مویشی منڈیاں، خوف کے سائے میں

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 3 جولائی 2020
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ذمے دار حلقوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ مویشی منڈیوں سے کورونا تیزی سے پھیلنے کا خطرہ ہے۔ عید پر قربانی کے لیے لائے جانے والے جانوروں سے کورونا کا خطرہ ہے۔ مویشی منڈیوں میں لوگ ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے ہیں اور بے فکری سے گلے ملتے ہیں اور یہ دونوں ہی کام کورونا میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔

حکومت نے بارہا لاک ڈاؤن کرکے دیکھا جس پر ذرہ برابر عمل نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری کسی حکومت نے عوام میں اس قسم کے خطرات سے بچاؤ اور کورونا کی سفاکی اور ہلاکت خیزی کے حوالے سے عوام کو ڈرانے اور ان خطرات سے بچنے کے فائدوں سے آگاہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ نتیجہ انتہائی مایوس کن رہا ہے۔

عیدالفطر کے مقابلے میں عیدالاضحی بالکل مختلف ہوتی ہے۔ ذبح کیے جانے والے جانوروں کے خون کے علاوہ غلاظت کے ڈھیر شہر بھر میں لگے رہتے ہیں جس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، نتیجتاً ہر سڑک ہر گلی گندگی کے ڈھیر میں بدل جاتی ہے، قربانی کے ساتھ بدقسمتی سے خون اور غلاظتوں کا ڈھیر لازمی ہے دوسرے ملکوں میں گندگی کے ڈھیر نہیں لگتے کیونکہ صفائی کا عملہ فعال ہوتا ہے جب کہ ہمارے ملک میں ’’ صفائی‘‘ ایک بیماری کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔

ترقی یافتہ ملکوں میں صفائی کا انتظام اس قدر فعال ہوتا ہے کہ زمین پر جانوروں کا خون نظر ہی نہیں آتا۔ اس کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ کورونا جانوروں کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے اور جانور تقریباً ہرگھر کے آگے بندھا رہتا ہے۔ عید قرباں سر پر کھڑی ہے تشویش سے پُر بیانات آ رہے ہیں لیکن صرف تشویش مسائل کا حل نہیں ہے متعلقہ اداروں کی یہ سخت ذمے داری ہونی چاہیے کہ وہ ایک منٹ کی دیر لگائے بغیر غلاظت کو اس کے صحیح مقام پر پہنچائیں اس میں عوام کی ذمے داری بہت بڑی ہے کہ وہ سب سے پہلے اس بات کا خاص خیال کریں کہ جانوروں کا وائرس انسانوں میں منتقل نہ ہو۔

اس حوالے سے کسی قصائی پر یہ ذمے داری نہیں آتی کہ وہ جانوروں کو ذبح کرنے کے بعد ان کی آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کا اہتمام کرے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آلائشیں ہفتوں پڑی سڑ رہی ہوتی ہیں اور انسانی صحت کے لیے زبردست خطرہ بن جاتی ہیں۔ ہمارے عوام ان آلائشوں کی عادی ہے اسے ان سڑی ہوئی آلائشوں کے خطرات کا ذرہ برابر احساس نہیں۔ کے ایم سی اپنے اسٹاف کے مطابق اپنا فرض پورا کرتی ہے اللہ اللہ خیر صلہ۔

ہمارے میونسپل اداروں کا حال یہ ہے کہ گندے پانی کے نالے سارا سال بھرے رہتے ہیں، عید قرباں کی آمد سے چار پانچ دن پہلے ان گندے نالوں کی صفائی کا کام شروع ہوتا ہے اور صفائی جاری رہتی ہے کہ عید گزر جاتی ہے جس ملک کی صفائی کا یہ حال ہو اس ملک کے عوام کی صحت کا کیا حال ہوسکتا ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ عوام گوشت کی تقسیم اس قدر بے احتیاطی سے کرتے ہیں کہ کورونا کے لیے یہ ایک بہترین موقع ہوسکتا ہے۔ متعلقہ اداروں کی تشویش کا ذکر ہم نے کیا ہے کہ یہ ادارے کورونا میں زیادتی کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔

ہماری بلکہ ساری دنیا کے عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ کورونا آگ کی طرح پھیل رہا ہے اس کی ہلاکت آفرینی کا اندازہ اس حقیقت سے لگائیں کہ اس حوالے سے اس ’’خوش قسمتی‘‘ کو ملاحظہ فرمائیں اس سال ابھی تک 38 بڑے نالوں کی صفائی نہ ہوسکی برسات کا موسم شروع ہو رہا ہے۔ اگر بارش زیادہ ہو تو یہ 38 بڑے نالے 38 بڑے دریاؤں میں بدل جاتے ہیں۔ اور بے چارے عوام ان نالوں میں ڈوبتے ابھرتے رہتے ہیں۔ کراچی ڈھائی کروڑ انسانوں کا ایک بہت بڑا شہر ہے جہاں میونسپل کارپوریشن کا غیر معمولی طور پر تیار رہنا ضروری ہے جب کہ حال یہ ہے کہ آدھا برسات کا موسم گزر گیا ابھی تک شہر کے 38 بڑے نالوں کی صفائی ممکن نہیں ہوئی، اگر تیز بارش شروع ہوجائے تو جو حال شہر کا ہوگا اس سے ہم واقف ہیں۔

بقر عید مسلمانوں کی دوسری بڑی عید ہے رمضان کے بعد عوام بقر عید کی دوسری بڑی عید کی طرح تیاری کرتے ہیں لیکن ہر سال کی خوشیوں کی جگہ اس سال شدید خوف نے لے لی ہے ویسے تو امید یہی ہے کہ اس سال خوف کی وجہ بقر عید بے مزہ اور شدید خوف کے عالم میں گزرے گی۔ بڑے جانی نقصان سے بچنے کے لیے شہر میں لاک ڈاؤن کی ضرورت ہے اور لاک ڈاؤن ہونا چاہیے لیکن یہ کیسی مشکل ہے کہ لاک ڈاؤن ایک بہت بڑا معاشی مسئلہ بن گیا ہے اگر حکومت لاک ڈاؤن کرتی ہے تو لاکھوں دیہاڑی دار عوام بے روزگار ہوکر فاقہ کشی کی طرف چلے جاتے ہیں اگر عوام لاک ڈاؤن نہیں کرتے تو کورونا وائرس کا سامنا کرنے کا خطرہ ہے۔

سعودی عرب جیسے ملک میں عید کی خوشیوں اور فرائض کو ملتوی کیا جاسکتا ہے تو دوسرے کورونا سے متاثر مسلم ملکوں میں عید کس طرح منائی جائے، قربانی کیسے ہو، اس کے بارے میں یا تو سعودی عرب سے رہنمائی لی جائے یا ہر ملک میں دینی اکابرین پر مشتمل ایسی کمیٹیاں بنائی جائیں جو مشورے کے بعد عید اور قربانی کے حوالے سے مناسب اور عوامی مفادات کے مطابق فیصلے کریں تاکہ انتشار سے بچا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔