انڈونیشیا کی سڑکوں پر ’’چاندی کے بھکاریوں‘‘ کا راج

ویب ڈیسک  ہفتہ 4 جولائی 2020
منفرد رنگت کی وجہ سے لوگ دُور ہی سے انہیں پہچان جاتے ہیں اور انہیں زیادہ آسانی سے بھیک مل جاتی ہے۔ (تصاویر: سوشل میڈیا)

منفرد رنگت کی وجہ سے لوگ دُور ہی سے انہیں پہچان جاتے ہیں اور انہیں زیادہ آسانی سے بھیک مل جاتی ہے۔ (تصاویر: سوشل میڈیا)

جکارتا: پچھلے ایک سال سے انڈونیشیا کے کئی شہروں کی گلی کوچوں میں اور شاہراہوں پر چاندی جیسی رنگت والے بھکاری جا بجا نظر آنے لگے ہیں اور اپنی اسی ہیئت کذائی کی بناء پر وہ مقامی لوگوں اور میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔

مقامی زبان میں انہیں ’’منوسیا سلور‘‘ یعنی چاندی کا آدمی کہا جاتا ہے۔ یہ تو نہیں معلوم کہ بھیک مانگنے کےلیے خود کو چاندی کے رنگ میں رنگنے کا سلسلہ کس نے شروع کیا لیکن انڈونیشیا کے بھکاریوں میں یہ رجحان بہت تیزی سے مقبول ہوا ہے۔

اس بارے میں بھکاریوں کا کہنا ہے کہ وہ بازار میں عام ملنے والا سلور اسپرے اپنے پورے جسم پر کرنے کے بعد ہاتھ میں بھیک کا پیالہ یا ڈبا لے کر نکل جاتے ہیں۔ منفرد رنگت کی وجہ سے لوگ دُور ہی سے انہیں پہچان جاتے ہیں اور یوں انہیں دوسرے بھکاریوں کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے بھیک مل جاتی ہے اور انہیں بھیک مانگنے کےلیے صدائیں لگانی نہیں پڑتیں۔

دیگر کئی ملکوں کی طرح انڈونیشیا میں بھی بھیک مانگنا جرم ہے اور حالیہ چند مہینوں سے وہاں کی پولیس نے بطورِ خاص چاندی کے بھکاریوں کے خلاف آپریشن شروع کر رکھا ہے۔ اس سے ’’منوسیا سلور‘‘ کی تعداد میں کچھ کمی ضرور ہوئی ہے لیکن وہ ختم نہیں ہوئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔