پیرالٰہی بخش ۔۔۔۔ سندھ کے بابائے تعلیم

پروفیسر شاداب احمد صدیقی  اتوار 5 جولائی 2020
پیر الٰہی بخش 9 جولائی1897ء کو ضلع دادو کی تحصیل بھان سعید آباد میں واقع پیر جو گوٹھ میں پیدا ہوئے ۔  فوٹو : فائل

پیر الٰہی بخش 9 جولائی1897ء کو ضلع دادو کی تحصیل بھان سعید آباد میں واقع پیر جو گوٹھ میں پیدا ہوئے ۔ فوٹو : فائل

 حیدرآباد: تحریک پاکستان میں سندھ کے مسلم دانشوروں اور راہنماؤں کا بہت اہم کردار تھا، جنہوں نے دن رات انتھک محنت کرکے پاکستان کے قیام کے لیے مسلسل جدوجہد کی۔ پاکستان کی تاریخ میں آج بھی ان راہنماؤں کا مقام بلند ہے۔ انہی اہم شخصیات میں ایک تاریخ ساز شخصیت پیر الٰہی بخش کی ہے۔

پیر الٰہی بخش 9 جولائی1897ء کو ضلع دادو کی تحصیل بھان سعید آباد میں واقع پیر جو گوٹھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا کا نام پیر غلام حسین تھا۔ وہ ایک روحانی اور دینی شخصیت تھے۔ ان کے خاندان کے مرید کاٹھیا واڑ ریاست میں زیادہ تھے۔ پیر الٰہی بخش کے والد پیر نواز علی اس دنیا سے رخصت ہوگئے، جس کے بعد انہوں نے اپنے ماموں پیر لعل محمد کے زیرسایہ ترتیب حاصل کی۔

پیر الٰہی بخش نے ابتدائی تعلیم بھان سعید آباد میں حاصل کی جس کے بعد وہ خیرپور میرس چلے گئے۔ 1919ء میں ناز ہائی اسکول خیرپور سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ علی گڑھ یونیورسٹی چلے گئے۔ وہ اپنے خاندان کے پہلے ممبر تھے جنہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ پیر الٰہی بخش مولانا محمد علی جوہر کی زیر قیادت چلنے والی خلافت تحریک سے بہت متاثر ہوئے۔

مولانا محمد علی جوہر کے حکم کی بنا پر جن طلبہ نے 1920ء میں علی گڑھ کالج کو چھوڑا، ان میں سے ایک وہ بھی تھے۔ انہوں نے علی گڑھ کالج کو چھوڑ کر دہلی میں واقع مولانا محمد علی جوہر کی زیرسرپرستی چلنے والی جامعہ ملیہ دہلی میں داخلہ لیا۔ اس درس گاہ کا سنگ بنیاد حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے رکھا تھا، جس کے چانسلر حکیم اجمل خان مرحوم تھے۔

یہاں سے بی اے کی سند حاصل کی اور اپنی مزید تعلیم چھوڑ کر اپنے وطن لاڑکانہ سندھ واپس آگئے اور یہاں تحریک خلافت کی قیادت سنبھال لی۔ جب سندھ میں خلافت تحریک شروع ہوئی تو پیر الٰہی بخش8 سے 10جولائی1921ء کو صوبہ سندھ خلافت کانفرنس کراچی میں شریک ہوئے جس کی صدارت مولانا محمد علی جوہر نے کی تھی۔ اس کانفرنس کے نتیجے میں کراچی کے مشہور مقدمہ بغاوت میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، پیر غلام مجدد سرہندی کو دو دو سال کی سزا دی گئی تھی۔ پیر الٰہی بخش آل انڈیا کانگریس کمیٹی اور آل انڈیا خلافت کمیٹی کے بھی کچھ عرصہ ممبر رہے۔ تحریک خلافت زیادہ عرصہ زور نہ پکڑ سکی اور بالآخر برطانوی حکومت نے اسے دبادیا۔

حالات و واقعات نے پیر الٰہی بخش کو سیاست داں بنادیا تھا۔ تحریک خلافت کے ختم ہونے کے بعد حالات بدلنے لگے اور اس وقت کے ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ لاڑکانہ کے صدر مرحوم سرشاہنواز بھٹو نے پیر الٰہی بخش کو مشورہ دیا کہ واپس علی گڑھ جائیں اور اپنی منقطع تعلیم کی تکمیل کریں۔

سرشاہنواز بھٹو نے اس مقصد کے لیے ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ کی جانب سے انہیں وظیفہ عطا کیا اور اس طرح پیر الٰہی بخش ایک مرتبہ پھر تعلیم حاصل کرنے کے لیے علی گڑھ یونیورسٹی چلے گئے جہاں سے انہوں نے 1929ء میں ایم اے کیا، پھر ایل ایل بی کی ڈگری لی اور واپس آکر لاڑکانہ میں وکالت شروع کردی اور سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا۔ پاکستان کے قیام میں 23 مارچ 1940ء کی قرارداد پاکستان کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ یہ قرارداد آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل اجلاس منعقدہ لاہور میں شیربنگال مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی۔

اس قرارداد میں کہا گیا کہ برصغیر میں موجود مسلم اکثریتی علاقوں پر مبنی ریاستوں اور صوبوں کی پاکستان میں شمولیت کی جائے۔ اگر 1937ء تک سندھ کو ایک علیحدہ صوبے کی حیثیت حاصل نہ ہوئی اور وہ ہمیں ریزیڈنسی سے الگ کرکے ایک خود مختار اور علیحدہ صوبے کی حیثیت حاصل نہ کرتا تو قرارداد پاکستان میں اسے ایک مسلم اکثریتی صوبے کا درجہ نہ دیا جاسکتا۔ اس عظیم کارنامے کے پیچھے پیر الٰہی بخش مرحوم کی کاوشیں کار فرما تھیں۔ پیر الٰہی بخش اپنے زمانہ طالب علمی سے ہی اس بات سے پریشان تھے کہ لاڑکانہ کے طلباء کو میٹرک کے امتحان دینے کے لیے بمبئی جانا پڑتا تھا۔ دوسری بات یہ کہ وہ سوچتے تھے کہ کچھ ایسا کریں جس سے سندھ کو برصغیر کے جغرافیے میں اپنا صحیح، آزاد اور علیحدہ مقام حاصل ہوسکے۔

سندھ کے بمبئی سے علیحدہ ہونے کے بعد 1937ء میں سندھ اسمبلی کے لیے جو انتخاب ہوا، اس میں پیر الٰہی بخش دادو کے خان بہادر یار محمد خان جونیجو اور یاٹ کے ایک بااثر وکیل کو شکست دے کر سندھ اسمبلی کی ممبری کے لیے منتخب ہوئے۔ اس وقت پیر الٰہی بخش سندھ اتحاد پارٹی کے ممبر تھے۔ سر غلام حسین ہدایت اﷲ کی وزارت بننے کے بعد اتحاد پارٹی کے ممبر جن کی تعداد شروع میں 24 تھی، آہستہ آہستہ پارٹی چھوڑنے لگے۔ یہاں تک کہ ان کی تعداد 8یا 9 رہ گئی۔

اتحاد پارٹی کے لیڈر خان بہادر اﷲ بخش مرحوم تھے اور انہوں نے ہی یہ جماعت بنائی تھی لیکن پیر الٰہی بخش اتحاد پارٹی کے اس حال میں بھی وفادار رہے۔ سندھ کی پہلی کابینہ صرف تین افراد یعنی سرغلام حسین ہدایت اﷲ بطور وزیراعلیٰ جبکہ میر بندے علی خان تالپور اور مکھی گوبند داس پریتم داس بطور وزراء پر مشتمل تھی۔ اس وزارت کا خاتمہ 22 مارچ 1938ء کو ہوا۔ 23 مارچ 1938ء کو خان بہادر اﷲ بخش سومرو بطور وزیراعلیٰ، پیر الٰہی بخش بطور وزیر ریوینیو اور نیچلداس وزیرانی وزیر پی ڈبلیو ڈی اور پبلک ہیلتھ شامل تھے۔

18مارچ 1940ء کو اﷲ بخش سومرو کی حکومت بھی مستعفی ہوگئی جس کے بعد میر بندے علی خان تالپور سندھ کے نئے وزیراعلیٰ کے طور پر سامنے آئے تو پیر الٰہی بخش وزارت سے علیحدہ ہوگئے۔ صرف ایک سال بعد 6 مارچ 1941ء کو ایک بار پھر کابینہ میں تبدیلی آئی جس کا سبب 3 وزراء کا استعفیٰ تھا۔ نئی کابینہ جو دوسری مرتبہ 1941ء میں خان بہادراﷲ بخش سومرو کی سربراہی میں سندھ کے اقتدار پر فائز ہوئی اس میں پیر الٰہی بخش بھی شامل تھے اور اس مرتبہ انہیں بیک وقت تعلیم، صنعت، محنت، آبکاری و جنگلات اور دیہی ترقیات کے اہم قلمدان سونپے گئے۔

پیر الٰہی بخش آخر تک محکموں کے وزیر کے طور پر برقرار رہے۔ تعلیم کے شعبے میں آپ کو خصوصی دل چسپی تھی۔ آپ نے پورے سندھ میں پرائمری تعلیم کا حصول لازمی قرار دینے کی غرض سے941ء میں پرائمری ایجوکیشن بل ان کی سربراہی میں پیش ہوا جسے اسمبلی نے منظور کرلیا۔ 1943ء میں گورنر نے اﷲبخش کی وزارت اعلیٰ کو ختم کردیا اور غلام حسین ہدایت اﷲ کو وزارت بنانے کی دعوت دی ۔ پیر الٰہی بخش مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ 1937ء میں سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کے باوجود میٹرک سندھی طلباء کو امتحان دینے کے لیے بمبئی جانا پڑتا تھا۔

یہ وہ موقع تھا کہ انہوں نے سندھ اسمبلی کے 22 ویں اجلاس منعقدہ 12مارچ 1945ء میں یونیورسٹی بل 1945ء پیش کیا جسے پیر الٰہی بخش نے صرف 2 ووٹوں کی سادہ اکثریت سے منظور کروانے میں کام یاب ہوگئے اور اس طرح سندھ کی پہلی یونیورسٹی یعنی سندھ یونیورسٹی کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔ پیر الٰہی بخش نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر ابوبکر احمد حلیم کو سندھ یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر کا عہدہ قبول کرنے پر آمادہ کیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے پیر الٰہی بخش کی اس کاوش کو بھرپور انداز میں سراہا۔

1946ء میں پیر الٰہی بخش مسلم لیگ کے ٹکٹ پر ممبر منتخب ہوئے۔ اسی سال ستمبر کے مہینے میں گورنر نے اسمبلی ختم کردی اور دسمبر میں نئے چناؤ ہوئے۔ 14اگست 1947ء کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ سرغلام حسین ہدایت اﷲ سندھ کے گورنر مقرر ہوئے۔ صوبہ سندھ کے وزیراعلیٰ کھوڑو صاحب منتخب ہوئے۔ 1948ء میں کھوڑو صاحب کا کراچی کے سوال پر مرکزی حکومت سے اختلاف پیدا ہوا۔ انہوں نے کراچی کو مرکزی حکومت کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ مرکزی حکومت نے انہیں ڈس مس کردیا۔ پیر الٰہی بخش کو کھوڑو صاحب کی جگہ صوبہ سندھ کا وزیراعلیٰ بنایاگیا۔

1950ء میں جی ایم سید کی دائر کردہ اپیل کے فیصلے میں پیر الٰہی بخش کو ڈس کوالیفائڈ کرنے کی سفارش کی گئی۔ اس وقت پیر الٰہی بخش وزارت اعلیٰ اور اسمبلی سے علیحدہ ہوگئے۔ پیر الٰہی بخش 3مئی 1948ء سے 4 فروری1949ء تک صوبہ سندھ کے وزیراعلیٰ رہے تھے۔ ان کا تعلق سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ سے تھا۔ قیام پاکستان کے بعد پیر الٰہی بخش سندھ کے دوسرے وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ان کی تقرری کی سب سے اہم اور خاص بات یہ تھی کہ ان کی بطور وزیراعلیٰ تقرری براہ راست قائداعظم کی جانب سے نامزدگی پر عمل میں آئی تھی۔ آپ قائداعظم محمد علی جناح کے اعتماد پر پورے اترے۔

پیر الٰہی بخش تحریک پاکستان کے مجاہد، قائداعظم کے رفیق کار تھے۔ قائد اعظم نے جب گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالا اور حلف برداری کی تقریب ہوئی تو تلاوت قرآن پاک کی سعادت پیر الٰہی بخش کو حاصل ہوئی۔ وہ نہ صرف بابائے تعلیم تھے بلکہ 1947ء میں مہاجروں کی آبادکاری کے سلسلے میں ہراول دستے میں شامل تھے۔

انہوں نے اس سلسلے میں پیر الٰہی بخش ہاؤسنگ سوسائٹی 1948ء میں رجسٹرڈ کروائی۔ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے بعد مسلمان مہاجرین پاکستان کے اس وقت دارلحکومت کراچی میں منتقل ہوگئے۔ پیر الٰہی بخش کالونی اس وقت تعمیر کی گئی تھی جب مہاجروں کو کالونی کے لیے اراضی کا عطیہ ایک بڑے ماہر زراعت نے دیا تھا۔ اس کے بعد ایک نجی ٹھیکے دار مسٹر حسن کو مکانات بنانے کا ہدف دیا گیا۔ حسن نے 1800 روپے کی لاگت سے 150مربع گز کے مکانات بنائے۔ مہاجر برادری سے تعلق رکھنے والے بہت سے مشہور افراد اس کالونی میں رہتے تھے جو بعد میں دوسرے علاقوں میں چلے گئے۔

اس علاقے میں سب سے مشہور مساجد میں ہاشمی مسجد، جامع مسجد، فیضان عطار، احمد رضا، کھتری مسجد، مکی اور مدنی مسجدیں ہیں۔ دہلی کالونی، پیر آباد اور بعض دیگر آبادیاں ان کی مرہون منت ہیں۔ پیر الٰہی بخش کی کوششوں سے سندھ میں مختلف تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں آیا، جن میں سندھ یونیورسٹی اور ایس ایم کالج سرفہرست ہیں۔ وہ سالوں تک سندھ مدرستہ بورڈ کے صدر کی حیثیت سے رہے۔ پیر صاحب کا اردو کالج کے قیام میں بھی اہم کردار تھا۔ پیر صاحب نے مولوی عبدالحق کو ایک عمارت مہیا کی تھی، جہاں انجمن ترقی اردو کی بنیاد رکھی گئی تھی اور بعد میں وہاں اردو کالج کھولا گیا۔ کراچی یونیورسٹی میں دیگر تعلیمی اداروں کا سنگ بنیاد رکھا۔

پیر الٰہی بخش ٹاور (علمی ٹاور) اسٹیٹ بینک آف پاکستان سکھر کے قریب ایک پہاڑی پر واقع ہے۔ یہ 10فٹ اونچائی اور 66 فٹ چوڑا ہے۔ اس ٹاور کا سنگ بنیاد مئی 1939ء میں اس وقت کے وزیرتعلیم سندھ پیر الٰہی بخش کے ہاتھوں رکھا گیا اور 1940ء میں تعمیر مکمل ہوئی۔

جب پیپلزپارٹی کا قیام عمل میں آیا تو پیر الٰہی بخش اس میں شامل ہوگئے۔ پیر الٰہی بخش نہایت کریم النفس، خوش اخلاق اور صوم و صلوٰۃ کے بے حد پابند تھے۔ پیر الٰہی بخش کی وصیت تھی کہ میرے انتقال کے بعد میری تدفین پیر الٰہی بخش کالونی جامع مسجد کے صدر دروازے کے ساتھ کی جائے۔ پیر صاحب جب تک زندہ رہے ان کے گھر کے دروازے کبھی بند نہ ہوئے۔ ہمیشہ بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دیتے، اکثر خود بھی بچوں کو پڑھاتے تھے۔ بے شمار بچے ان کے خرچ پر تعلیم حاصل کرتے تھے۔

انہیں تعلیم سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔ آپ نے مفت تعلیم بالغاں کا اہتمام کیا۔ پیر صاحب درویش صفت انسان تھے۔ پیر الٰہی بخش8اکتوبر 1975ء کو 5 بیٹے اور 2بیٹیوں کو سوگوار چھوڑ کر دنیا سے چلے گئے۔ بیٹوں کے نام پیر محمد نواز، پیر شاہنواز، پیر عبدالمجید، پیر عبدالحمید اور پیر عبدالرشید ہیں۔ ان کے پوتے ایڈووکیٹ پیر مظہر الحق نے سیاست میں کام یابی حاصل کی اور وہ سندھ کی صوبائی اسمبلی کے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر رکن صوبائی اسمبلی سندھ اور وزیر بھی رہے۔

پیر مظہر الحق پاکستان پیپلزپارٹی کے انتہائی وفادار ممبروں میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں۔ پیر مظہر الحق نے جنرل ضیاء کے دور میں اس وقت پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی جب دوسرے پارٹی چھوڑ کر جارہے تھے یا پھر متبادل کی تلاش میں تھے۔ پیر مظہر الحق کی بیٹی ماروی مظہر بھی رکن سندھ اسمبلی ہیں۔ وہ سندھ کے ضلع دادو سے صوبائی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ پیر الٰہی بخش جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ آپ کی سیاسی اور سماجی خدمات بے مثال ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔