5 ماہ میں 330 ارب روپے کے نئے نوٹ جاری، زیر گردش نوٹوں میں 16 فیصد اضافہ

بزنس رپورٹر  پير 9 دسمبر 2013
گزشتہ مالی سال کے اختتام پرزیرگردش نوٹوں کی مالیت 1938.22ارب روپے تھی جو22نومبر تک بڑھ کر2268.22ارب روپے تک پہنچ گئی۔ فوٹو: فائل

گزشتہ مالی سال کے اختتام پرزیرگردش نوٹوں کی مالیت 1938.22ارب روپے تھی جو22نومبر تک بڑھ کر2268.22ارب روپے تک پہنچ گئی۔ فوٹو: فائل

کراچی: موجودہ حکومت بھی بجٹ سپورٹ کے لیے قرضوں پر انحصار کررہی ہے جس کے نتیجے میں افراط زر میں اضافے کا سامنا ہے۔

اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے دوران 22 نومبر تک زیر گردش نوٹوں کی مالیت میں 16فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر زیرگردش نوٹوں کی مالیت 1938.22ارب روپے تھی جو 22نومبر تک بڑھ کر 2268.22ارب روپے تک پہنچ چکی ہے، اس طرح پانچ ماہ کے دوران 330ارب روپے سے زائد کے نئے کرنسی نوٹ چھاپ کر جاری کیے گئے ہیں۔ وفاقی حکومت بجٹ خسارہ پور اکرنے کے لیے قرضوں پر انحصار کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اس حوالے سے موجودہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ سابقہ حکومت نے اسی مدت میں قرضوں کی ادائیگی پر زور دیا جبکہ موجودہ حکومت کے قرضے مسلسل بڑھتے جارہے ہیں۔

اعدادوشمار کے مطابق یکم جولائی تا 22نومبر تک موجودہ حکومت نے اسٹیٹ بینک سے 842.17ارب روپے کے قرضے حاصل کیے جبکہ سابقہ حکومت نے اسی عرصے میں 77.58 ارب روپے کے قرضے واپس کیے تھے۔ معاشی ماہرین کے مطابق زیر گردش نوٹوں کی مالیت میں اضافہ افراط زر میں اضافے کا سبب بن رہا ہے اور افراط زر (سی پی آئی) کی شرح گزشتہ ڈیڑھ سال کی بلند ترین 10.9فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان حکومت کی بڑھتی ہوئی قرض گیری روکنے میں ناکام ہے اور افراط زر پر قابو پانے کیلیے مانیٹری پالیسی کو سخت بنانے کی پالیسی پر کاربند ہے، بنیادی شرح سود میں اضافے کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں بھی متاثر ہورہی ہیں، بالخصوص بلند شرح سود کی وجہ سے نجی شعبہ قرض لینے سے اجتناب کررہا ہے جس سے سرمایہ کاری میں توسیع کا عمل بھی کافی حد تک محدود ہوچکا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔