بچپن اے بچپن

عابد محمود عزام  پير 9 دسمبر 2013

بچپن کا زمانہ بڑی نایاب اور انمول شے ہے۔ یہ دور انسان کی وہ قیمتی متاع ہے، جس کے کھوجانے کا غم انسان کو ہمیشہ ستاتا ہے۔ انسان کتنے ہی بلند مقام ومرتبے یا کسی بھی عمر کو پہنچ جائے، لیکن ضرور کبھی کھبار مٹی میں کھیلتے ہوئے ننگ دھڑنگ بچپن کی شرارتوں سے مزین معصوم و سہانی یادیں اس کی آنکھوں سے آنسو بن کر بہہ پڑتی ہیں اور انسان ایسی وادیوں میں گم ہوجاتا ہے ، جن سے واپس لوٹنے کو دل ہی نہیں چاہتا۔ انگریزی کے مشہور شاعر ’’جان ملٹن‘‘ نے تو بچپن کو ’’جنّتِ گمشدہ‘‘ یعنی کھوئی ہوئی جنّت کہا ہے۔

بچپن کی حسین یادیں تا عمر انسان کے دل ودماغ کے نہاں خانوں میں جگمگاتی رہتی ہیں۔ ’’بچپن‘‘ کہنے کو تو صرف چار حروف ہیں، لیکن ان حروف میں خدا جانے کیا کچھ چھپا ہے۔ معصومیت، نادانیاں، اٹھکیلیاں، حماقتیں، بے وجہ ضد اور بے شمار دلچسپ، دلکش اور دلربا یادیں۔ اسکول ہوم ورک نہ کرنے پر امی ابو کی شفقت بھری ڈانٹ ڈپٹ، مار پڑنے پر والدین سے ناراض ہوجانا اور پھر ان کا پیار سے منانا، اپنی مرضی کی کوئی چیز فوری لانے کی ضد کرنا، چیز نہ آنے پر اسکول نہ جانے کی دھمکی دینا،اپنی کوئی نئی چیز آنے پر تفاخرانہ انداز میں سب کو دکھانا، بہن بھائیوں کا آپس میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑ پڑنا اور پھر کچھ ہی دیر میں صلح کرکے اکٹھے کھیلنے لگ جانا،گرمیوں کی چھٹیوں میں ننھیال جانے کے لیے خوشی خوشی تیاری کرنا، نانا ابو کی انگلی پکڑ کر باہر گھومنے جانا، نانی اماں کا دیر دیر تک کہانیاں سنانا ، سارا دن کھیلتے رہنا،گھنٹوں گھنٹوں تتلیاں پکڑنے کی کوشش کرنا، ریت کے گھروندے بناکرخود ہی انھیں ختم کردینا،کاغذکے جہاز بنا کر اڑانا اورکاغذ کی کشتیاں بنا کر بارش کے پانی میں چلانا، بارش کے بعد چھت پر چڑھ کر چڑیوں کو دانا ڈال کر پکڑنے کی کوشش کرنا اور اسی قسم کی بے شمار یادیں انسان کی زندگی کا جزلاینفک ہے، جسے بھلانا انسان کے بس میں نہیں ہے۔ شاعر کہتا ہے ؎

یہ دولت بھی لے لو، یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذکی کشتی، وہ بارش کا پانی

بچپن میں ذرا ذرا سی بات پر دوستوں سے کٹّی کر بیٹھتے، لیکن کچھ ہی دیر بعد کسی بہانے دوبارہ ایک ساتھ کھیلنے لگتے اور پھر انھی دوستوں سے جن کے ساتھ کچھ دیر پہلے لڑائی ہوئی تھی، کھیل میں اس قدر مگن ہوجاتے کہ کھانا پینا اور اپنے گھر جانا بھی بھول جاتے تھے۔ گھر سے ملنے والے جیب خرچ سے اگر کھانے کی کوئی چیز خریدتے تو ہرگز بخل سے کام نہیں لیتے تھے، بلکہ اس چیز میں سے کچھ ہی خود کھاتے اور باقی اپنے دوست کو دے دیتے تھے۔

بچپن میں جیبیں توپیسوں سے خالی ہوتی ہیں، لیکن دل دولت محبت سے لبالب بھرے ہوتے ہیں۔ نہ کسی کو دولت کے انبار لگانے کی حرص ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی اپنے مستقبل کو روشن کرنے کے لیے دوسروں کا مستقبل تاریک کرتا ہے اور اپنے فائدے کی خاطر دوسروں کو نقصان بھی نہیں پہنچاتا۔ بچپن دشمنی، کینہ، بغض، حسد، تکبر، لالچ اور ان تمام برائیوں سے دور ہوتا ہے، جو انسان سے خوشیاں چھین لیتی ہیں۔ بچپن ایسی ہی معصوم یادوں سے عبارت ہے۔ اسی لیے تو بچوں کو فرشتہ کہاجاتا ہے۔ ہرقسم کے دکھلاوے، خودپسندی اور خودنمائی سے بالکل پاک زندگی، نہ جاہ و جلال کا شوق اور نہ شہرت کی طلب۔ نہ دنیا کی تنقیدکی فکر اور نہ اپنی رسوائی کا خوف۔ والدین سے جو مطالبہ کیا، رورو کر پورا کروا لیا، لیکن بڑا ہوکر تو انسان رسوائی کے خوف سے ایک آنسو بھی نہیں بہا سکتا۔ بہ قول شاعر ؎

اب تو اک آنسو بھی رْسوا کر دیتا ہے
بچپن میں جی بھر کے رویا کرتے تھے

ہمارا بچپن دیہات میں گزرا۔ چھپن چھپائی ، اونچ نیچ کا پہاڑ، پٹھو گرم، بارہ ٹینی، چاری کھڈا، بنٹے، بندر کلا اور کرکٹ کھیلتے بچپن خواب کی مانند گزرگیا۔ جب اسکول جانا شروع ہوئے تولکڑی کی تختی، لوہے کی سلیٹ، سیاہی کی دوات، سیاہ اور سفید سلیٹیاں، تختی کو لگانے کے لیے کچی مٹی( گاچی)، سرکنڈوں سے بنے ہوئے کچھ قلم اور کچھ کتابیں، یہ سب کچھ گھر میں سلے ہوئے کپڑے کے ایک بستے کامخزن ہوتا تھا۔ تختی پر سیاہی کے ساتھ قلم سے لکھ کر استاد کو دکھاتے اور پھر تختی کو دھو کر اس کے اوپر گاچی لگاکر دھوپ میں خشک کرتے کرتے کافی وقت گزرجاتا تھا۔

اس وقت شاید دنیا کا سب سے مشکل کام روز صبح سویرے اسکول جانا لگتا تھا اور اسکول سے چھٹی کے دن تو عید کی سی خوشی ہوتی تھی۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں ماسٹر صاحبان لکھنے کے لیے اتنا زیادہ کام دیتے تھے کہ کتاب کو دیکھتے ہی بوریت محسوس ہونے لگتی تھی۔ درختوں کی چھاؤں میں بیٹھ کر اسکول کا کام کرنے کی غرض سے چارپائی لے کر کھیتوں میں جاتے، لیکن وہاں جاکر کتاب کھول کر بھی نہ دیکھتے اور کھیتوں میں اپنے مالٹے کے باغ، آم، جامن اور امرود کے درختوں کی پرسکون چھاؤں میں بیٹھے کھیلتے کھیلتے سارا دن گزار دیتے۔

جب گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہونے کو قریب ہوتیں، یہ سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے کہ اسکول کا کام نہ کرنے پر ماسٹر صاحبان بہت پٹائی کریں گے۔ آخری بیس پچیس چھٹیوں میں دن رات ایک کرکے اپنا کام مکمل کرتے۔ کچھ بڑے ہوئے تو کرکٹ کی ایسی لت پڑی کہ اسکول سے آنے کے بعد جتنا وقت بھی فارغ ملتا، وہ گیند بلے کے ساتھ ہی گزرتا تھا۔ پنجاب میں جون جولائی کے مہینے میں بے تحاشہ گرمی پڑنے کے باوجود صبح سے شام تک کرکٹ کھیلنے میں ہی محو رہتے۔

اندازہ کریں کہ بچپن پرسکون دیہات میں گزارنے والا شخص، پاکستان کے خطرناک ترین شہر کراچی جہاں خوف و ہراس کا بسیرا ہو، میں ڈیرے ڈال کر صحافت سے منسلک ہوجائے اور اسے عالم اسلام اور پاکستان میں بدامنی، بے سکونی، غربت، ناخواندگی،دھوکا دہی، مسلکی و سیاسی قتل و غارتگری، ہر شعبہ میں بے انتہا کرپشن، ملکی سالمیت و خودمختاری کی پامالی اور اسی قسم کی بے شمار دل و روح کو چھید کر چھلنی کردینے والی خبریں پڑھنی پڑیں ،توان حالات میں پرسکون و ہر فکر سے آزاد بچپن کی یادیں کیا قیامت ڈھاتی ہوں گی؟ ہرخبر کو پڑھ کر پریشانی میں اضافہ ہوتا ہے، تو بے اختیار بچپن کا زمانہ یاد آجاتا ہے، کیونکہ بچپن میں نہ کسی خبر کو پڑھتے تھے اور نہ حالات پر کڑھتے تھے۔صرف مجھے ہی نہیں، ہر شخص کو اپنے بچپن کے بیتے ہوئے لمحات کے چھن جانے کا بے انتہا افسوس ہوتا ہے، کاش پھر سے لوٹ آئیں بچپن کے وہ سہانے دن، لیکن خدا تعالیٰ کا ایسا قانون نہیں۔ اگر شمس و قمر کی گردش اور رات دن کا لوٹنا ممکن ہوتا تو رودھو کر خدا تعالیٰ سے اپنا پرسکون بچپن مانگ لیتے، لیکن اب نہ تو شمس و قمر کی گردش بدل سکتی ہے اور نہ ہی ماضی لوٹ سکتا ہے۔ اب تو بس یادیں ہی یادیں ہیں قبر تک۔ جن کو یاد کرکے بے اختیار زبان سے نکلتا ہے ؎

میرے بچپن کے دن، کتنے اچھے تھے دن
آج بیٹھے بٹھائے کیوں یاد آ گئے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔