افغانستان: دو صدیوں سے عالمی طاقتوں کی کھینچا تانی کا مرکز

عرفان احمد بیگ  اتوار 5 جولائی 2020
مسلسل بیرونی حملوں کے شکار افغانستان کو آج تک کوئی فتح نہیں کرسکا، اقوام متحدہ کی ڈائمنڈ جوبلی کی مناسبت سے خصوصی سلسلہ ۔  فوٹو : فائل

مسلسل بیرونی حملوں کے شکار افغانستان کو آج تک کوئی فتح نہیں کرسکا، اقوام متحدہ کی ڈائمنڈ جوبلی کی مناسبت سے خصوصی سلسلہ ۔ فوٹو : فائل

( قسط نمبر21)

تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو افغانستا ن پر 1801 سے بڑی قوتوں کی نظریں ہیں، جب کہ جارحیت کا آغاز 1839 سے ہوا۔ یہاں کے عوام نے ہر دور میں جارحیت کا مقابلہ اتنی مستقل مزاجی ،جواں مردی اور بہادری سے کیا کہ جارحیت کرنے والوں کو آخر یہاں سے جانا پڑا اور اب بھی بد قسمتی سے جب جون 2020 میں یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو اس وقت افغانستان کی سر زمین پر امریکی اور نیٹو افواج مو جود ہیں۔ طالبان سے امن مذاکرات جاری ہیں اور ان مذاکرات میں امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد ثالث کا ر کا کردار اداکر رہے ہیں۔

افغانستان کا موجود بحران 1979 سے جاری ہے اور یوں 41 سال سے افغانیوں کو مسلسل کسی نہ کسی غیر ملکی مداخلت ، عالمی سازش اور مقامی تضادات کی وجہ سے جنگوں اور خانہ جنگیوں کا سامنا رہا ہے اور اس دوران لاکھوں افغانی جاں بحق زخمی اور معذور ہوئے اور لاکھوں اپنا ملک چھوڑ کر پا کستا ن ا یرا ن اور ہزاروں مغربی ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔

تاریخی اعتبار سے افغانستان قبل ازمسیح سے ایک ایسا علاقہ رہا ہے جو ایران ، سنٹرل ایشیا اور برصغیر تک جنگوں فتوحات اور سلطنتوںکے بننے اور ختم ہونے میں اہم کردار ادا کرتا رہا۔ یہاں اسلام 642 میں عربوں کے ساتھ آیا۔ 971 سے1202 تک پہلے محمود غزنوی اور پھر محمد غوری ایسے بادشاہ تھے جنہوں نے برصغیر تک فتوحات کیں۔ 1219 میں چنگزخان کے حملے پھرخلجی دور 1370 تیموری حملے اور 1526 میں با بر کا دور جس نے کابل کو مرکز بنا کر ہندوستان کو فتح کیا اور مغلیہ حکو مت قائم کی۔ یہ وہ دور ہے جب یورپ نہ صرف بیدار ہو چکا تھا بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ترقی کررہا تھا اور کولمبس امریکہ اور واسکوڈی گاما ہند وستان کا نیا بحری راستہ دریا فت کر چکے تھے۔ نو آبادیا تی نظام اپنی ابتدائی شکل میں ظاہر ہونے لگا تھا۔

مغلیہ سلطنت کا آخری طا قتور بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر 1707 میں انتقال کر گیا۔ یہاں افغانستان کے علاقے میں مقامی طور پر میر وائس ہو تک نے1709 میںاقتدار حاصل کیا ہوتک بادشاہت 1737 میں حسین ہو تاک کی وفات تک رہی نادر شاہ افشا ر کی حکومت ایران ، سنٹرل ایشیا میں وسیع علاقے پر قائم تھی اُس نے قندھار پر قبضہ کیا تو دشمن بھاگ کر کابل چلے گئے ،کابل اُس وقت تک مغلیہ سلطنت کا حصہ تھا اس لیے نادر شاہ نے دہلی پیغام بھجوایا کہ کابل میں پناہ لینے والوں کو واپس کیا جائے جب مقررہ وقت میں جواب نہیں آیا تو نادر شاہ نے کابل پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا اور پھر ہندوستان میں محمد شاہ رنگیلے شاہ کو بھی شکست دی اور یوں پورا افغانستان مغلیہ سلطنت سے آزاد ہو گیا۔

1747 میں نادر شاہ افشار کے قتل کے بعد پشتون احمد شاہ درانی نے افغانستان میں حکومت قائم کر لی جو آج کے افغانستان کے مقابلے میں رقبے کے لحاظ سے بہت وسیع تھی احمد شاہ بابا نے ہند ستان پر حملہ کر کے مر ہٹا قوت کو ختم کیا لیکن اُس وقت تک بنگا ل میں انگریز لارڈ کلائیو 1757 میں نواب سراج الدولہ کو شکست دے کر ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت قائم کر چکا تھا۔ احمد شاہ درانی نے 1747 سے 1772 تک افغانستان میں 24 سال247 دن حکومت کی اس کے بعد تیمور شاہ درانی بادشاہ ہو ئے جن کی حکومت 1772 سے 1793 تک20 سا ل348 دن رہی مگر اس کے بعد درانیوں میں اقتدار کے لیے رسہ کشی شروع ہو گئی۔

فروری 1806 میں ترکی کی خلافت عثمانیہ کے خلیفہ سلیم سوئم نے نیپولین کو شنہشاہ فرانس تسلیم کر تے ہوئے فرانس سے اتحاد کر لیا ،دوسری جانب نیپو لین نے ایران کے بادشاہ فتح علی شاہ قاجار سے بھی اتحاد کر لیا جو 1807 میں غیر متوقع طور پر فرانس اور روس کے اتحاد کی وجہ سے ٹوٹ گیا یوں عالمی قوتوں کی یہ گریٹ گیم جو 1801 سے شروع ہو ئی تھی نیپو لین کی دفاعی پالیسوں کے مقابلے میں غیر متوازن خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے فرانس کے حق میں نہیں رہی۔ کیونکہ 1812 میں جب نیپولین نے روس پر حملہ کیااور روس کے سرد اور وسیع علاقے میں بہت اندر تک گھس آیا تو روسی فوجوں نے موسم سر ما تک اپنے شہر وں کا دفاع کیا اور پھر منصوبے کے مطابق شہروں کو خود نذ ر آتش کر کے پسپا ہو گئے اور نیپولین کے لاکھوں فوجی خوراک کی کمی اور شدید سردی وجہ سے ہلاک ہو گئے اس کے بعد 1815 میں واٹرلو میں نیپولین کو حتمی شکست ہو گئی۔

لیکن اس دوارن سنٹرل ایشیا ایران اور افغانستان میں پہلے فرانس ، روس اور بر طانیہ کے درمیان اسٹر ٹیجی کے اعتبار سے کشمکش رہی پھر نیپو لین کے بعد فرانس کا کردار کم ہو گیا اور روس اور بر طانیہ کے درمیان رسہ کشی بڑھ گئی اس کی بڑ ی وجہ یہ تھی کہ بر طانیہ کی اہم نو آبادی برصغیر تھی جسے انگریز سونے کی چڑیا کہتا تھا وہ ہر قیمت پر اس کو روس سے بچانا چاہتا تھا۔ شاہ شجاع درانی کے بعد دوبارہ تیمور شاہ کا بیٹا محمود شاہ درانی بادشاہ ہوا اور اس کا اقتدار 1809 سے 1818 تک رہا۔ اس دوران بر طانیہ نے 1801 ۔1809 اور 1812 میں ایران سے وسطی ایشیا کی جانب سے کسی حملے کے دفاع کے لیے تین معاہدے کئے۔ یہاں افغانستان میںمحمود شاہ درانی کے بعد علی شاہ درانی 1819 تک ایک سال باد شاہ رہے جب کہ درانیوں کے آخری بادشاہ ایوب درانی کا دورہ حکومت 1819 سے 1823 تک رہا۔

1823 سے دوست محمد بارکزئی امیر ِ کابل ہو ئے۔ یہاں روس کو وسط ایشیاء ،افغانستان اور ایران کے راستے بر طانیہ کی جانب سے اپنے دفاع کے لیے تشویش تھی تو مقابل میں برطانیہ کو اسی روٹ سے ہند وستان کو روس کے ہاتھوں سے بچانا تھا۔ افغانستان سے ماضی میں ہندوستان پر ترکوں مغلوں اور افغانیوں کے حملے ہو تے رہے تھے اور پھر روس کے لیے بلو چستان کا ساحل بھی کشش رکھتا تھا اور 1801 تک روسی بادشاہ پال اوّل کی یہ کوشش رہی تھی کہ فرانس کی مدد سے وہ کم سے کم بلو چستان کے ساحل تک پہنچ جائے کیونکہ سنٹر ل ایشیا کی ریا ستیں اور افغانستان ایسے وسیع علاقے ہیں جو چاروںجانب سے خشکی سے گھرے ہو ئے ہیں اور بیرونی تجارت کے لیے دوسرے ملکوں کی بندر گاہوں پر انحصا ر کرتے ہیں۔ اب روس اور بر طانیوی ہند وستان کے درمیان وسط ایشیائی ریا ستیں اور افغانستا ن حائل تھا۔

بر طانوی ہند کے وائسرائے اور فوجی قیادت نے یہ دیکھ لیا تھا کہ ماضی میں ہندوستان کے حکمران غالباً اس لیے عمو ماً شکست کھا تے رہے کہ وہ افغانستان کے سرحدی علاقے کے بجائے پنجاب میں پانی پت میں دفاعی جنگ لڑتے تھے۔

بر طانیہ اور روس کی یہ کو شش تھی کہ وہ ایران اور افغانستا ن میںاپنے حمایتی بادشاہ کو بر سرا قتدار لا ئیں اور اِس کے ذریعے اپنی دفاعی پو زیشن کو مضبو ط کر یں۔ جہاں تک تعلق سنٹرل ایشیا کی ریا ستوں کا تھا تو روس نے یہاں اپنا تسلط قائم کر نا شروع کر دیا تھا جو وقت کے ساتھ مزید مستحکم ہو تا رہا۔ امیر کابل دوست محمد جو 1823 سے افغانستان کے حکمران تھے ان کے ساتھ روس بہتر تعلقا ت استوار کر رہا تھا۔ 1838 میں بر طانو ی ہند کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کی جانب سے ایک وفد کابل کے امیر دوست محمد کے پا س گیا اور روس کے خلاف افغانستان سے کاروائی کرنے میں افغانستان کی مدد چاہی۔

واضح رہے کہ پنجاب کے راجہ رنجیت سنگھ نے تھوڑے عرصہ قبل ہی افغا نستان سے جنگ میں پشاور سمیت افغانستان کے کا فی علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس موقع پر دوست محمد نے پہلے انگریزوں سے رنجیت سنگھ کے خلاف مدد چاہی۔ انگریز وں کو رنجیت سنگھ کے فرانسیسی توپ خانہ اور فوجی قوت کا ندازہ تھا اس لیے انہوں نے دوست محمد کی یہ بات نہیں مانی اور ساتھ ہی افغانستان سے جنگ کی منصوبہ بندی میں مصرف ہو گئے۔ اب رنجیت سنگھ سے فوجی مدد کے لیے انگر یزوں کا اعلیٰ وفد لاہور آیا جہاں رنجیت سنگھ نے اُن کا نہایت شاندار استقبال کیا۔ انگریز یہ چاہتے تھے کہ اُن کی اکیس ہزار فوج رنجیت سنگھ کی ریاست سے گذر کر افغا نستان پر حملہ آور ہو کیونکہ پشاور سے کابل کا فاصلہ 140 کلو میٹر ہے اور یہ راستہ زیادہ محفوظ تھا۔

لیکن رنجیت سنگھ بہت ذہین حکمران تھا اُس نے انگریزی فوج کو اپنے علاقے سے گذرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ یہ پیش کش کی کہ سکھ ریاست سے ایک بڑی سکھ فوج کابل پر حملہ کرئے گی اور علامتی اتحاد کے لیے ایک مختصر انگریزی فوج کا دستہ اس میں شامل ہوگا جب کہ اکیس ہزار انگریزی فوج دوسرے راستے یعنی سندھ سے بلو چستان ہو تی ہوئی قندھار پر حملہ آور ہو اور یوں سکھ اور انگریزی فوجیں دوا طرا ف سے کابل پر حملہ کریں۔

1838 میں ہند وستان کے وائسرائے لارڈ آکلینڈ نے شملہ میں افغانستان پر حملے کی اجازت دے دی جس کی توجیح کے لیے چار نکا ت بیان کئے گئے۔ نمبر1 ۔ بر طانیہ ہند وستان کی بہبود کا تحفظ چاہتا ہے۔ نمبر 2 ۔برطانیہ کے لیے ضروری ہے کہ برٹش انڈیاکی شمال مشرقی سرحد پر قابلِ بھر وسہ اور قابلِ اعتماد دوست ہوں۔ نمبر3 ۔بر طانوی فوج افغان شاہ شجاع کی مختصر فوج کی مدد کر ئے۔ نمبر4 بر طانوی افواج کابل میں شاہ شجاع کے اقتدار حاصل کرنے اور شاہ شجاع درانی کی حکومت کے مستحکم ہو نے کے بعد ہند وستان واپس ہو جا ئے گی۔

یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ پہلی بار بلو چستان کے راستے افغانستا ن پر حملہ کیا جا رہا تھا۔ بلو چستان میںخان آف قلات میر نصیر خا ن نوری احمد زئی جو 1749 تا 1794 تک بر سراقتدار رہے ایک ایسے حکمران تھے جنہوں نے اپنے قبائلی لشکر کے ہمراہ احمد شاہ درانی کی فوج کے ساتھ مل کر ہندوستان پر حملہ کیا اور واپسی پر وہ بلوچستان میں مکمل آزاد اور خود مختار حکمران تھے۔ اِن کے بعد 1794 سے1817 تک اُن کے بیٹے محمد خان احمد زئی بلو چستان کے حکمران رہے اور پھر محمد خان کے بیٹے میر محراب خان ا حمد زئی 1817 سے13 نومبر1839 تک بلو چستان کے حکمران رہے۔

پہلی اینگلو افغان جنگ کے لیے بر طا نوی ہند سے اکیس ہزار فوج جنرل ولیم ایلفینسٹونWilliam Elphinstoneکی قیادت کراچی سے سندھ کے علاقے سے ہو تی ہوئی مارچ میں وادی ِ کو ئٹہ پہنچی۔ یہ فوج25 اپریل کو قندھار میں داخل ہوئی اور 28 جولائی کو غزنی پر حملہ کیا۔ دوسری جانب تقریباً اتنی ہی تعداد میں سکھ فوج نے ’جس میں علامتی اتحاد کے طور پر انگریز لیفٹیننٹ کلوئڈواڈ کا بیس سپاہیوں کا دستہ تھا‘ کابل اور جلا ل آباد پر قبضہ کیا اور پھر انگریز فوج بھی اِن کے ساتھ مل گئی۔

شاہ شجاع درانی کو افغانستا ن کے تخت پر بٹھا دیا گیا اور اس کے بعد سکھ فوج انگریزوں سے بغیر کوئی مالی سیاسی فائدہ حاصل کئے واپس ہو گئی۔ کابل میں سابق سیکرٹری کلکتہ ولیم میکن گوٹن کو حکومت برطانیہ کے چیف نمائندہ کے طور پر تعینات کر دیا گیا۔ چند مہینے اطمینان کرنے کے بعد بلو چستان کے بارے میں یہ طے ہوا کہ یہاں پر بھی کٹ پُتلی حکومت ہو کیونکہ جب افغانستان پر حملے کے لئے فوجیں درہ بو لان سے گذر رہی تھیں تو بلوچ قبائل نے پہاڑوں سے گو ریلا طرز کے حملے کر کے انگریز فوج کو بہت نقصان پہنچا یا تھا۔

انگریز فوج افغانستان سے نومبر میں بلو چستان پہنچی اور خان آف قلات میر محراب خان کو اطاعت کا پیغام دیا جس کے بدلے انگریز نے معقول وظیفے کی پیش کش بھی کی جس کو محراب خان نے ٹھکر ا دیا اور 13 نومبر1839 کو قلات میں اپنی فوج کے مقابلے میں پچاس گنا بڑی اور توپ خانہ سے لیس انگریزی فوج سے لڑتے ہو ئے شہادت پائی۔ کابل میں اکیس ہزار میں سے ساڑھے بارہ ہزار فوجی رکھنے کے بعد باقی فوجی ہندوستان واپس بھی ہو گئے مگر میکن گوٹن نے محسوس کیا کہ افغانستان میں انگریزوں کے وفادار بادشاہ شاہ شجاع کو عوامی حمایت حاصل نہیں اس لیے اُس نے یہاں مو جود برطانوی ہند کے فوجیوں کے بیوی بچوں کو افغانستان بلوا لیا تاکہ یہاں یہ فوجی طویل عرصے تک اطمینان سے رہائش رکھیں۔

افغانی یہ سمجھ گئے کہ انگر یز اب یہاں مستقل طور پر رہنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور پھر 1842 کے موسم سر ما میں افغانیوں نے انگریزوں کے خلاف مسلح جنگ کی اور یہاں ان کی ساڑھے بارہ ہزار فوج کو قتل کر دیا صرف ایک ڈاکٹر برائیڈن کو زندہ چھوڑا تاکہ وہ عبرت کے لیے پوری داستان سناسکے۔ پہلی اینگلو افغان جنگ کے بہت منفی اثرات وسطیٰ ایشیا پر پڑے جہاں 1842 میں پہلے روسی فوجیں بحیر ہ ایرال کی دوسری جانب آگئیں۔ پا نچ سال بعد روس دریائے آمو تک آگیا۔ 1863 تاشقند پر قبضہ ہو گیا۔

پھر سمرقند پر قبضہ ہوا۔ 1873 تک بخارہ سمیت بڑے رقبے پر روس نے قبضہ کر لیا،یہاں آج کے پا کستانی بلو چستان میں اگر چہ انگریز وں کو مزاحمت کا سامنا رہا مگر چند برس بعد معاملات قبائل اور خان سے طے کر لیے گئے۔ پھر پنجاب میں رنجیت سنگھ 1839 ہی میں فوت ہو گیا اور اس کے بعد اس کے خاندان میں اقتدار کے لیے جھگڑوں نے اِن کو کمزور کر دیا اور پنجاب پر انگریزنے1846 میں قبضہ کرلیا۔ ادھر ہند وستان میں 1857 کی جنگ آزادی جس کو انگریز نے غدر کا نام دیا تھا ناکام ہو گئی اور ہندستان سے علامتی انداز کی مغلیہ بادشاہت کا بھی خاتمہ ہو گیا اور ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے بجا ئے براہ راست تاج بر طانیہ کی حکو مت قائم ہو گئی۔

1861 میں پا کستانی علاقے کوٹری سے کراچی 105 میل لمبی پٹری پر ٹرین چلا دی گئی تھی۔ سکھوںکو شکست دینے کے بعد انگریزوں نے پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے پورے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ دوسری جانب خان آف قلات میر محراب خان شہید کے بعد 1839 سے1841 تک میر شاہنواز خان احمد زئی حکمران رہے مگر اس دوران سیاسی بحران رہا اور انگریزوں کے خلاف بلو چستان میںشدید مزاحمت رہی۔

1841 میں محراب خان شہید کا بیٹا میر نصیر خان دوئم بلو چستان کا حکمران بنا تو اس کے دور میں انگریزوں نے بلو چستان میں اندرونی طور پر عدم مداخلت آزادی وخود مختاری کی بنیاد پر تعلقا ت استوار کر نے شروع کئے اور جو علاقے اسٹرٹیجک اعتبار سے انگر یزوںکے لیے اہم تھے وہ آنے والے دنوں میں خوانین قلات سے سالانہ مناسب رقوم کے عوض لیز یعنی طویل عرصے کے لیے کرایے پر حاصل کئے یوں اب 1839 کے مقابلے میں انگریزکو اب افغانستان کی جانب پیش قدمی میں کسی رکاوٹ کی فکر نہیں تھی۔

1878 تک انگریزوں نے وادیِ کو ئٹہ میں ایک شہر اور اس کے ساتھ علاقے کی ایک بڑی چھاؤ نی بنادی تھی جہاں بھاری توپ خانہ سے لیس ساڑھے بارہ ہزار فوج مو جود تھی یہی صورت راولپنڈی ، پشاور اور بعد میں جہلم کی بھی تھی۔

فوجی مقاصد کے لیے ٹرینوں کا استعمال فرانس ،بر طانیہ اور پھر امریکہ میں 1860-64 کی خانہ جنگی کے دوران ہوا تھا اور اس کی افادیت کو تسلیم کر لیا گیا تھا انگریز نے موازانہ کر لیا تھا کہ جتنا فوجی ساز وسامان اور فوجیوں کو ایک ٹرین سولہ گھنٹوں میں ایک مقام سے دوسرے مقررہ مقام پر پہنچاتی ہے اتنا کام 2500 اونٹ پندرہ دن میں کرتے ہیں یوں یہاں انگر یز ماہر فوجیوںکی تجویز پر خیبر پختونخوا اور بلو چستان میں اسٹر ٹیجک ریلوے کے منصوبے کو برطانوی ہند کی حکومت نے 1857 میںمنظور کرلیا۔ کیونکہ اُس وقت یہاں اتنی آبادی نہیںتھی اس لیے یہ طے کیا گیا کہ یہاں کے خسارے کو ہند وستان کے دیگر علاقوں کی ریلوے کی کمپنیوں کے منافع میں سے حصہ داری کی بنیاد پر پورا کیا جائے گا۔

1866 میں لاہور تا ملتان رات کو بھی ٹرینیں شروع ہو گئیں اور یہ فاصلہ چود ہ گھنٹوں میں طے ہو نے لگا اور اب کلکتہ سے دہلی اور دہلی سے لاہور، ملتان ،کراچی سے کوٹری حیدر آباد کے بعد دیگر ٹریک بھی تعمیر ہو نے لگے۔

دوسری جانب روس سنٹرل ایشیا کی ریاستوں میں ریلوے ٹریک بچھانے لگا یہ سب تیاریاں دنیا کی دو بڑی قوتوں بر طانیہ اور روس کے درمیان کسی ممکنہ جنگ کے لیے تھیں اور انگریز ہر قیمت پر افغانستان میں بر طانوی مفادات کی نگران حکومت چا ہتا تھا۔ پہلی اینگلو افغان جنگ میں شکست کی وجہ سے انگریزوں کی ساکھ کو نقصان پہنچا تھا یہ اسٹرٹیجک طور پر بھی ایک بڑا دھچکا تھا پھر یہ بھی تھا کہ اس کے بعد افغان حکمرانوں کی خارجہ پالیسی یہ رہی تھی کہ بر طانیہ اور روس کے درمیان تعلقات کو متوازن رکھا جائے مگر 31 جولائی 1878 کو ایک روسی سفارتی مشن افغانستان آیا اور 14 اگست تک افغانستان میں رہا۔

بر طانیہ نے بھی دباؤ ڈالا کہ برطانوی وفد کو بھی افغانستان آنے دیا جائے جس پر افغان امیر شیر علی نے واضح کر دیا کہ بر طانوی سفارتی وفد کو کسی بھی صورت میں افغانستان آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اگر اس کے باوجود برطانوی وفد آیا تو اُس کو افغانستان طاقت کے استعمال سے روکے گا۔ افغان حکومت کی جانب سے اس دھمکی کے جواب میں وائسرائے ڈالیٹن نے ستمبر میں ایک مشن کابل بھیجا جو واپس خیبر پختونخوا آگیا اور اس کے بعد دوسری اینگلو افغان جنگ کا آغاز ہو گیا۔

امیر کابل شیر علی نے روسیوں سے مدد حاصل کر نے کی کو شش کی لیکن ناکام رہا اور واپسی پر مزار شریف میںاُسے قتل کر دیا گیا۔ اس جنگ میں انگریز جنرل کمانڈر ڈونل اسٹیورٹ، فیڈریک رابرٹ، سیموئل براؤن کی قیات میں چالیس ہزار ہندوستانی فوج نے حصہ لیا۔ یہ جنگ 1880تک جاری رہی۔ انگریز فوج کے1630 فوجی ہلا ک ہوئے جب کہ افغانستان کے 12700 افراد جاں بحق ہو ئے۔ اس جنگ کے درمیان1879 میں کابل میں Gandamak گنڈامک معاہدے پر دستخط ہو ئے۔ جنرل سرفیدریک اور دیگر سینئر فوجی افسران کے سامنے افغانستان کے لیے کئی ایک تجا ویز پیش کی گئیں۔

ایک تجو یز یہ بھی تھی کہ افغانستان کو دو یا دو سے زیادہ حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ آخر میں یہ طے پا یا کہ عبدالرحمن کو امیر کابل بنا یا جائے اس پر ہرات کے گورنر ایوب خان نے جو عبدالرحمن کا چچا زاد بھائی تھا بغاوت کر دی جس کو برطانیہ نے 1880 میں کُچل دیا اور امیر کابل عبدالرحمن نے گنڈامک معاہدے کی توثیق کر دی، جس کے تحت افغانستان کے سرحدی علاقے انگریزوں کے حوالے کر دئیے گئے اور افغانستان کے امور خارجہ بھی بر طانوی کنٹرول میں چلے گئے جس کے عوض سالانہ ایک رقم سبسیڈی کے طور پر انگریزوں کی جانب سے افغانستان کو دی جانے لگی۔

اگرچہ دوسری اینگلو افغان جنگ کے بعد انگریز اس اعتبار سے بہتر پوزیشن میں تھے کہ اب اٖفغانستان میں بر طانیہ کی حمایتی حکومت قائم تھی مگر اُن کو ہمیشہ یہ تشویش رہتی تھی کہ سرحدی علاقوں میں روس کی پشت پناہی سے گڑ بڑ ہو سکتی تھی اور سرحدی علاقوں میں کچھ ایسے واقعات بھی ہو ئے تھے اس لیے وائسرائے ہند کی ہدایت پر برٹش انڈیا اور افغانستان کے درمیان سرحدوں کے تعین پر ہند وستان کے وزیر امور خارجہ مائیمر ڈیورنڈ نے ستمبر 1893 میںکابل میں عبدالرحمن سے مذاکرات کئے اور پھر دونوں ملکو ں کے درمیان سرحدوں کا تعین کیا گیا جسے ڈیورند لائن Durrand Line کہتے ہیں جس کے مطابق واخان کافرستان کا کچھ حصہ نورستان اسمار موہمند،لال پور،اور وزیر ستان کا کچھ حصہ افغا نستان کا قرار پا یا اور استانیہ،چمن، نوچغائی،بقیہ وزیرستان ،بلند خیل،کرم ، باجوڑ،سوات،بنیر،دیر،چلاس،اور چترال سے افغانستان دستبردار ہو گیا۔

واضح رہے کہ 14 اگست 1947 کو انگریزوں کے جانے کے بعد یہ علاقے پا کستا ن میں آگئے تو افغا نستان نے اس ڈیو رنڈ لائن کو ماننے سے انکار کر دیا۔ یہ مسئلہ افغا نستان کی مختلف حکومتیں اٹھا تی رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بھٹو اور صدر سردار داؤد کے درمیان 1976 میں ڈیو رنڈ لائن پر جاری بات چیت حتمی نتائج پر پہنچے والی تھی کہ بھٹو کی حکومت1977 میںجاتی رہی۔ 1880 کے بعد سے گنڈ امک معاہدے کے تحت افغانستان کی خارجہ پالیسی انگریز کی مرضی کے مطابق ہی رہی۔ روس میں اشتراکی انقلاب کے بعد کیمو نسٹ سوویت یونین کی یہ خواہش تھی کہ اُس کا ہمسایہ ملک افغانستان گنڈامک معاہد ترک کر کے غیر جانبداری اختیار کر ئے مگر حبیب اللہ خان نے باوجود دباؤ کے برطانیہ سے وفاداری نبھائی۔

پہلی جنگ عظیم ختم ہوئی تو حبیب اللہ خان کو اُمید تھی کہ انگریز سے وفاداری کا کو ئی صلہ ضرور دیا جائے گا۔ جنگ کے بعد ورسلز امن کانفرنس ہونے لگی تو حبیب اللہ نے درخوست کی کہ افغانستان کو ورسلز امن کانفرنس میں اُس کی خود مختار خارجہ پالیسی کو تسلیم کرتے ہوئے نشست دی جائے۔ اس درخواست کو وائسرائے نے رد کردیا۔ اگر چہ اس سلسلے میں مذاکرات ہو نے تھے مگر اس دوران حبیب اللہ خان کو قتل کر دیا گیا۔

اس کے بعد امیر حبیب اللہ خان کے بھائی نصر اللہ خان نے بادشاہت کا اعلان کر دیا لیکن حبیب اللہ خان کے تیسرا بیٹا اما ن اللہ خان جو کابل میں خزانے اور فوج کے امور پر اختیار رکھتا تھا اور عوام میں اپنی خوبصورت شخصیت اور محبت آمیز کردار کی وجہ سے بہت مقبول تھا اُ س نے خود کو حبیب اللہ خان کا جا نشین قراردیا وہ عوام کے حقیقی جذبات کی ترجمانی کا ہنر جانتا تھا یوں اپنی بادشاہت کا اعلان کرتے ہی امان اللہ خان غازی نے انگریزوں سے کئے گنڈامک معاہدے کو توڑتے ہو ئے افغانستان کی مکمل آزادی کا علان کر دیا۔

یہ وہ دور ہے کہ جب بر طانیہ اپنے مغربی اتحاد کے ساتھ جرمنی اور ترکی کی خلافت ِ عثمانیہ کے مقابلے میں جنگ جیت چکا تھا۔ جیت کے باوجود بر طانیہ کمزور اور امریکہ مزید طاقتور ہوگیا تھا ہندوستان میں مولانا محمد علی جو ہر کی تحریکِ خلافت زوروں پر تھی اور برطانوی ہند کی فوجیں بڑی تعداد میں ابھی تک دنیا کے مختلف ملکوں میں تھیں۔ 13 اپریل 1919 کو سانحہء جلیانوالہ باغ پیش آگیا جہاں جنرل ڈائر کے حکم پر فائرنگ سے 379 افراد جاں بحق اور1500 سے زیادہ زخمی کر دئیے گئے۔ اس پر پورے ہندوستان میں انگریزوںکے خلاف نفرت انگیز ہنگامے بھرپا تھے۔اس تناظر میں6  مئی 1919 کو تیسری اینگلو افغان جنگ کا آغا ز ہوا۔ یہ جنگ تین مہینے دو دن بعد 8 اگست کو ختم ہو گئی۔ اس جنگ میں برطانوی ہند کی 80000 فوج ٹینکوں ،توپوںاور بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ اُتری تھی۔

برٹش رائل ائیر فورس کے طیاروں کی مدد بھی حاصل تھی۔ انگریز فیلڈ مارشل سر آرتھر آرنلڈ بیرے، بر یگیڈئرجنرل ریجینلڈ ڈائر، بریگیڈئر جنرل الیگزنڈراسیوٹیکس اس کے کمانڈر تھے۔ دوسری جانب افغانستان باقائد ہ فوج 50000 تھی اور افغانستان کی سرحد کے دونوں طرف آباد مسلح قبائل کا بڑا لشکر 80000 سے زیادہ افراد پر مشتمل تھا۔ افغانستان کی فوج کے پاس بھی جدید توپیں تھیں۔ جنگ میں افغانستان کے ایک ہزارافراد اور برطانوی فوج کے ساڑھے سترا سو افراد جاں بحق ہوئے۔ جنگ کے دوران برٹش رائل ایئر فورس کے طیاروں نے کابل پر تاریخ کی پہلی بمبار ی کی جس سے کچھ شہری جاں بحق ہو ئے۔ جنگ کے بعد راولپنڈی میںمذاکرات ہوئے اور امن معاہد ہ طے پا گیا۔

تعلقات متوازن رکھنے کے لیے ڈیورنڈ لائن بر قرار رہی اور طے پا یا کہ افغانستان اس کے پار بر طانوی علاقے میں کو ئی مداخلت نہیں کرئے گا مگر شمال مشرقی سرحدی علاقوں میں آباد قبائلی انگر یزوں کے لیے مسائل پیدا کرتے رہے۔ 8 اگست1919 کے بعد افغانستان ایک آزاد اور خود مختار ملک تھا اور اسکی حیثیت روس اور بر طانوی ہندوستان کے درمیان بفر اسٹیٹ کی ہو گئی تھی۔ غازی امان اللہ خان نے افغا نستان کے آزاد ہو تے ہی روس سے تعلقات قائم کئے۔ مئی 1921 میں روس افغان دوستی کا معاہد ہ طے پایا۔

اس معاہدے کے تحت فوری طور پر افغانستان کو مالی اور فوجی امداد کے ساتھ کچھ روسی جنگی طیارے بھی دئیے گئے۔ امان اللہ خان روس اور بر طانیہ کے درمیان خارجہ پالیسی کو آزاد اور متوازن رکھنا چاہتے تھے مگر اُن کے خُسر سردار محمد طرزی اور اُ ن کی بیٹی ملکہ ثریا انگر یز دشمنی میں آگے اور ساتھ ہی آزاد خیال بھی تھے انہی کے زمانے میں کابل کی شہر ی زندگی میں لباس اور طرز معاشرت میں مغربی تہذیب کا اثر بہت واضح ہو گیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ امان اللہ خان ترکی کے مصطفی کمال پاشا سے متاثر تھے۔ انگریزوں نے جنگ کے بعد افغان تعلقات کو روس کے مقابلے میں برطانیہ کے حق میں زیادہ بہتر کر نے کی غرض سے امان اللہ کو بر طانیہ اور فرانس کے دورے کرائے مگر امان اللہ خان برطانیہ کے نہ چاہتے ہو ئے بھی براستہ روس واپس افغانستان پہنچے۔ لہذا برطانیہ نے امان اللہ کے خلاف سازش کی جس میں مشہور بر طانوی ایجنٹ لارڈ لارنس المعاروف لارنس آف عریبہ نے بھی ’’صاحب کشف روحانی شخصیت‘‘ کے بھیس میں افغانستان جا کر اہم کر دار ادا کیا۔ امان اللہ کے خلاف پرا پیگنڈا کیا گیا اور عوام میں ملکہ ثریا کی جعلی عریاں تصاویر تقسیم کی گیں۔

امان اللہ کے خلاف بغاوت ہو گئی اور 14 جنوری 1929 کو امان اللہ روم چلے گئے۔ مختصر بحرانی دور کے بعد 15 اکتوبر1929 کو محمد نادر شاہ افغانستان کے بادشاہ ہوئے اور اِن کی وفات 8 نومبر1933 کے بعد محمد ظاہر شاہ افغانستان کے باد شاہ ہو ئے جنکا تحتہ سردار محمد داؤد خان نے 17 جولائی 1973 کو الٹ دیا جب وہ بیرون ملک دورے پر تھے۔ معزولی کے بعد وہ روم ہی میں رہے اور 2007 میں وفات پا ئی۔ موت سے قبل اُنہوں نے افغان بحران میں کردار ادا کرنے کی کوشش بھی کی۔ ظاہر شاہ افغانستان کے آخری باد شاہ تھے۔

ظاہر شاہ نے پا کستان کو تسلیم کیا مگر اس کے بعد انہوں نے کئی بار ڈیورنڈ لائن کے اعتبار سے پا کستا ن پر دباؤ رکھا۔ پاکستان نے آزادی کے بعد افغانستا ن کو کراچی کی بندر گاہ سے راہداری کی سہو لت دی، کشمیر پر پہلی پا ک بھارت جنگ1947-48 کے دوران قبائلی لشکر نے اہم کردار ادا کیا تھا اس موقع پر ظاہر شاہ نے بھارت کا ساتھ نہیں دیا۔ اسی طرح 1965 اور 1971 کی جنگوں میں ظاہر شاہ نے بھارت کا ساتھ نہیں دیا۔ 1973 میں ان کے جانے کے بعد جب سردار داؤدخان صدر بنے تو اُن کا جھکا ؤسوویت یونین کی طرف تھا اور مگر 1976 تک اُن کے نظریا ت و خیالات میں کا فی تبدیلی آچکی تھی۔

( جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔