لیکن ملک آپ نے

جاوید چوہدری  پير 9 دسمبر 2013
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

یہ ان دنوں کی بات ہے جب شریف خاندان لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا تھا‘ میاں نواز شریف سارا دن اپنے دفتر میں لوگوں سے ملاقاتیں کرتے تھے اور میاں شہباز شریف ہائیڈ پارک میں واک کرتے تھے اور شام کسی لبنانی یا ایرانی ریستوران میں گزار دیتے تھے‘ یہ پاکستانیوں کو ہمیشہ ماربل آرچ کے قریب نظر آتے تھے‘ لوگ ان سے ہاتھ ملاتے تھے اور یہ انھیں واک کی دعوت دے دیتے تھے ‘جو مان جاتے تھے‘ وہ ان کے ساتھی ہوجاتے تھے اور جو واک کی ہمت نہیں کرتے تھے وہ چپ چاپ دائیں بائیں ہو جاتے تھے‘ میری 2006ء میں میاں شہبازشریف سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا‘ ہم واک کرتے تھے‘ کافی شاپ میں بیٹھ کر کافی پیتے تھے‘ پھر واک کرتے تھے اور یہ مجھے شام کو ایجویر روڈ کے ایک ایرانی ریستوران میں لے جاتے‘ یہ ریستوران بھی عجیب جگہ ہے‘ یہ دس بائی بیس کا دو منزلہ ریستوران ہے۔

آپ ریستوران میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو تین تنگ میزیں ملتی ہیں جن پر لوگ گھٹنے جوڑ کر بیٹھتے ہیں‘ میزوں کے ساتھ ایرانی تنور اور ایرانی گرل ہے‘ ساتھ سیڑھیاں اوپر چڑھتی ہیں‘ اوپر ہال کے نام پر ایک تنگ سا کمرہ ہے جس میں تین چار میزیں لگی ہیں اور لوگ یہاں بھی گھٹنے جوڑ کر بیٹھتے ہیں لیکن اس تمام تر تنگی کے باوجود اس ریستوران کا کھانا لاجواب ہے‘ پورے لندن میں کوئی شیف اس جیسا چلو کباب نہیں بناتا‘ آپ کو اس ریستوران میں کھانے کے لیے گلی میں باقاعدہ لائین بنانی پڑتی ہے یا پھر ٹیلی فون پر بکنگ کرانی پڑتی ہے‘ آپ بکنگ کے بغیر وہاں چلے جائیں تو ریستوران کا بنگالی ویٹر آپ کا نام اور ٹیلی فون لکھتا ہے اور آپ کو آدھ گھنٹے کا وقت دے کر رخصت کر دیتا ہے‘ آپ یہ آدھ گھنٹہ ایجویر روڈ پر ونڈو شاپنگ کرتے ہیں‘ آپ دوبارہ ریستوران آتے ہیں اور لائین میں لگ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔

میں جب بھی لندن جاتا ہوں اس ایرانی ریستوران کی قطار میں ضرور لگتا ہوں‘ یہ ریستوران تھا یا پھر پارک لین کی کوئی کافی شاپ تھی‘ مجھے یاد نہیں لیکن مجھے چھوٹے میاں صاحب کی بات آج بھی یاد ہے‘ میاں شہباز شریف نے بتایا ’’ میں جب پہلی بار پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا تو میرے والد نے مجھے بلاکر نصیحت کی‘ بیٹا آپ اگر کامیاب وزیراعلیٰ بننا چاہتے ہو تو آپ پنجاب کو اتفاق گروپ کی طرح چلانا‘ آپ بہت ترقی کرو گے‘‘۔ میاں صاحب کے بقول ’’ میں نے والد صاحب سے وضاحت کی درخواست کی‘ والد نے کہا ‘بیٹا! آپ چوبیس گھنٹوں میں سب سے زیادہ وقت اتفاق گروپ کو دیتے رہے ہو‘ آپ اس کے لیے جدید ترین مشینری خریدتے تھے اور آپ اہل ترین اور ایماندار ترین لوگوں کو ہائر کرتے تھے‘ آپ کسی کو ذمے داری سونپتے تھے تو آپ اس پر چیک اینڈ بیلنس رکھتے تھے‘ آپ اس سے پراگریس پوچھتے تھے‘ آپ کی اس محنت اور اس اپروچ کی وجہ سے اتفاق فاؤنڈری اتفاق گروپ بن گیا‘ آپ اگر پنجاب کو بھی اسی اسپرٹ سے چلاؤ گے تو یہ بھی گروپ بن جائے گا اور یہ آپ کی نیک نامی کا ذریعہ بنے گا‘‘ میاں صاحب کے بقول’’ میں نے اپنے والد کی نصیحت پلے باندھ لی‘ میں نے صوبے کو اتفاق گروپ کی طرح چلایا اور میں کامیاب ہو گیا‘‘ یہ انکشاف میرے لیے ’’شاکنگ‘‘ تھا اور میں میاں شریف مرحوم کے تدبر اور ذہانت کا قائل ہو گیا۔

میاں شریف مرحوم کے دونوں صاحبزادے حیران کن صلاحیتوں کے مالک ہیں‘ میاں نواز شریف میں تعلق داری‘ حیاء اور بہادری تینوں خوبیاں موجود ہیں جب کہ میاں شہباز شریف متحرک‘ فوکس اور وژنری انسان ہیں لیکن یہ نتائج کے حصول کے لیے کسی تعلق‘ کسی رشتے اور کسی دوستی کو خاطر میں نہیں لاتے‘ یہ کام کے معاملے میں سخت ہو جاتے ہیں‘ ہمیں ماننا پڑے گا میاں شہباز شریف نے پچھلے پانچ برسوں میں صوبے میں بے تحاشا کام کیا اور ہم اگر پنجاب کو دوسرے صوبوں سے کمپیئر کریں تو ہمیں پنجاب سسٹم‘ ترقی اور لاء اینڈ آرڈر میں دوسرے صوبوں سے کہیں بہتر نظر آتا ہے اور یہ میاں شہباز شریف کی محنت کا نتیجہ ہے لیکن جب سے پاکستان مسلم لیگ ن نے وفاق کی حکومت سنبھالی ہے‘ میاں صاحبان کا طلسم ٹوٹتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے ان کی پرفارمنس صرف پنجاب تک محدود تھی اور یہ پورے ملک کو سنبھالنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں یا پھر پورا ملک شاید اب ان کی ترجیح نہیں رہا‘ ہم جب اس کی وجوہات تلاش کرتے ہیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں۔

میاں صاحبان نے بنیادی طور پر اپنے والد کی اپروچ ترک کر دی ہے‘ یہ ملک کو اب اتفاق گروپ کے بجائے جاگیرداروں کی طرح چلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپروچ کی اس تبدیلی کی وجہ سے یہ وہ نتائج حاصل نہیں کر پا رہے جن کی ان سے توقع تھی‘ مثلاً سلمان شہباز میاں شہباز شریف کے دوسرے صاحبزادے ہیں‘ انھوں نے مجھے ایک بار بتایا’’ میں اپنے اداروں کے لیے بہترین‘ پڑھے لکھے اور تجربہ کار لوگ ہائر کرتا ہوں‘ ملازمت کے دوران انھیں ریفریشر کورس کرواتا ہوں اور ان کی ذمے داری میں اپنا متبادل تیار کرنا بھی شامل ہوتا ہے‘ ہمارے کسی ادارے میں اگر کوئی شخص اپنا متبادل تیار نہیں کرتا‘ ہم اسے نوکری سے فارغ کر دیتے ہیں خواہ یہ ہمارے لیے کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو‘‘ لیکن ہم جب حکومت میں میاں برادران کی اپروچ دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ فلسفہ کسی جگہ نظر نہیں آتا‘ میاں صاحبان خود اپنے تمام وفاقی وزراء کی فہرست سامنے رکھ کر بیٹھ جائیں اور یہ ایک لمحے کے لیے سوچیں کیا ہم نے اہل اور تجربہ کار لوگوں کو وزارتیں دی ہیں‘ کیا یہ لوگ اپنے اپنے محکموں کے ایکسپرٹ ہیں‘ کیا یہ قانون‘ نج کاری‘ ریلوے‘ مواصلات‘ ہاؤسنگ‘ سفارت کاری اور بجلی کو سمجھتے ہیں‘ کیاان لوگوں نے ان شعبوں میں تعلیم حاصل کی‘ کیا انھوں نے کبھی دوسرے ملکوں کے نظام کو اسٹڈی کیا؟ کیا یہ ان ملکوں میں گئے جہاں یہ شعبے ترقی کر رہے ہیں یا یہ اپنا اضافی وقت ریفریشر کورسز میں خرچ کر رہے ہیں یا یہ مختلف ملکوں کے مختلف محکموں کے ماڈلز کا مطالعہ کرتے ہیں‘ مجھے یقین ہے اس کا جواب نفی میں ہو گا۔

یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے‘ آپ نے اگر اپنی فیکٹری میں معمولی سا الیکٹریشن بھی رکھنا ہو تو آپ اس سے تعلیم‘ تجربہ اور سابق نوکریوں کا ریکارڈ مانگتے ہیں لیکن آپ نے پورے ملک کی بجلی کا نظام ان لوگوں کے ہاتھ میں دے دیا جن کا بجلی کے بارے میں کل علم یہ ہے‘ آپ سوئچ کو نیچے دبائیں تو لائٹ آن ہو جاتی ہے اور اوپر دبائیں تو لائٹ بند ہو جاتی ہے‘ آپ دفتر کی دس پندرہ گاڑیوں کی مینٹیننس کے لیے کوالیفائیڈ شخص تلاش کریں گے‘ یہ گاڑیاں شہر کی جدید ترین ورکشاپ میں بھجوائیں گے لیکن آپ جب ریلوے‘ پی آئی اے اورپبلک ٹرانسپورٹ کا فیصلہ کرتے ہیں تو آپ پورے ملک کا سسٹم ناتجربہ کار لوگوں کے حوالے کر دیتے ہیں اور یہ سسٹم کو سمجھنے میں سال سال ضایع کر دیتے ہیں‘ آپ اپنے گھر کے لیے مائیکرو ویو بھی خریدتے ہیں تو آپ برانڈاور کمپنی کا خیال رکھتے ہیں۔

آپ کو پرنٹر بھی اچھی کوالٹی کا چاہیے‘ آپ کسی ایسے شخص کو اپنے کسی دفتر میں جاب نہیں دیں گے جسے کمپیوٹر چلانا نہیں آتا یا جو انگریزی لکھنا‘ پڑھنا یا بولنا نہیں جانتا یا ٹیکنالوجی کی نو ہاؤ نہیں رکھتا لیکن آپ کمپیوٹر سے نابلد‘ انگریزی سے ناآشنا اور ٹیکنالوجی کے علم سے محروم شخص کو وفاقی وزیر بھی بنا دیں گے اور صدر بھی‘ آپ اپنی فیکٹری کی معمولی نوکری کسی خوشامدی کو نہیں دیں گے لیکن ملک کے بڑے بڑے سرکاری محکمے اپنی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر تقسیم کر دیں گے‘ میں میاں نواز شریف ‘ میاں شہباز شریف ‘ حمزہ شہباز شریف اور سلمان شہباز شریف سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں‘ کیا آپ اپنی گاڑی کسی ایسے شخص کے حوالے کر دیں گے جو ڈرائیونگ نہیں جانتا مگر اس کا دعویٰ ہے وہ آپ کو گاڑی میں بٹھا کر ’’آن جاب‘‘ گاڑی سیکھ جائے گا یا آپ اپنے ادارے کا اکاؤنٹ سیکشن کسی ایسے شخص کے حوالے کر دیں گے جسے اکاؤنٹس ہینڈل کرنے کا تجربہ نہیں‘ جس کے پاس اکاؤنٹس کی فارمل ایجوکیش ہے اور نہ ہی تجربہ لیکن آپ نے پورے ملک کے اکاؤنٹس‘ پورے ملک کی ڈرائیونگ سیٹ ایسے لوگوں کے حوالے کر دی جو ’’آن جاب ٹریننگ‘‘ لینا چاہتے ہیں‘ جن کا دعویٰ ہے ہم وزارت کی کرسی پر بیٹھ کر سیکھ جائیں گے‘ آپ کسی ایسے شخص کے حوالے اپنی کمپنی نہیں کریں گے جس نے کوئی فرم‘ کوئی کمپنی نہ چلائی ہو لیکن آپ نے پورا ملک ایسے لوگوں کے حوالے کر دیا جنہوں نے آج تک کوئی اسکول‘ کوئی فیکٹری‘ کوئی دکان تک نہیں چلائی‘ جن کی ذاتی زندگی ناکامیوں کی عبرت ناک داستان ہے‘ کیوں؟کیا آپ ملک کو اپنی کمپنی جتنی اہمیت بھی نہیں دیتے؟‘ یہ غلطی صدر آصف علی زرداری نے بھی کی تھی اور یہ غلطی آپ بھی کر رہے ہیں چنانچہ ملک تیزی سے ڈھلوان سے نیچے گر رہا ہے۔

ہمارے حکمران جب تک ملک کو ذاتی پراپرٹی نہیں سمجھیں گے‘ یہ اسے اتفاق گروپ کی اپروچ کے ساتھ نہیں چلائیں گے‘ یہ اہم پوزیشنوں پر اہل‘ تجربہ کار اور وژنری لوگوں کو تعینات نہیں کریں گے‘ یہ ملک اس وقت تک بحرانوں سے نہیں نکلے گا‘ آپ آج کراچی‘ لاہور‘ کوئٹہ‘ پشاور یا اسلام آباد مصطفی کمال کے حوالے کر دیں‘ یہ شہر تبدیل ہو جائیں گے‘ آپ آج سی ڈی اے کو دوبارہ کامران لاشاری کے حوالے کر دیں‘ آپ آج ایف بی آر عبداللہ یوسف کے حوالے کر دیں‘ آپ آج ذوالفقار چیمہ یا ناصر درانی کو اینٹی ٹیررازم فورس کا انچارج بنا دیں ‘آپ آج جنرل پرویز مشرف کی اکنامک ٹیم واپس لے آئیں اور آپ آج ہائیر ایجوکیشن ڈاکٹر عطاء الرحمن کے حوالے کر دیں‘ آپ کو ملک تبدیل ہوتا ہوا دکھائی دے گا لیکن کیونکہ ہماری اپروچ ذاتی پراپرٹی اور قومی پراپرٹی کے بارے میں مختلف ہے‘ ہم ذاتی پراپرٹی کی ترقی کے لیے یہودی ایکسپرٹس تک بلا لیں گے مگر جب قوم کا معاملہ آئے گا تو ہم اہل ترین لوگوں کو ان کی سابق وفاداریوں کے جرم میں مسترد کر دیں گے اور پی آئی اے جیسے ادارے اپنے نااہل وفاداروں کے حوالے کر دیں گے اور پھر حیران ہو کر سوچیں گے ملک ترقی کیوں نہیں کر رہا؟ ہمارے مسائل ختم کیوں نہیں ہو رہے؟ میاں صاحب مسائل اس لیے ختم نہیں ہو رہے اور ملک اس لیے ترقی نہیں کر رہا کہ ہم ذاتی کاروبار میں پروفیشنل ہو جاتے ہیں مگر ملک کے معاملات میں جاگیردار بن جاتے ہیں چنانچہ ملک تباہ ہو رہا ہے لیکن ہم ترقی کر رہے ہیں اور اپروچ کا یہ فرق اس ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔