کون کس پر گیا ہے

سعد اللہ جان برق  جمعـء 26 جون 2020
barq@email.com

[email protected]

عام لوگوں کی طرح یہ ’’الفاظ لوگ‘‘بھی بڑے چلتربازاور نوسرباز ہوتے ہیں۔’’الفاظ لوگ‘‘کی اصطلاح ہماری اپنی ایجاد کردہ ہے آخر یہ اتنے سارے شاعرو صورت گر وافسانہ نویس عرف دانشور جو روزانہ طرح طرح کی ایجادیں کرتے رہتے ہیں جن کے لیے بیچارے پڑھنے سننے والے ڈکشنریاں ڈھونڈتے رہتے ہیں جیسے بیانیہ،وژن،ڈاکٹرائن،یک جہتی، کیفرکردار، تحفظات اور ترجیحات وغیرہ۔ توہمیں بھی حق ہے کہ کوئی ایجاد کردیں سو ہم نے’’الفاظ لوگ‘‘کی اصطلاح لانچ کردی ہے کوئی مانے تو ٹھیک۔نہ مانے تو نا ٹھیک ہی سہی

نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا

گر نہیں ہیں میرے اشعار میں معنی نہ سہی

ویسے بھی جب ایک چیز خالص’’لوگوں‘‘کی ایجاد ہے لوگ ہی اسے استعمال کرتے ہیں اوڑھتے بچھاتے ہیں کھاتے پیتے ہیں دھوتے نچھوڑتے ہیں اور بیچتے خریدتے ہیں تو وہ لوگ ہی ہوئے نا۔جب لیڈر لوگ، تاجر لوگ،  چورلوگ،ڈاکولوگ،بیوی لوگ، شوہرلوگ بچہ لوگ، بوڑھے لوگ ہوسکتے ہیں تو ’’الفاظ لوگ‘‘ کیوں نہیں جب کہ الفاظ لوگ بالکل لوگوں پر گئے ہوئے ہیں یا شاید لوگ ہی الفاظ پر گئے ہوں یا دونوں ہی ایک دوسرے پر گئے ہوں۔لوگوں کی واحد صفت کیاہے؟

یہی نا کہ وقت اور مقام واردات بدلتے ہی ’’بدل‘‘جاتے ہیں ٹھیک اسی طرح الفاظ لوگ بھی ’’منہ اور کان‘‘بدلتے ہی اپنے معنی بدل لیتے ہیں، مثال کے طور پر اگرکوئی مالک اپنے نوکر کو گدھا کہے تو یہ تعریف ہوتی ہے لیکن اگر یہی لفظ نوکر کے منہ سے مالک کے لیے نکلے تو گالی جرم بلکہ جان لیوا ثابت ہوسکتاہے، اسی قبیل کے سارے الفاظ مثلاً احمق،کم عقل، نالائق، ناسمجھ اور پاگل جیسے الفاظ ہیں اگر اس ’’منہ‘‘ سے نکلیں تو گالیاں اور اگر اس منہ سے نکلیں تو صفات۔ یا مثال کے طور پر اگر چھوٹا منہ بھولے سے بھی کوئی بات کرے تو بڑا منہ اسے فوراً میرے ساتھ سیاست مت کرو بلکہ ایسے بدناموں مونہوں کو سیاسی بمعنی گالی کہا جاتا ہے لیکن بڑے منہ علی الاعلان سیاسی سیاسی کہلانے پر بھی بڑے منہ ہی ہوتے ہیں، مطلب سمجھانے کے لیے ہم اپنے ہی ایک شعر کا ترجمہ پیش کرتے ہیں۔

الفاظ بھی اس وقت انسان جیسے ہوگئے ہیں برق

کہ منہ بدلتے ہی اپنی تاثیر بدل لیتے ہیں

اب اس لفظ ’’سر‘‘اور’’درد‘‘کو لے لیجیے وہی الفاظ ہیں لیکن مقام یا جگہ بدلتے ہی اپنے معنی بدل دیتے ہیں سردرد اور درد سر؟اس بات کی طرف ہمارا دھیان کل ایک اخبار میں کسی مضمون کا یہ عنوان پڑھ کر چلا گیا۔کورونا کے سلسلے میں پرائیوٹ اسپتالوں کی لوٹ مار اب یہ ’’لوٹ‘‘اور’’مار‘‘کے وہی الفاظ ہیں جو اگر ’’مارلوٹ‘‘ ہوجائیں تو سرکاری اسپتالوں پر چپک جاتے ہیں جب کہ ’’لوٹ مار‘‘کی شکل میں پرائیوٹ اسپتالوں اور ڈاکٹروں کے نام رجسٹرڈ ہیں۔کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ پرائیوٹ اسپتال پہلے اچھی طرح لوٹتے ہیں اور جب لٹنے کے لیے ان میں کچھ نہیں بچتا تو مار دیتے ہیں کہ جا تجھے کشمکش دہر اور اپنی لوٹ سے آزاد کیا۔جب کہ سرکاری اسپتال اس کے برعکس پہلے بلوں اور ٹیکسوں سے مارتے ہیں پھر آرام سے لوٹتے رہتے ہیں۔

اسی مارلوٹ یا لوٹنے کے بعد معاملے نے توڈاکٹر امرود مردود کو ڈاکٹر بنایاتھا۔ہم نے آپ کو بتایا تھا کہ پہلے وہ شہر کے ایک بڑے اسپتال کے گیٹ پر امرود کاٹھیلہ لگاتا تھا لیکن خود اس کا بیان ہے کہ پورے بارہ سال تک میں نے صرف یہی دیکھا کہ لوگ اپنے دو پیروں پر چل کر آتے تھے اور چند روز بعد بارہ پیروں(چار آدمیوں اور چار پائی کے) لے جائے جاتے رہے۔ تب میں نے سوچا کہ اتنے سے کام کے لیے اتنی بڑی بلڈنگوں اور بے شمار سفید کوٹوں کی ضرورت کیاہے یہ کام تومیں ایک معمولی دکان میں بھی کرسکتا ہوں، سو اس نے اپنے گاؤں میں کلینک کھول کریہی کام شروع کردیا جو بہت بابرکت ثابت ہوا کیونکہ اس نے اپنے نسخے کا جزو اعظم’’امرود‘‘کو قرار دیا تھا ،اس کے خیال میں چھوٹا بڑا یا مرغ وماہی کا گوشت نقصان دہ ہوتاہے جب کہ امرود کے اندر جو ’’باریک گوشت‘‘کا ذخیرہ ہوتاہے بے ضرر اور مقوی ہوتاہے گویا گوشت کا گوشت اور پھل کا پھل۔ یعنی ٹوان ون۔بغل میں اس نے اپنے بے روزگار بھائی کے پھلوں بلکہ امرودوں کی دکان کھلوادی تھی۔ بات دوسری طرف پھیل گئی ہم اصل بات’’الفاظ لوگوں‘‘کی کرنا چاہتے ہیں یعنی یہ الفاظ لوگ ہو بہو اپنے بنانے والوں اور استعمال کرنے والے لوگوں پر گئے ہوتے ہیں کہ تھوڑا آگے پیچھے ہونے یا منہ اور مقام بدلنے پر کچھ کا کچھ ہوجاتے ہیں

جو تری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی

وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی

ایک لفظ ہے ’’کمینہ’’اردو میں یہ عام طور پر ذلیل اور خراب لوگوں کے لیے استعمال ہوتاہے بلکہ اسے ’’کمی کمین‘‘کی صورت میں دو آتشہ بھی کہاجاتاہے لیکن یہی لفظ اگر کسی پشتون کے منہ سے کسی کے لیے نکلے تو انتہائی تعریف وتوصیف بلکہ بڑائی کے معنی دیتاہے،فلاں بڑا کمینہ آدمی ہے، کا مطلب ہے کہ بڑا ہونے پر انتہائی خاکسار تابعدار اور غرور وتکبر سے صاف آدمی ہے۔اب یہاں پر گیند ہماری اپنی فیلڈ میں آگئی ہے یعنی’’میدان تحقیق‘‘میں کہ یہ الفاظ لوگ۔انسان لوگوں پر گئے ہیں یا انسان لوگ الفاظ لوگوں پر گئے ہیں، طریقہ واردات تو دونوں کا ایک ہی ہے یعنی منہ اور مقام بدلنے اپنے معنی اور تاثیر بدلنا۔

اچھا ہوا کہ اس قسم کی ایک تحقیق ہم پہلے بھی کرچکے ہیں اور وہی تحقیق یہاں بھی کام آئی کہ کون کس پر گیاہے یا کس نے کس سے کسب قرض کیا ہے۔ وہ تحقیق ہم نے اس جانور کے انسان سے تعلق کے بارے میں کی تھی جو انسانوں کے نزدیک نہایت پسندیدہ اور ’’وفاداری‘‘کے لیے فیمس ہے، اتنا زیادہ کہ انسان اسے اپنے اصل نام سے پکارتا بھی نہیں اسے ڈاگی، ٹونی، بوکسی، بلٹ،سنی اور نہ جانے کیاکیا نام دیتا رہتا ہے، البتہ ضرورت پڑنے پر نہایت مجبوری میں ’’سگ‘‘ کہہ دیتاہے کیونکہ سگ راسگ می شناسد اور ایک ہی سگ دوسرے سگ کا سگا ہوتا ہے۔ ہم نے اس تحقیقی پراجیکٹ میں یہ پتہ لگایاتھا کہ کون سا سگ کون سے سگ پر گیاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔