حکومت کو فراخ دلی ہی زیب دیتی ہے

غلام محی الدین  پير 9 دسمبر 2013
gmohyddin@express.com.pk

[email protected]

ظہور اسلام سے قبل مکہ میں ہونے والی بت پرستی کا ایک پہلو بہت دلچسپ تھا۔ وہ یہ کہ جن بتوں کو پوجا جاتا تھا ان کے چہروں اور سراپا کو اس ڈھنگ سے تراشا جاتا تھا کہ ان میں عرب کے سب سے بااثر سرداروں کے جسمانی خدوخال کے امتیازی پہلو نمایاں ہو جائیں۔ کسی سردار کے چہرے کے کسی خاص حصے پر نمایاں تل ہی اگر کسی بت کے چہرے کے اسی مقام پر ہو تو پرستش کرنے والا لاشعوری سطح پر اپنے معبودکا تعلق اس سردار سے جوڑنے سے خود کو روک نہیں سکتا تھا۔ یوں بتوں کی پرستش کا یہ معمول لاشعوری طور پر لوگوں کو اپنے سرداروں کا مطیع اور فرنبردار رہنے پر آمادہ کرتا تھا۔ اس زمانے کے لوگ انسانی نفسیات کی جانکاری کے میدان میں اس قدر طاق تھے۔ بدقسمتی سے ہمارے دینی مباحث میں قبل از اسلام کے زمانے کے یہ پہلو مرکزی حیثیت حاصل نہیں کر پائے۔ اگر تجزئیے کی بنیاد اس معاشرے کا استحصالی ماحول ہو تو اس کے ردعمل میں ظہور اسلام کے خالص انسانی پہلو ابھر کر سامنے آتے ہیں جن کی مدد سے عملی زندگی میں بہترین راستے کا انتخاب ممکن ہو جاتا ہے۔

تاریخ انسانی مطلق اختیارات کا کسی شخصیت یا چند افراد کے ہاتھوں میں ارتکاز اور اس کے نتیجے میں استحصال کا نشانہ بننے والے عوام الناس کی باہمی کشمکش سے عبارت ہے۔ اسی کشمکش کے نتیجے میں مختلف ادارے وجود میں آئے جن کا مقصد تصادم سے بچنے کے لیے حدود کا تعین کرنا ہے۔ کہیں یہ کام بزور طاقت کرتے ہوئے رضاکارانہ طور پر حاکم مطلق نے کچھ محدودات پر اتفاق کر لیا۔ لیکن یہ کشمکش آج بھی اسی شدت سے جاری ہے جن ریاستوں نے داخلی سطح پر سیاسی بلوغت حاصل کر لی اور فلاح عامہ کے مقاصد تک رسائی پا لی ان کا یہ رویہ خارجی محاذوں پر بروئے کار آ رہا ہے جو ریاستیں داخلی سطح پر انتہائی بنیادی نوعیت کے مسائل سے نبرد آزما ہیں وہاں یہ کشمکش اپنی پوری شدت کے ریاست کے اندر موجود ہے۔ ریاستی ادارے دراصل اختیارات کے ارتکاز کے مسئلے کا حل ہیں اور یہ اسی صورت میں اپنے اس کردار کا موثر اظہار کر سکتے ہیں جب ان کی کارکردگی پر عوام کی نگرانی موثر ہو۔ نوم چومسکی کے مطابق ’’ریاستیں اخلاقی معیارات کے اطلاق کی نمایندگی نہیں ہوتیں بلکہ یہ کام عوام کرتے ہیں۔ عوام طاقت ور اداروں کو اخلاقی معیارات کی پاسداری کا پابند بنا سکتے ہیں‘‘۔

ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ بھی اسی کشمکش کی عکاس ہے۔ جمہوری نظام اس دور کی مجبوری ہے اور جب جمہوری نظام اختیار کیا جائے گا تو اس کے لیے ان اداروں کو بھی وجود میں لانا ضروری ہو گا جو اس نظام کا بنیادی تقاضا ہیں لیکن حکمرانوں کی یہ خواہش اپنی جگہ پوری شدت کے ساتھ موجود رہتی ہے کہ جو ادارے توازن کو یقین بنانے اور حدود سے تجاوز کو روکنے کے لیے کام کرتے ہیں وہ کسی فرد واحد یا مخصوص گروہ کے اسی طرح مطیع اور فرمانبردار بن کر رہیں جیسے بادشاہوں کے دور میں ہوا کرتے تھے۔ اب حالیہ الیکشن میں دھاندلی کے الزامات اور انگوٹھوں کے نشانات کی بنیاد پر ووٹوں کی تصدیق ہی کا معاملہ دیکھ لیں۔ اس مطالبے اور اس کے نتیجے میں متعلقہ اداروں کی معمول کی کارروائی میں کسی تنازع کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔

انگوٹھے کے نشان کی پابندی لاگو کرنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ کسی اعتراض کی صورت میں اس ثبوت کے ذریعے معاملہ منصفانہ طور پر نمٹایا جا سکے۔ لیکن ہوا یہ کہ چیئرمین نادرا طارق ملک کو فارغ کر دیا گیا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ انھیں فارغ کرنے کا ووٹوں کی تصدیق کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ ممکن ہے کہ سو فیصد ایسا ہی ہو لیکن اس بات پرکون یقین کرے گا۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ انھیں آڈٹ کرانے سے انکار پر نکالا گیا تھا۔ پھر حکومت کے اندرونی حلقوں میں یہ بات بھی عام ہے کہ یہ وزیراعظم کا اختیار ہے کہ وہ کسی بھی افسر کا معاہدہ ختم کر سکتے ہیں اور یہ کہ طارق ملک سابقہ حکومت کے لگائے ہوئے تھے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کوئی حکومت جب کسی افسر کو کوئی اہم ذمے داری سونپتی ہے تو اس کے پیش نظر اس افسر کی پیشہ وارانہ قابلیت نہیں ہوتی بلکہ اصل معیار یہ ہوتا ہے کہ وہ حکومت کے مقاصد کی تکمیل (خواہ کسی بھی قسم کے ہوں) کی کس قدر صلاحیت رکھتا ہے۔

ایک پچھتاوے کا احساس کہ اگر برسراقتدار آتے ہی اپنا بندہ لے آتے تو وہ ووٹوں کی تصدیق کے عمل سے معذوری ظاہر کر دیتا۔ اب اس بات میں تو رتی برابر شبہ نہیں کہ ہمارے ہاں ان اداروں کو بھی اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کی جاتی ہے جن کی آزادی جمہوری نظام کی بنیاد تصور کی جاتی۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہم اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے بے بنیاد اور بودے دلائل کے ذریعے بے معنی خوف تخلیق کرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ 1971 میں جب بنگلہ دیش (سابقہ مشرقی پاکستان) میں حالات خراب تھے تو وہاں سے مرکزی حکومت کو بتایا گیا کہ فوج کے بنگالی جوان اور افسر بڑے پیمانے پر بغاوت پر آمادہ ہیں۔ اس حقیقت کو ہمارے فیصلہ سازوں نے اس دلیل کے ذریعے چھپانے کی کوشش کی کہ ’’دنیا کو یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ دنیا کی بہترین فوج میں بغاوت ہو گئی ہے‘‘۔ بعد میں جو کچھ ہوا وہ ساری دنیا نے دیکھا۔ آجکل یہ دلیل بھی بڑی مقبول ہے کہ حالیہ انتخابات پر شک کا کوئی سایہ پڑ گیا تو سارا نظام دھڑام سے نیچے آ گرے گا۔

یہ دلیل بھی ایک خود فریبی ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ دھاندلی کا الزام لگانے والوں کی خواہش کے مطابق تصدیق کا عمل مکمل ہو جاتا ہے اور اس سے جیتنے والوں کی کامیابی پر کوئی حرف نہیں آتا تو موجودہ حکومت کی کامیابی کو کس قدر اخلاقی تائید حاصل ہو جائے گی۔ اس کے برعکس اگر کچھ حلقوں میں نتائج مشکوک ہو جاتے ہیں پھر بھی اس کا کریڈٹ حکومت ہی کے حصے میں آئے گا کہ اس نے حق و انصاف کے راستے میں روڑے نہیں اٹکائے۔وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اب پارلیمانی سیاسی قیادت کو ایک خط لکھا ہے جس میں ووٹوں کی تصدیق کے حوالے سے حکومت کے موقف کا اظہار کیا ہے اور اس بات پر آمادگی ظاہر کی ہے کہ حکومت کسی بھی ادارے کے زیرنگرانی تصدیق کے لیے آمادہ ہے بلکہ انھوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ پی ٹی آئی کے جسٹس وجیہہ الدین کی نگرانی میں بھی تصدیق کے عمل سے گزرنے کے لیے آمادہ ہیں۔ یہ بہت مناسب بات ہے حزب اختلاف سے معاملہ کرتے وقت حکومت کو اتنی ہی فراخ دلی دکھانی چاہیے لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں معمول کے امور کی انجام دہی کے معاملات بھی ایسے بڑے تنازعات میں کیوں بدل جاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔