بجھتے چراغ

شکیل فاروقی  جمعرات 2 جولائی 2020
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

ٹی ایس ایلیٹ (T.S Eliot) نے تو انبوہ مرگ کے حوالے سے صرف ماہ اپریل کو ہی سال کا ظالم ترین مہینہ قرار دیا تھا لیکن اب تو گویا ہر مہینہ ہی ستم گر بن کر قیامت ڈھا رہا ہے۔ ابھی ایک جوہر قابل کی اچانک رحلت کی خبر کی سیاہی خشک نہیں ہوئی کہ کسی اور نابغہ روزگار کی ملک عدم روانگی کی خبر سے قلب و جگر پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔ تواتر سے برق تپاں بن کر خرمن دل پر گرنے والی ان خبروں نے ہلکان کرکے رکھ دیا ہے اور حالت یہ ہے کہ:

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

مادہ پرستی اور اس سے جڑی ہوئی بے حسی کے موجودہ دور نے انسانی قدروں کو اس حد تک پامال کردیا ہے کہ خونی رشتے اب خونیں رشتوں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ ہر طرف مایا کا پھیلا ہوا پرفریب جال وبال جان بنا ہوا ہے جس سے بچنا محال ہے اور جس کی وجہ سے انسانیت نڈھال ہے۔ اس صورت حال میں انسانی قدروں کی حفاظت اور آبیاری شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں ہی کا کمال ہے جو عوام کا دل بہلاتے ہیں اور روتوں کو ہنساتے ہیں۔ یہ لوگ ہی ہمارے معاشرے کی روح رواں اور راحت جاں ہیں۔ سچ پوچھیے تو انھی کے دم قدم سے رونق انجمن ہے اور رعنائی گلشن وطن ہے۔ افسوس صد افسوس کہ:

جن کے دم سے تھی بزم کی رونق

ہائے وہ لوگ اٹھتے جاتے ہیں

یکے بعد دیگرے ملک عدم روانہ ہونے والے ان شہسواروں کا تانتا سا بندھا ہوا ہے۔ ان میں سے بعض کے ساتھ ہمارا تعارف بالمشافہ اور کچھ کے ساتھ غائبانہ رہا ہے۔ ان مرحومین کے بارے میں اس کالم کی اشاعت تک بہت کچھ لکھا اور کہا سنا جا چکا ہوگا جس کے بعد مزید خامہ فرسائی کی نوعیت محض خانہ پری کی ہوگی ویسے بھی ہم کیا اور ہماری بساط کیا:

ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے

گلشن حیات اور چمنستان علم و فن کو سجانے والے ان مختلف گلہائے رنگا رنگ میں ایک خوبی مشترک تھی اور وہ تھی انسان دوستی۔ ان مرحومین میں سب سے کم عمر ڈاکٹر آصف اسلم فرخی ہمارے محترم و مکرم دوست اور آفتاب علم و ادب ڈاکٹر محمد اسلم فرخی (مرحوم)کے ہونہار فرزند ارجمند تھے کہ جن پر یہ کہاوت حرف بہ حرف صادق آتی ہے کہ ’’پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آجاتے ہیں۔‘‘ آصف فرخی علم و ادب کی کان سے نکلا ہوا انمول ہیرا تھے جس کی خوبصورت تراش و خراش میں ان کی ذاتی کاوشوں کا بڑا عمل دخل تھا۔ اگرچہ ان کا خاندانی پس منظر شمس العلماڈپٹی نذیر احمد اور شاہد احمد دہلوی جیسی نابغہ روزگار شخصیات پر مشتمل ہے جس کے بارے میں بلاخوف تردید پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ’’ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔‘‘ نیز یہ کہ وہ اپنے والد بزرگوار ڈاکٹر اسلم فرخی کی عظمت و شہرت کی بنا پر محض اس لیے اکتفا کرکے بیٹھ سکتے تھے کہ ’’پدرم سلطان بود‘‘ لیکن انھوں نے اپنی راہیں خود تلاش کیں اور اپنی شناخت خود پیدا کی۔ پیشے کے لحاظ سے ان کا شعبہ اگرچہ ڈاکٹری تھا مگر نام و مقام انھوں نے شعبہ علم و ادب میں پیدا کیا۔ ان کی برق رفتاری رابرٹ فراسٹ کے اس خیال کی غمازی کرتی تھی کہ:

the words are lovely, dark and deep

but i have promises to keep

and miles to go before i sleep

and miles to go before i sleep

شاید انھیںیہ احساس ہو گیا تھا کہ ان کے پاس وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے اس لیے انھیں ہر کام میں عجلت تھی۔ آصف اسلم فرخی صرف 61 سال کی عمر میں اس دار فانی سے رخصت ہوکر ملک عدم سدھار گئے اور زندگی کی بازی ہار گئے افسوس صد افسوس! اس سانحہ عظیم کے حوالے سے بے اختیار یہی سخن نوک زبان پر آ رہا ہے:

زندگی کتنی بے وفا نکلی

ہم نے سوچا تھا کیا‘ وہ کیا نکلی

اﷲ تعالیٰ مرحوم کے پسماندگان کو اس ناقابل تلافی نقصان اور ناقابل بیان صدمے کو برداشت کرنے کا حوصلہ اور صبر جمیل عطا فرمائے آمین!

جواں سال آصف کی بے شمار خوبیوں کا تذکرہ کرنے کا نہ یہ موقع ہے اور نہ ہی یہ مقصود ہے۔ البتہ یہ اعتراف کرنا ضروری ہے کہ اتنے کم وقت میں اتنے سارے کارنامے انجام دینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ آصف کا کمال یہ تھا کہ انھوں نے اچھے اچھوں اور بڑے بڑوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ باالفاظ دیگر ’’اگر پدر نتواند پسر تمام کند‘‘ اس موقع پر ہمیں یہ پہیلی نما ضرب المثل یاد آ رہی ہے کہ ’’کٹورے پہ کٹورہ، بیٹا باپ سے بھی گورا۔‘‘ سچ پوچھیے تو انتظار حسین اور محمد حسین عسکری جیسے آصف کے معنوی استادوں کی ارواح بھی عالم بالا میں اپنے شاگرد کے عظیم کارناموں پر سرشار و مسرور ہو رہی ہوں گی۔ قصہ کوتاہ آصف اسلم فرخی (مرحوم) کی خدمات کا اعتراف ناممکن کی جستجو کے مترادف ہوگا۔

چل چلاؤ کی یہ کیفیت گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے اور عالم یہ ہے کہ:

بجھ رہے ہیں محبتوں کے چراغ

رفتہ رفتہ بچھڑ رہے ہیں لوگ

یکے بعد دیگرے آسمان علم و ادب کے درخشاں ستارے ٹوٹتے جا رہے ہیں۔ ہر آن دل کو کسی ناخوشگوار خبر کی آمد کا دھڑکا سا لگا رہتا ہے۔ صبح کا اخبار سہمے سہمے اور ڈرتے ڈرتے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اٹھاتے ہیں اور کسی بری خبر کے نہ ہونے کی صورت میں شکر الٰہی بجا لاتے ہیں۔ کورونا کی وبا نے دن کا چین اور رات کی نیند حرام کی ہوئی ہے۔ ہر کسی کے سر پر ایک تلوار لٹکی ہوئی ہے جس نے اچھے اچھوں کو آدم بے زار کر دیا ہے۔ نہ کہیں آنا اور نہ جانا۔ جن کے پیروں میں بلیاں بندھی تھیں اور جو دم بھر کے لیے بھی گھر میں نہ ٹکتے تھے وہ اب خودساختہ نظر بندی کا شکار ہیں اور قید تنہائی کے ہاتھوں بری طرح خوار ہیں۔ بقول اقبال صفی پوری:

یا ہم سے پریشاں تھی خوشبو‘ یا بند ہیں اب کلیوں کی طرح

یا مثل صبا آوارہ تھے‘ یا گھر سے نکلنا مشکل ہے

بے ثباتی کی اسی کیفیت میں یار وضع دار سرور جاوید 12 جون 2020 بروز جمعہ اپنے پیاروں کو سوگوار چھوڑ کر اس عالم ناپائیدار سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔ مرحوم سے ہماری بہت پرانی یاد اللہ تھی۔ حسن اتفاق سے ہماری تاریخ پیدائش بھی ایک ہی ہے یعنی 22 فروری ۔ وفات کے وقت ان کی عمر 73 برس تھی۔ وہ 1947 میں بھارت کے صوبے اتر پردیش کے مردم خیز شہر بلند شہر میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے والدین کے ہمراہ ہجرت کرکے کراچی میں آباد ہوگئے تھے۔ پیشے کے لحاظ سے وہ استاد تھے لیکن اس کے علاوہ ان کا تعلق شعر و شاعری اور صحافت سے بھی بہت گہرا تھا۔ تنقید نگاری سے بھی انھیں بڑا شغف تھا اور ادبی محفلوں میں وہ انتہائی متحرک تھے۔ ان کی دو کتابیں شاعری پر اور دو تنقید نگاری پر شائع ہو کر منظر عام پر آچکی ہیں اور اپنی اہمیت منوا چکی ہیں۔ بلاشبہ وہ منفرد لب و لہجے کے شاعر تھے۔ ان کے چند اشعار نمونے کے طور پر پیش ہیں:

شکست عشق کا قصہ نیا نہیں رکھتے

مگر ہم اس کے علاوہ تجربہ نہیں رکھتے

ہیں ایک عمر سے بے خانماں و بے منزل

کہ ہم سوائے سفر مدعا نہیں رکھتے

تازہ تازہ زخم یہ کہ ہمارے ایک اور عزیز دوست پروفیسر منظر ایوبی بھی ملک عدم روانہ ہوگئے جو ایک ماہر تعلیم ہونے کے علاوہ ایک بہترین شاعر، مصنف، نقاد اور انتہائی ملنسار انسان تھے۔ ان کے ساتھ ہمارا تعلق کم و بیش 35 سال پر محیط تھا۔ حق تعالیٰ سے دعا ہے کہ انھیں اپنے جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے آمین!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔