ماڈل آئین نے کلب کرکٹ کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا

عباس رضا  جمعرات 2 جولائی 2020
سیاسی شخصیات اور سرکاری ملازمین کے عہدیدار بننے پر پابندی سے اسپانسرزنہ ہونے کے برابر رہ جائیں گے۔ فوٹو: فائل

سیاسی شخصیات اور سرکاری ملازمین کے عہدیدار بننے پر پابندی سے اسپانسرزنہ ہونے کے برابر رہ جائیں گے۔ فوٹو: فائل

لاہور: نئے ماڈل آئین نے کلب کرکٹ کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا جب کہ وقف شدہ گراؤنڈ، 3ٹرف پچز، جم اور لیول ون کوچ کی شرائط پر پورا اترنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔

پی سی بی کی جانب سے کلبز کیلیے متعارف کرائے جانے والے نئے ماڈل آئین میں ہرٹیم کیلیے ایک ایسا وقف شدہ گراؤنڈ لازمی قرار دیا گیا جو کسی دوسرے کے زیر استعمال نہ ہو، متعدد نیٹس،3 ٹرف پچز اور وقف شدہ مدت کیلیے جمنازیم کا ہونا بھی ضروری ہے،کسی سیاسی عہدیدار، وزیر، رکن اسمبلی، ناظم یا کونسلر وغیرہ کے ساتھ سرکاری ملازم کو بھی کلب میں عہدہ نہیں دیا جا سکتا۔

کرکٹ آرگنائزرز نے ان شرائط کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کردیا،ان کا کہنا ہے کہ شہروں میں کتنے میدان ہیں جو کلبز کو دستیاب ہوسکیں،کئی گراؤنڈز کی مینجمنٹ ہفتے یا اتوار کو صرف ایک میچ کھیلنے کا 15 سے 20 ہزار روپے کرایہ وصول کرتی ہے، لیز پر بھی ہو تو روزانہ کے 5 ہزار روپے کون دے گا؟

اگر کسی کے پاس گراؤنڈ ہو بھی تو3 ٹرف پچز کی تیاری پر 4 لاکھ روپے کون خرچ کرے گا؟ کوئی اپنا جمنازیم بنائے تو 40 سے 50 لاکھ کی لاگت آئے گی، کرائے پر بھی حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا، لاہور میں 50 کے قریب لیول ون کوچز ہیں، 133 کلبز کی ضرورت کیسے پوری ہوگی؟

آرگنائزرز نے بتایا کہ لاہور میں ماڈل ٹاؤن وائٹ اور گرین، علی گڑھ، لاہور جیمخانہ، کرکٹ سینٹر، شاہ فیصل اور نیو اتفاق کے ساتھ شاید 1،2 مزید کلبز گراؤنڈ کی شرط پوری کرسکیں، جم ان کے پاس بھی نہیں ہوں گے، سیاسی عہدیداروں اور سرکاری ملازمین کو کلبز کیلیے کام کرنے سے روکنے کے بعد اسپانسرز کی بھی شدید کمی محسوس ہوگی،ان لوگوں کے اثر و رسوخ اور وسائل سے گراس روٹ لیول پر ملنے والی معاونت بہت کم رہ جائے گی،جہاں پی سی بی کو صوبائی ایسوسی ایشنز کی ٹیموں کیلیے اسپانسرز نہیں مل رہے وہاں کلبز پر پیسہ خرچ کرنے والے کہاں سے آئیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ لاہور میں تو پی ایچ اے کے تحت اور سوسائٹیز میں چند گراؤنڈز موجود ہیں، ماضی میں ایک پچ پر3 ٹیمیں بھی باری باری پریکٹس کر لیتی تھیں، اب یہ سہولت حاصل نہیں رہے گی، یہی صورتحال کراچی کی ہے، فیصل آباد، راولپنڈی ملتان سمیت دیگر شہروں میں تو گراؤنڈز کی تعداد بہت کم ہے، اس صورتحال میں چند ایک کے سوا کلبز کیلیے کوالیفائی کرنا بہت مشکل ہو جائے گا، لاہور میں اگر جم کی سہولت حاصل ہو بھی جائے تو 8 سے 10 تک معیار پر پورا اتر سکیں گے۔

آرگنائزرز کے مطابق کسی دوسرے علاقے سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو کلب میں عہدہ نہ دینے کا فیصلہ درست ہے،اس طرح صرف سیاسی مقاصد کیلیے دوسرے علاقوں سے اٹھ کر عہدوں پر قابض ہونے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی،البتہ کلب کرکٹ اتنی زیادہ محدود ہوگئی تو گراس روٹ سے ٹیلنٹ کس طرح سامنے آئے گا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔