فٹ بال دوست بجٹ

سعد اللہ جان برق  اتوار 28 جون 2020
barq@email.com

[email protected]

یہ فیصلہ تو ماہرین ہندسہ وریاضی کریں گے کہ بجٹ عوام دوست ہے، انصاف دوست ہے یا آئی ایم ایف دوست۔کیونکہ یہ ہندسوں اور اعداد وشمار کاکام ہے اور ہم چونکہ خود ایک ہندسہ ہیں تو علم ہندسہ سے کیسے واقف ہوسکتے ہیں، اگر ہم دو اور دو چار کردیں اور وہ 22نکلے یا ایک اور ایک گیارہ بن جائے تو جواب غلط ہوجائے گا۔

اس لیے صرف وہی بات کریں گے جو ہماری سمجھ میں آئے گی اور جو بات ہماری سمجھ میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ بجٹ کسی کا بھی دوست یا دشمن ہو لیکن ’’فٹ بال دوست‘‘ضرور ہے اور اسے ہم بے شک وشبہ فٹ بال دوست بجٹ قرار دے سکتے ہیں۔ فٹ بال بلکہ والی بال اور ہاکی کا بھی کھیل تو آپ نے دیکھاہوگاکہ لوگ ایک دوسرے کو’’پاس‘‘دیتے ہوئے ’’بال‘‘کو خوب پیٹتے ہیں اور پھر گول میں داخل کردیتے ہیں۔

چنانچہ بجٹ میں جو ٹیکس ہیں جو اندورنی اور بیرونی طور پر لگائے گئے ہیں حالانکہ بجٹ کا نام’’ٹیکس فری‘‘بھی ہے، گویا اس میں سارے ٹیکس بال کی طرح آزاد ہیں ،کوئی کسی بھی طرف سے کک یا کٹ مارے بال سیدھی اس گول میں جائے گی جہاں ایک مسکین سا کالانعام اسے روکنے کے لیے موجود ہوتاہے لیکن اکثر اس کے روکنے کی کوشش ہی سے بال گول کے اندر چلی جاتی ہے کیونکہ گول پول عوام کالانعام پر مشتمل ہے جو مقناطیسی کشش رکھتا ہے،اب یہ جو مہنگی درآمدی اشیا پرٹیکس لگے ہیں یا انکم ٹیکس ہے۔

یہ اپنی جگہ ٹھہرنے والا تو ہے نہیں، آخر منجھے ہوئے کھلاڑی بھی اسے کک یا کٹ ماریں گے ہی۔ یوں کک در کک،کٹ درکٹ اور پاس بائی پاس بال سیدھی گول میں جا ٹھہرے گی۔کیونکہ یہ مہنگی اشیاء اور ٹیکس جن کھلاڑیوں کی طرف پاس کیے جائیں گے، وہ بھی تو منجھے ہوئے کھلاڑی ہوتے ہیں، بال کو سینے سے لگائیں گے تو نہیں آگے دھکلیں گے۔اور یوں ’’قیامت‘‘کا ذکر اس کی جوانی تک پہنچ جائے گا جو کبھی جوان ہوتے ہی نہیں۔بوڑھے پیدا ہوجاتے ہیں، جوانی میں بیمار ہوجاتے ہیں اور آخر کار بچہ بن کر چلے جاتے ہیں۔

زمونگ پہ کلی کے زوانی پہ چا راغلی نہ دہ

زاڑہ پیدا شی زوان بیمار شی او واڑہ مڑہ کیگی

یعنی میرے گاوں میں کسی پر جوانی کبھی آئی ہی نہیں ہے، بوڑھے پیدا ہوجاتے ہیں، نوجوان بیمار پڑجاتے ہیں اور بچے ہوکر مرجاتے ہیں۔ظاہر ہے کہ ان کے پیچھے تو دیوار ہوتی ہے تو ’’بال‘‘کو کک یاکٹ کہاں ماریں گے، اس لیے خود ہی کو مارلیتے ہیں۔پانی نشیب سے بہہ کر کہاں جائے گا۔پانی سے ایک اور اچھی مثال یاد آئی۔پانی دریا سے نہر میں نہر سے نالے میں نالے سے کھال میں چلاجاتا ہے، اب جہاں جہاں بند سامنے آئے گا تو دوسری طرف مڑے گا۔ یوں  ’’بندوں‘‘سے ٹکرا کرآخر کار اس آخری’’خرابے‘‘تک پہنچے گا جو پہلے ہی سیم وتھور کے مارے جبہ جھیل ہورہا ہوتاہے۔

اب اگر کوئی خاتون کوئی کاسمٹک یا کپڑا یاکوئی چیز خریدے گی تو پیسے توبظاہر اس کے پرس میں پیسے بینک سے آتے ہیں اور بینک میں کہاں سے آتے ہیں، یہ سب کو معلوم ہے۔ یوں اصل میںاس چیز کی قیمت وہ بیگم ادا نہیں کررہی ہوتی ہے بلکہ کہیں دور کوئی خدا مارا اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر ادا کررہاہوتا، اس آٹے دال چاول یا سرکاری بلوں کے ذریعے جو چلتے چلتے بیگم صاحبہ کے پرس تک پہنچتے ہیں۔ہم نے اکثر دیکھا کہ کسی دکان میں ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے لوگ تو دکاندار سے مول تول کررہے ہوتے ہیں لیکن کوئی فٹ بالر یا اس کی بیگم صرف’’پیک کرو‘‘کہہ دیتے ہیں کہ ’’بارامانت‘‘ توکسی اور کے کاندھوں پرجائے گا۔وہ جس پر ’’قرعہ فال‘‘نکلتاہے۔

آسماں بار امانت نہ توانست کشید

قرعہ فال بنام من دیوانہ زد ند

’’آسمان’’تو ’’بار‘‘نہیں سنبھالتے جوبھی بار ہوتا ہے زمین کی طرف لڑھکاتے ہیں اور زمین سے نیچے تو اور کوئی مقام ہوتا ہی نہیں ہے۔ایک مرتبہ ہمیں بھارت میں ایک معاملہ دیکھنے کا موقع ملا ۔ ہمارے ساتھ لاہور اور کراچی کی دو خواتین تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم سروجنی مارکیٹ میں شاپنگ کریں گی، وہاں بڑی اونچی دکانوں میں سے ایک دکان کے اندر وہ گھس گئیں جس میں ایک خاتون کی پرانی واقفیت تھی۔ خریداری ہوتی رہی، ہم یونہی چکر لگارہے تھے، اپنے والے ٹیکسی ڈرائیور سے گپ شپ چلی تو اس نے بتایاکہ یہ مارکیٹ سراسر دھوکا ہے۔

پچھلے دنوں میں یہاں کچھ خریدار خواتین کے ساتھ آیاتھا۔ انھوں ساٹھ ساٹھ ہزار کے لہنگے اور ساڑھیاں خریدیں۔اور وہی ساڑھیاں اور لہنگے قرول باغ میں بیس پچیس ہزار میں ملتی ہیں ۔آپ بھی اگر اپنی خواتین کو آمادہ کرسکیں تو یہاں کی ہرچیز میں وہاں قرول باغ میں آدھی قیمت پر دلواسکتاہوں۔

میں آپ کو اچھا آدمی سمجھ کر بتارہاہوں ورنہ کمیشن تو ہمیں وہاں سے یہاں زیادہ ملتاہے۔اب ایسے بجٹ کو ہم فٹ بال دوست کیوں نہ کہیں جس میں مہنگی اشیائے تعیش اور زیادہ مہنگی کردی گئی ہیں لیکن پاس ،کک اور کٹ پرکوئی پابندی نہیں ہے۔اس لیے ’’بلا‘‘ سیدھی غالب خستہ کے گھر جائے گی۔ انکم ٹیکس کا ہدف 3900ہزار ارب ہے۔تو کیا انکم ٹیکس والے یہ ٹیکس اپنی جیب سے پوری کریں گے؟۔ ایک پشتو گیت نما کہاوت یاد آگئی

کانڑے چہ رازی زما پرے سر لگی

کلہ می زڑگے کل زیگر لگی

یعنی پتھرآتاہے تو سیدھے میرے پاس آتا ہے۔ کبھی میرے دل کو لگتاہے اور کبھی میرے جگر کو لگتاہے جو فٹ بال کوکک مارسکتے ہیں، والی بال پر کٹ لگاسکتے ہیں اور ہاکی کی سٹک رکھتے ہیں، ان کو کیا پروا۔کہ یہاں اس پرکوئی پابندی ہی نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔