اور ہمارے ڈاکٹروں کی انتھک محنت ہے کہ کل کا انسان جو اپنے مضبوط دفاعی قلعے یا امیون سسٹم میں آرام سے جی رہا تھا ، آج کھلے عام کھڑا ہے اور جوبھی جس طرف سے کچھ بھی مارتا ہے۔ یہ چاروں خانے چت ہوجاتاہے تو یہ ایسے نہیں ہوا ہے بلکہ اس کے حفاظتی قلعے کو ہم نے مسمار کیاہوا اور اب دوہنے کا حق بھی ہمارا ہے۔لیکن دوسرے فریق کا موقف بھی مضبوط تھا،ان کا کہنا ہے کہ انسان کے حفاظتی قلعے کو صرف تم دواسازوں اور ڈاکٹروں نے مسمار نہیں کیاہے بلکہ ہماری تیارکرہ خوراکیں، غذائی پیکیج، فیشن ایبل مصنوعات اور خاص طور پر مشروبات بھی برابر تمہارا ساتھ دہتی رہی ہیں، ہم نے اب تک تم سے کچھ لیانہیں ہے لیکن اب موقع ہے کہ ہم بھی اس بہتی گنگا میں اشنان کریں۔

اجلاس کسی فیصلے پر پہنچنے سے پہلے ہی ہنگامے کی نذر ہوگیا لیکن ’’ساز‘‘ کمپنیوں کے ترجمان کو بلند آواز سے یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ تم بھی دوہو اور ہمیں بھی دوہنے دو۔یہ گائے جتنی تمہاری ہے اتنی ہی ہماری بھی ہے۔چنانچہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ کورونا کو اور بھی بہت سارے لوگ دوہنے لگے، دوہ رہے ہیں اور دودھ ،مکھن ،گھی ہڑپ کر رہے ہیں۔پڑوسی ملک کے ایک اشتہار میں تو دواسازکمپنیوں اور ڈاکٹروں پر کھلا حملہ بھی ہورہاہے۔جہاں وشواس تھا وہاں نہیں ہوا اور جہاں وشواس نہیں تھا وہاں ہوگیا۔

حالانکہ سب کو پتہ ہے کہ کورونا یا کووڈ نائنٹین، جراثیم نہیں وائرس ہے اور وائرس کا کوئی علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوا ہے لیکن ہوشیار لوگ تو وہ ہوتے ہیں جو برف کو ہمالیہ میں بیچیں، ملتان میں تو ہر کوئی برف بیچ سکتاہے ،سوئی ہوئی ماں کے پہلو سے تو کوئی بھی بچہ چراسکتاہے ،کمال یہ ہے کہ جاگی ہوئی ماں کا بچہ چرایا جائے بلکہ ماں کو آمادہ کرے کہ وہ خود ہی اپنا بچہ چور کو دے دے۔ایک صابن جو پہلے رنگ گورا کرنے کے لیے نمبرون تھا، آج کل کورونا پر’’اثردار نمبرون‘‘ ہوگیا۔ایک اور پہلو پر کچھ اور لوگ بھی ہیں وہ بھی ’’بیچ‘‘رہے اور ’’دوہ‘‘رہے ہیں لیکن ان کے بارے میں ہم کچھ بھی نہیں کہیں گے ،کہہ ہی نہیں سکتے۔ع

جس کو دین ودل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔