مودی کا لاک ڈاؤن ڈراؤنا خواب بن گیا

سید عاصم محمود  اتوار 5 جولائی 2020
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

یہ 24 مارچ کی بات ہے، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے شام چار بجے تقریر کرتے ہوئے ریاستی حکومتوں سے صلاح مشورہ کیے بغیر اعلان کردیا کہ چار گھنٹے بعد کورونا وائرس سے بچاؤ کی خاطر لاک ڈاؤن لگایا جارہا ہے۔ مقررہ وقت پر پورے بھارت میں ٹرانسپورٹ تھم گئی، کارخانے بند ہوئے اور ہر قسم کا کاروبار بھی روک دیا گیا۔ غرض مودی سرکار نے زندگی کا پہیہ مکمل طور پر جام کردیا۔ بعد ازاں وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ ایک عاجلانہ، غیر عاقلانہ اور عوام دشمن فیصلہ تھا جس  نے کروڑوں بھارتیوں کا نظام زندگی تہ و بالا کر ڈالا۔

مودی چائے فروش کا بیٹا ہے۔ نوجوانی میں جھاڑو پونچھا بھی لگاتا رہا۔ ایسے غریب لوگ جب خوش قسمتی سے حکمران بن جائیں تو لوگوں کو توقع ہوتی ہے کہ وہ عوام کے دکھ درد اور مسئلے مسائل سمجھیں گے کہ خود انہی سے گزر چکے ہوتے ہیں۔ اس لیے انہیں حل کرنے کی کوشش ہو گی۔ ان کے فیصلے عام آدمی کی خواہشات کے آئینہ دار ہوں گے۔

حکومت عوامی مصائب ختم کرے گی، اضافہ نہیں۔ مگر نجانے کیوں غربت کی آغوش میں پلے بڑھے بہت سے لیڈر حکومتی محلات کے خواب آگیں، پُر آسائش اور رنگین ماحول میں پہنچتے ہی عام آدمی سے کٹ جاتے ہیں۔ رفتہ رفتہ وہ  آمر بن بیٹھتے اور پھر عوام دشمن فیصلے کرتے ہیں مگر انہیں اس سچائی کا ادراک نہیں ہوپاتا۔ وہ ہر معاملے میں خود ہی کو درست اور عقل کُل سمجھتے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم بھی اسی انوکھے اعجوبے کا شکار ہوچکے گو بظاہر وہ عوامی رہنما سمجھے جاتے ہیں۔

نریندر مودی کو احساس تک نہ تھا کہ بے سوچے سمجھے اور عجلت میں لاک ڈاؤن لگانے کا بھیانک نتیجہ نکلے گا۔اول اس نے بھارتی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا جو مودی سرکار کی خراب پالیسیوں کے سبب پہلے ہی بحران کا شکار تھی۔دوسرے لاک ڈاؤن کی وجہ سے کروڑہا بھارتیوں کی روزمرہ زندگی درہم برہم ہو گئی اور وہ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئے۔

عام آدمی کی مشکلات کا اندازہ لگائے بغیر اس پر من مانے فیصلے ٹھونس دینا مودی سرکار کا وتیرہ بن چکا۔مثال کے طور پر مودی نے یک دم بھارت میں پانچ سو اور دو ہزار کے کرنسی نوٹ ختم کردیئے۔ یوں نوٹوں کی شدید قلت پیدا ہوگئی جس نے عوام کو سخت پریشان کیا۔ آٹا خریدنے سے لے کر تنخواہ لینے تک کرنسی نوٹوں کی شدید کمی ایک نئی مصیبت بن کر  ان کے گلے پڑگئی۔ مودی پھر سرکاری محکموں میں رشوت کا چلن بھی روک نہیں پایا۔ آج بھی عام آدمی کو کام کرانے کی خاطر سرکاری افسر کو مال کھلانا پڑتا ہے۔ حالیہ لاک ڈاؤن بھی مودی سرکار کی عوام دشمن پالیسیوں کا منہ بولتا مظہر بن گیا۔

پندرہ کروڑ مہاجر ورکر

بھارت میں افرادی قوت 47 کروڑ مردوزن پر مشتمل ہے۔ ان میں سے 42 کروڑ غیر رسمی (ان فارمل) معیشت سے منسلک ہیں۔ یہ لوگ چھوٹے موٹے کارخانوں میں کام کرتے ہیں یا پھر انہوں نے اپنے معمولی کاروبار شروع کررکھے ہیں۔ انہیں روزانہ اتنی آمدن ہوجاتی ہے کہ خرچے پورے ہوسکیں۔ اکثر مردوزن کو روزانہ کے حساب سے روزگار ملتا ہے،کبھی مل گیا اور کبھی نہیں ملا۔ایسے لوگ عرف عام میں ڈیلی ویجر کہلاتے ہیں۔ غیر رسمی معیشت سے وابستہ ملازمین کو عموماً علاج و انشورنس کی سہولیات نہیں ملتیں اور نہ ہی مستقل روزگار کی ضمانت۔وہ لشٹم پشٹم زندگی گذارتے ہیں۔

ان 42 کروڑ مردوزن میں چودہ  پندرہ کروڑ مہاجر ورکر بھی شامل ہیں۔ یہ وقتاً فوقتاً دیہات اور قصبات سے شہروں میں  پہنچ کر مختلف چھوٹی موٹی ملازمتیں کرتے ہیں۔ دیہات کی نسبت شہروں میں انہیں زیادہ آمدن ہوتی ہے۔ اسی لیے ہر سال لاکھوں بھارتی شہروں کی طرف ہجرت کررہے ہیں۔ مگر انہی کارکنوں کی زندگیاں سب سے تباہ حال گزرتی ہیں۔ یہ عموماً ڈیلی ویجز ہوتے ہیں۔

مل جل کر چھوٹے چھوٹے کمروں میں رہتے ہیں تاکہ رقم بچاسکیں۔انھیں ضروریات زندگی مثلاً پانی،بجلی ،گیس بہ مشکل میسر آتی ہیں۔ اکثر کے گھر والے دیہات میں مقیم ہوتے اور ان کی بھجوائی رقم پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ روکھی سوکھی کھا کر پیسے بچاتے اور اپنے اہل خانہ کو بھجواتے ہیں۔

مودی کے اچانک لاک ڈاؤن نے سب سے پہلے انہی ڈیلی ویجروز کو نشانہ بنایا۔ لاک ڈاؤن ہوتے ہی ذرائع آمدن ختم ہوگئے۔ مودی کا کہنا تھا کہ بندشیں اور پابندیاں جلد ہٹ جائیں گی مگر کورونا وائرس پھیلنے کے باعث لاک ڈاؤن کی مدت بڑھتی چلی گئی۔ڈیلی ویجروں کے پاس خصوصاً جمع پونجی بہت کم ہوتی ہے۔ اسی لیے شہروں میں مقیم لاکھوں ایسے افراد جلد ہی قلاش ہوگئے۔ ان کے پاس دو وقت کی روٹی خریدنے کے لیے بھی پیسے نہیں رہے۔ تبھی وہ پیدل یا سائیکل پر گھر کی طرف سفر کرنے لگے۔ انہیں علم تھا کہ گھر میں تو انہیں سر چھپانے اور پیٹ بھرنے کا آسرا مل جائے گا۔ شہر میں تن تنہا وہ لاک ڈاؤن کے سبب جنم لینے والی مشکلات سے کیونکر مقابلہ کرتے؟

کیڑے مار دوا کا سپرے

مودی حکومت کو چاہیے تھا کہ ان لاکھوں کروڑوں ڈیلی ویجروں کی بھوک مٹانے کے لیے بندوبست کرتی۔ انہیں ماہانہ خرچ دیتی جیسے حکومت پاکستان نے اپنے ڈیلی ویجروز کو دیا۔ یا پھر وسیع پیمانے پر ان کی رہائش و طعام کا انتظام کیا جاتا ۔ مودی سرکار نے ایسا کوئی عوام دوست قدم نہیں اٹھایا بلکہ وہ مسلمانوں کو بدنام و معطون کرنے میں لگی رہی کہ ان کی وجہ سے بھارت میں وبا پھیل رہی ہے۔

گھر کی جانب جاتے اور سفر کی سختیاں برداشت کرتے لاکھوں مرد، عورتوں اور بچوں کو مودی سرکار کوئی مدد تو کیا کرتی، پولیس و افسر شاہی ان کے لیے نیا وبال جان بن گئی۔ انہیں جگہ جگہ روک کر سزائیں دی گئیں کیونکہ وہ آمرانہ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کررہے تھے۔ سزا دینے میں بھی مغرور افسر شاہی نے جدتیں پیدا کر ڈالیں۔ مثلاً رائے بریلی آنے والے ڈیلی ویجروز کے ایک گروپ پر انتظامیہ نے کیڑے مار دوا کا سپرے کر ڈالا حالانکہ وہ کورونا وائرس پر قطعاً کارگر نہیں ہوتی۔

غرض مودی حکومت نے لاک ڈاؤن کے منفی اثرات سے متاثر کروڑہا شہریوں کو بے یارومددگار چھوڑا تو تو وہ خوراک و جائے پناہ کی تلاش میں ہجرت کرنے لگے۔ بھارتی دانشوروں کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے سبب بھارت میں 1947ء کے بعد دوسری بڑی ہجرت ظہور پذیر ہوئی۔ اور اسے انجام دینے میں مودی سرکار کا بڑا کردار رہا۔اس ہجرت کے دوران کم از کم پانچ سو بھارتی بھوک،پیاس،تھکن اور حادثات کے باعث اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

مہاجرین کی سہولت کے لیے آخر بھارتی حکومت نے یکم مئی سے ریلیں چلائیں مگر ان کے کرائے میں کوئی کمی نہیں کی گئی۔ اب قلاش مہاجرین ٹکٹ کا پیسا کہاں سے لاتے؟ جب عوام نے احتجاج کیا تو کرایہ کم کیا گیا۔ مزید براں مہاجرین کے قیام و طعام کی خاطر جو مرکز قائم کیے، وہاں سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ان مراکز میں انسانوں سے جانوروں جیسا ذلت آمیز سلوک کیا گیا۔

 ایلیٹ طبقے کو پالتا نظام

غرض کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے روکنے کے لیے مودی سرکار نے جو لاک ڈاؤن اپنایا، وہ بھارتی حکومت کی خامیاں، بدانتظامی اور کرپشن دنیا والوں پر عیاں کرگیا۔ نریندر مودی بھارت کو سپرپاور بنانا چاہتا ہے۔ مگر لاک ڈاؤن نے افشا کردیا کہ بھارت کا نظام اب بھی نااہل، کرپٹ اور ذاتی مفادات میں گھرے سیاست دانوں، افسر شاہی اور جرنیلوں کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ نظام صرف ایلیٹ طبقے کو پالتا پوستا اور طاقتور بناتا ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود سے بھارتی حکمران طبقے کو کوئی سروکار نہیں۔

اس دوران مودی سرکار نے اپنی نااہلی چھپانے اور عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے پاکستانی سفارت کاروں کو نکال دیا۔ یہ قوم پسندی کے جذبات بھڑکا دینے والا عمل تھا۔ بھارتی انتہا پسندوں کا یہ دیرینہ حربہ بن چکا کہ وہ اسلام اور پاکستان کے خلاف ہندو عوام کے جذبات مشتعل کرکے اپنے مفادات حاصل کرلیتے ہیں۔ یوں وہ حقیقی مسائل سے عوام کی توجہ بھی ہٹانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ بھارت کی اکثریتی عوام کو نجانے اپنے قوم پرست اور انتہا پسند لیڈروں کی یہ چال بازی کب سمجھ میں آئے گی۔

مظلوم آدی واسی
بھارتی حکمران طبقے کا بڑا حصہ برہمنوں اور کھشتریوں پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ نچلے طبقوں سے تعلق رکھنے والے ہندوئوں کے مسائل حل کرنے میں کم ہی توجہ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، آزادی کے سات عشرے بیت چکے، بھارت میں کم از کم پچاس کروڑ شہری غربت، جہالت اور بیماری کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ شہریوں میں سب سے زیادہ آدی واسیوں کی حالت قابل رحم ہے۔بھارت کی سطی ریاستوں میں مقیم قبائل ’’آدی واسی‘‘ کہلاتے ہیں۔ ان کی تعداد دس کروڑ ہے۔

یہ قبائل جنگلوں یا کھیتوں میں کام کرکے گزار اوقات کرتے ہیں۔ کوئی شکاری ہے تو کوئی کسان۔ یہ سرزمین بھارت کے اصل وارث ہیں کہ آریائوں کی اولاد، برہمنوں اور کھشتریوں سے پہلے ہندوستان میں مقیم ہیں۔ مگر دور جدید کا بھارتی حکمران طبقہ انہیں ظلم و ستم کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔دراصل جب وفاقی یا ریاستی حکومت کو فیکٹری لگانی یا کان کھولنی ہو تو آدی واسیوں کو زبردستی ان کی زمینوں سے بے دخل کردیا جاتا ہے۔ ان مجبوروں کی بدقسمتی ہے کہ ان کی زمینوں میں تہہ ِزمین قیمتی معدنیات پائی جاتی ہیں۔

یہ معدنیات نکالنے کے لیے پچھلے ستر برس میں بھارتی حکومت کروڑوں آدی واسیوں کو ان کی آبائی زمینوں سے بے دخل کرچکی۔ یہ جدید ترقی کا ایک منفی روپ ہے۔زمین چھین لینے کے بعد حکومت انہیں معمولی معاوضہ دیتی اور ہجرت کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔ چناں چہ بھارت میں مہاجر آدی واسیوں کی کثرت ہوچکی اور وہ تقریباً سبھی شہروں میں پائے جاتے ہیں۔ وہاں وہ معمولی کام کرکے کماتے اور جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھتے ہیں۔ بہت سے نوجوان آدی واسی بھارتی حکمران طبقے کے ظلم کا شکار ہوکر انتقاماً جنگجو بن چکے۔ انہیں ’’مائو باغی‘‘ کہا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ آج مودی سرکار مسلمانوں کی طرح آدی واسیوں اور دلتوں کی بھی نسل کشی کرنے میں محو ہے۔ لیکن مغربی میڈیا کو مودی حکومت کا یہ بے پناہ ظلم دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اس کی آنکھوں پر مفادات کی پٹی بندھی ہے۔ وہ صرف مسلمانوں کو دہشت گرد کے روپ میں پیش کرنا اپنا فرض اولیں سمجھتا ہے۔آدی واسیوں پر ظلم و ستم ڈھانے کی ایک مثال ریاست جھاڑکھنڈ ہے۔

اس ریاست کی 40 فیصد آبادی آدی واسی ہے۔ مگر جھاڑ کھنڈ ہی میں بھارت کی 40 فیصد معدنیات پائی جاتی ہیں۔ پچھلے پچاس برس سے بھارتی کمپنیاں کھربوں روپے مالیت کی معدنیات ریاست سے نکال چکیں مگر اس بھاری رقم میں سے معمولی سرمایہ بھی آدی واسیوں کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ نہیں ہوا۔ الٹا لاکھوں آدی واسیوں کو انہی کی زمینوں سے نکال دیا گیا تاکہ وہاں کانیں بن سکیں۔ گویا معدنیات مقامی باشندوں کے لیے ترقی و خوشحالی کا پیغام نہیں لعنت بن گئیں۔ اس لعنت کی وجہ سے انہیں دربدر بھٹکنا پڑگیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔