گرگ آشتی

سید شاہوار کاکاخیل  جمعـء 3 جولائی 2020
یہ ’’گرگ آشتی‘‘ پاکستان میں ہی کیوں بدرجہ اتم موجود ہے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یہ ’’گرگ آشتی‘‘ پاکستان میں ہی کیوں بدرجہ اتم موجود ہے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آج جب صبح سویرے قلم اٹھایا تو رہوار خیال بے اختیار وط‍‍‍‍‌‏ن عزیز کے حالات کی طرف چل پڑا۔ ہم دیار غیر میں رہنے والے وطن عزیز کو دن بدن تنزلی کی راہ پر گامزن دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یورپ میں رہ کر یہاں اور پاکستان کو تقابلی نظروں سے دیکھنا ایک فطری امر ہے اور آج ذہن میں بچپن میں پڑھی ہوئی ایک کہانی ابھر آئی، جو پاکستان میں موجود سوچ کی عکاس ہے۔

کہانی کچھ یوں ہے کہ ایران میں سردیوں میں جب بھیڑیوں کو شکار نہیں ملتا ہے‏ اور برف کی وجہ سے خوراک کی قلت ہوجاتی ہے تو بھیڑیے ایک دائرے میں بیٹھ کر ایک دوسرے کو گھورنا شروع کردیتے ہیں۔ جیسے ہی کوئی بھیڑیا بھوک سے نڈھال ہو کر گرتا ہے تو باقی سب مل کر اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور اس کو کھا جاتے ہیں۔ اس کو فارسی میں ’’گرگ آشتی‘‘ کہتے ہیں۔ اس عمل کا عمیق تجزیہ ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنے پرمجبور کرسکتا ہے کہ یہ رجحان بھیڑیوں کے ساتھ ساتھ کافی حد تک انسانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔

آپ ذرا تاریخ پر نظر دوڑائیے، آپ کو اپنوں کے ساتھ بے وفائی کا ایک لامتناہی سلسلہ نظر آئے گا۔ قائداعظم کی خراب ایمبولینس میں کیماڑی کی ریلوے کراسنگ پر وفات سے لے کر موجودہ حکومت کے رہنماؤں تک، جو وقتی مفادات کی خاطر ایک دوسرے سے دست وگریباں ہیں۔ اسکندر مرزا نے ایوب خان کے ساتھ مل کر مارشل لاء لگایا اور صرف بیس دن بعد ایوب خان نے انہیں صدر کے عہدے سے برطرف کردیا۔ ایوب خان کو ڈیڈی کہنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے خلاف تحریک میں 1966 کے بعد بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ موجودہ حکومت کے ضمن میں بھی اگر ’’اس گھر کو آگ لگی گھر کے چراغ سے‘‘ والی بات ہوئی تو کوئی انہونی نہ ہوگی۔

سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ یہ ’’گرگ آشتی‘‘ پاکستان میں ہی کیوں بدرجہ اتم موجود ہے۔ یورپ میں کیوں اس درجہ کی مفاد پرستی عام نہیں؟ مطلب پرستی اور خودغرضی ہم پاکستانیوں کا اوڑھنا بچھونا کیوں بن چکی ہے؟ کورونا جیسی وبا پورے ملک میں پر پھیلائے کھڑی ہے اور ہم ہیں کہ بحیثیت قوم ایک دوسرے کے استحصال کی راہیں ڈھونڈ رہے ہیں تاکہ کسی بھی طرح راتوں رات دولت کما سکیں۔

پاکستانی معاشرے کے اخلاقی انحطاط کی وجوہات گوناگوں ہیں، لیکن کسی بھی مسئلے کے حل کی طرف جانے سے پہلے اس مسئلے کی موجودگی کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ ہمارے ہاں تو المیہ یہ ہے کہ ہم شترمرغ کی طرح ریت میں سر چھپا کر طوفان سے بچنا چاہتے ہیں اور تسلیم ہی نہیں کرتے کہ پاکستان میں منافقت، جھوٹ، مفاد و مطلب پرستی، دھوکا اور دیگر تمام اخلاقی علتیں اپنے عروج پر ہیں۔

پاکستان کے معاشرتی خصائل کو کیسے صحیح خطوط پر استوار کیا جاسکتا ہے۔ میرے نزدیک تمام اہل دانش کو اپنی بھرپور ذہنی استعداد بروئے کار لاتے ہوئے اس موضوع پر بحث کرنی چاہیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سید شاہوار کاکاخیل

سید شاہوار کاکاخیل

بلاگر لندن میں مقیم ہیں اور ایک درآمداتی ادارے سے وابستہ ہیں۔ تاریخ اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز ہیں جبکہ پاکستانی اورمغربی معاشروں کا تقابلی جائزہ ان کے پسندیدہ موضوعات میں سے ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔