کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا

سعد اللہ جان برق  جمعرات 25 جون 2020
barq@email.com

[email protected]

قہرخداوندی چشم گل چشم عرف ڈینگی عرف سوائن عرف کورونا اور عرف کووڈ نائنٹین کو تو آپ تو جانتے ہیں کہ کتنا کندہ ناتراش، منہ پھٹ، دیدہ پھٹ اور کان پھٹ ہے جو بھی منہ میں آتاہے بک دیتاہے کہ اس کے منہ میں زپ ہے نہ ناڑا اور نہ ہی ڈھکن۔

چناچہ کل اس نے جو اسٹوپڈ بات کی اس کا نتیجہ یہی ہونا چاہیے تھا جو ہوا کہ ہمارا دایاں ہاتھ متحرک ہوا اور اس کے بائیں کان پر اس زور سے پڑا کہ تھپڑ کی گونج’’شوں‘‘کرکے بائیں کان سے نکل گئی بلکہ دیر تک نکلتی رہی۔کم بخت بولا کہ اگر پنجاب والے آٹے پر پابندی لگاتے ہیں تو صوبہ خیر پہ خیر والے بجلی ،گیس اور پانی پر بندش کیوں نہیں لگاتے۔

اب اسٹوپڈ کا تو صرف یہی پھٹا ہوا، سڑا ہوا منہ ہی ہے عقل وقل تو اس کی کھوپڑی میں ہے ہی نہیں ورنہ جانتا کہ آٹا ایک مادی چیز ہے، بوری بھی مادی چیز ہے، پھر مزدور اور ٹرک اور نہ جانے کتنے کورونا خیز اور کورونا چیک مقامات سے گزرتا ہے۔

اس لیے کورونا کا ’’کیرئر‘‘یا کووڈ نائنٹین کا باربردار ہوسکتاہے جب کہ بجلی اور گیس قطعی غیرمادی چیزیں ہیں جو کسی بھی طرح وائرس کی باربردار نہیں بن سکتیں، رہا پانی تو پانی ہی سے تو کورونا کی صفائی ہوئی ہے، مطلب یہ کہ یہ معاملات قطعی باہمی ہمدردی اور دل سوزی کے ہیں، پنجاب والے یہ کیسے پسند کرسکتے ہیں کہ آٹے اور اس کے متعلقات کے ذریعے کورونا وائرس صوبہ خیر پخیر پہنچیں جو پہلے ہی سے کورونا کامیکا اور کووڈ نائنٹین کی سسرال ہورہاہے۔ بزرگوں نے ویسے بھی کہاہے کہ ع

دوست باشد کہ گیرد دست دوست

در پرسیاں خالی ودرماندگی

اس کا سیدھا سادہ لفظی اور سلیس اردو ترجمہ ہے کہ سچا دوست وہ ہے جو دوست کا ہاتھ پکڑے عین پریشان حالی اور مصیبت میں۔کچھ لوگ اس پر معترض ہوتے ہیں کہ اگر آپ کا کوئی دوست کسی سے لڑرہا ہو اور آپ جاکر اس دوست کے ہاتھ پکڑلیں تو مارنے والے تو اس کا کچومر نکال دیں گے، یہی تو اس میں سب سے بڑا فلسفہ اور سبق ہے، بظاہر تو اس میں نقصان دکھائی دیتاہے یعنی دوست کے ہاتھ پکڑنے پر اس کا نقصان لگتاہے لیکن یہ نقصان ہرگز نہیں وہ تھوڑا سا پٹ جائے گا، ہوسکتاہے کہ ایک آدھ ہڈی پسلی بھی ٹوٹ جائے لیکن اصل نقصان دوست کے دشمن کا ہوگا۔

ان کے خلاف رپٹ درج ہوگی، پولیس کے مقامات آہ وفغاں سے گزرنا ہوگا ’’مضروب‘‘اور’’ مجروح‘‘ کا علاج بھی اس کے ذمے ہوجائے گا جس میں ڈاکٹروں کا حصہ بھی شامل ہوگا۔ امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے، لانگ لانگ فوائد کے لیے شارٹ شارٹ نقصان برداشت کرنے ہی میں فائدہ ہے یا بقول دانایان ’’کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا بھی پڑتاہے اور کچھ کمانے کے لیے ’’پٹنا‘‘بھی پڑتاہے۔ اس فلسفیانہ اور دانشورانہ نظریے کی روشنی میں جب پنجاب والوں نے دیکھا کہ ان کے ’’خیر پخیر‘‘والے دوست کورونا کے ساتھ لڑرہے ہیں بلکہ پٹ رہے ہیں تو انھوں نے ان کا نوالا بندکردیا کہ جب نوالا بھی منہ تک نہیں جائے گا تو اس پر سوار ہوکر کورونا بھی منہ میں نہیں جائے گا۔وہی مگس کو باغ میں جانے نہ دینا کی پالیسی ہے، جب بانس ہی نہ ہوگا تو بنسری کہاں سے آئے گی اور جب بنسری ہی نہ ہو تو بجے گی کیسے؟ اور اگر بجانے والا ہی…سمجھ گئے نا…مرشد نے بھی کہاہے کہ

ڈبویا مجھ کو ہونے نے

نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

ویسے بھی آٹا گندم کا ہوتاہے اور دانہ گندم تو جدی پشتی انسان کا دشمن ہے۔ امید ہے یہ بھی سمجھ چکے ہوں گے کہ آٹا بند کرنے میں کتنا بڑا ’’فائدہ‘‘خیر پخیر والوں کا پوشیدہ ہے بلکہ اگر ہم مزید گہرائیوں میں اتر جائیں تو اور بھی بہت سارے فوائد مل جائیں گے مثلاً بزرگوں خاص طور پر قدیم زمانوں کے بڑے بڑے ’’حکماء‘‘نے کہاہے کہ ’’فاقہ‘‘بہت ساری بیماریوں سے بچاتاہے، اس لیے وہ ہمیشہ چاہے کوئی آنکھوں کا مریض ہی کیوں نہ ہو اس کے لیے ’’فاقہ‘‘ تجویز کرتے تھے۔

بلکہ اکثر حکماء کا تو نظریہ یہ تھا کہ قبض ام الامراض ہے اور قبض کا دارالحکومت پیٹ ہوتا ہے اور اگر یہ کم بخت پیٹ جو امراض کے ساتھ ساتھ تمام آفات کی بھی ’’اُم‘‘ہے۔ہم تو ’’مثبت تنقید‘‘ والے لوگ ہیں اس لیے مثبت سوچتے ہیں اور مثبت کہتے ہیں لیکن قہرخداوندی چشم گل جیسے منفی لوگوں نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ وہ منفی سوچیں گے اور منفی کے سوا کچھ نہیں سوچیں گے چنانچہ اس نے ایک اور پہلو سے بھی منفی سوچا جس میں لاشوں کے بیچنے وغیرہ کا ذکر تھا۔اور اسکور بڑھانے پر کچھ ’’پانے‘‘کا مضمون تھا لیکن ہم نے اس کی بات ختم ہونے سے پہلے ایک چھانپڑ اس کے دائیں کان پر رسد کیا اور اس کی گونج جو بائیں کان سے نکل رہی تھی، اسے دوسرے ہاتھ سے بند کردیا۔منفی تنقیدیوں کے ساتھ ہم ایسا ہی کرتے ہیں اور یہ طریقہ بھی ہم نے حکومت ہی سے سیکھا ہے، ایسا کرنے سے دماغ کی ساری چولیں صحیح جگہ پر بیٹھ جاتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔