کیا امریکا عالمی سطح پر تنہا ہورہا ہے؟

زبیر بشیر  ہفتہ 4 جولائی 2020
امریکا گزشتہ چند دہائیوں کے مقابلے میں پہلے سے کہیں زیادہ تنہا ہوسکتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

امریکا گزشتہ چند دہائیوں کے مقابلے میں پہلے سے کہیں زیادہ تنہا ہوسکتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ کوئی بھی امریکی انتظامیہ ہو، وہ ’’سب سے پہلے امریکا‘‘ کی پالیسی پر گامزن رہتی ہے۔ موجودہ امریکی انتظامیہ نے بھی اپنے اس روایتی راستے کو ترک نہیں کیا لیکن اس راستے پر سفر کے دوران تمام تر تکلفات اور سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھ دیا۔ گزشتہ چند برسوں کےدوران ہم نے ایسے بہت سے یک طرفہ فیصلے دیکھے ہیں جن میں امریکا نے اپنے نہایت قریبی اتحادیوں کو بری طرح نظر انداز کیا۔ اس وقت عالمی ذرائع ابلاغ خصوصاً امریکی میڈیا میں یہ سوال شدت سے گردش کر رہا ہے کہ کہیں تحفظ پسندی کی اس راہ پر تیزی سے چلنے کی وجہ سے امریکا کے قریبی اتحادی پیچھے تو نہیں چھوٹ گئے؟ کہیں امریکا عالمی سطح پر تنہائی کا شکار تو نہیں ہوگیا؟

اس تناظر میں جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے 26 جون کو برطانوی اخبار ’’دی گارجیئن‘‘ کو دیا گیا ایک انٹرویو ملاحظہ فرمائیے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر امریکا عالمی طاقت کی حیثیت سے اپنے کردار کو ترک کرتا ہے تو جرمنی کو مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات کے حوالے سے نظر ثانی کرنا ہوگی۔ اسی انٹرویو سے متعلق، دی گارجیئن کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ برسوں میں جرمنی اور امریکا کے درمیان عسکری اخراجات، ماحولیاتی تبدیلیوں، تجارتی تنازعات، نورڈ اسٹریم 2 گیس پائپ لائن منصوبے، اور ایرانی جوہری معاہدے سمیت متعدد امور پر اختلافات رہے ہیں۔ جون 2020 کی 15 تاریخ کو امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ جرمنی میں امریکی فوجیوں میں نمایاں کمی واقع کی جائےگی۔

روس امریکا گیس پائپ لائن پر امریکی رویّے پر تبصرہ کرتے ہوئے جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے کے مبصر میودراگ زورِچ نے کہا: کیا جرمنی کو اپنے مفادات اور ان کا تحفظ کرنے کا حق ہے؟ اگر امریکی حکومت سے پوچھیں تو اس کا جواب ہوگا: ضرور، لیکن صرف امریکی آشیرباد سے! امریکا نے روس اور جرمنی کے درمیان زیر سمندر نورڈ اسٹریم ٹو گیس پائپ لائن بنانے پر یورپی کمپنیوں پر پابندیاں لگانے کی دھمکی دے رکھی ہے۔ یہ پائپ لائن 96 فیصد مکمل ہو چکی ہے۔ بحیرہٴ بالٹک کی تہہ میں بچھائی جانے والی، قدرتی گیس کی یہ پائپ لائن روس سے سیدھی جرمنی جائے گی اور پھر وہاں سے یورپی یونین کے دیگر ملکوں سے منسلک ہو جائے گی۔

جرمن معیشت کا انحصار برآمدات پر ہے اور اس کی صنعت وتجارت کےلیے توانائی کی ترسیل یقینی بنانا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی کے کاروباری حلقے اور حکومت، دونوں اس پائپ لائن کی تعمیر کے حق میں ہیں تاہم امریکی وائٹ ہاؤس کو ان سب باتوں کی کوئی خاص پروا نہیں۔ صدر ٹرمپ نے اس پائپ لائن کو روکنے کا تہیہ کر رکھا ہے، چاہے کچھ بھی ہوجائے۔

جرمنی میں امریکا کے سابق سفیر رچرڈ گرینل ان لوگوں میں شامل ہیں جو ٹرمپ کو اس کی ترغیب دیتے آئے ہیں۔ تاہم اس قدرے غیرسفارتی سفارت کار نے آخرکار امریکا اور جرمنی کے دو طرفہ تعلقات کی بہتری میں اب اپنا حصہ ڈال دیا ہے۔ انہوں نے یکم جون کو استعفیٰ دیا اور جرمنی سے چلے گئے ہیں۔

میودراگ زورِچ کے مطابق اس کا بڑا فائدہ چین ہی کو ہوگا۔ جب مغربی ممالک آپس میں لڑتے ہیں تو اس سے امریکا کے مقابلے میں چین مضبوط ہوتا ہے۔ اگر یہی رویہ رہا تو امریکا چین کے ساتھ اپنی تجارتی لڑائی میں یورپ پر زیادہ انحصار نہیں کر سکے گا۔ جولائی میں جرمنی یورپی یونین کی ششماہی صدارت سنبھالے گا۔ مرکل کا اب بھی ارادہ ہے کہ وہ یورپی یونین کے تمام سربراہان کے ساتھ مل کر چین کے صدر شی جِن پِنگ کے ساتھ کسی نہ کسی مرحلے پر ملاقات کریں گی۔

حالیہ برسوں میں مختلف مواقع پر امریکا نے اپنے اتحادیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے یک طرفہ فیصلے کیے ہیں۔ سی این این نے 28 تاریخ کو اس حوالے سے ایک تبصرہ کیا کہ امریکا ایک لاوارث بچہ ہے جو کووڈ 19 کی وبا کا ایک ناقابل اعتبار اتحادی بن رہا ہے؛ اور تاریخ کے کسی بھی دور سے زیادہ تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔ مضمون میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ وبا کی سنجیدگی کے سامنے ٹرمپ کی جانب سے جراثیم کش ادویہ کے ٹیکے لگانے اور ہائیڈروکسی کلوروکوین کھانے کے مشوروں سے نہ صرف ماہرین صحت نے عدم اتفاق کیا بلکہ ٹرمپ کی آراء کو بھی غیر مؤثر کردیا۔ چین کے مقابلے میں، امریکا اپنے لوگوں کے تحفظ میں ناکام رہا ہے۔

رواں سال مئی میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے سالانہ اجلاس میں یورپ نے وبا کے خلاف چینی ردعمل کی تحقیقات کے حوالے سے امریکا کے شدید دباؤ کا سامنا کیا۔ اس حوالے سے اس مضمون میں سویڈن کے سابق وزیراعظم کارل بلٹ کے ایک بیان کا حوالہ دیا گیا ہے۔ کارل بلٹ کہتے ہیں کہ امریکا کے بعد کی دنیا کا مشاہدہ کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ چین کا اسٹریٹجک نقطہ نظر زیادہ واضح ہے اور چین زیادہ پراعتماد ملک ہے۔ یورپی یونین عالمی تعاون کو تباہی سے بچانے کےلیے کوشاں ہے جبکہ امریکا کووڈ 19 کی وبا کا مقابلہ کرنے سے زیادہ چین کا مقابلہ کرنے کا خواہش مند ہے۔

’’نیو یارک ٹائمز‘‘ نے حال ہی میں انکشاف کیا کہ یورپی یونین یکم جولائی سے مرحلہ وار اپنی سرحدوں کو کھول دے گی لیکن امریکی سیاحوں کے داخلے پر عارضی طور پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔ یہ نہ صرف امریکا کی ساکھ کو بھاری دھچکا ہوگا، بلکہ وبا سے مقابلے کے ٹرمپ کے دعووں کی کھلی تردید بھی ہوگی۔ مضمون میں خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ امریکا اب متعدد شعبوں میں بیرونی دنیا کے ساتھ ’’عدم اطمینان‘‘ کی کیفیت کو چھپا نہیں سکتا۔ بین الاقوامی تعاون کا میدان ہو، تجارت، نیٹو یا شام وغیرہ جیسے مسائل، ٹرمپ کی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے، امکان ہے کہ یورپ اب چین کی طرف ہوگا۔

ٹرمپ نے متوقع بین الاقوامی اصولوں کے ساتھ بہت سے روابط منقطع کردیئے، جن کی قیمت باقی دنیا کو بھی چکانی پڑی ہے۔ اگرصورت حال ایسے ہی برقرار رہی تو امریکا گزشتہ چند دہائیوں کے مقابلے میں پہلے سے کہیں زیادہ تنہا ہوسکتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

زبیر بشیر

زبیر بشیر

بلاگر ان دنوں چائنا میڈیا گروپ سے وابستہ ہیں۔ ریڈیو پاکستان لاہور کے سینئر پروڈیوسر ہیں۔ اس سے قبل ڈوئچے ویلے بون جرمنی میں بطور ایڈیٹر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔