بکاؤ مال

حمید احمد سیٹھی  اتوار 5 جولائی 2020
h.sethi@hotmail.com

[email protected]

وہاں سڑک کے دونوں طرف رہائشی عمارتیں تھیں۔ سڑک اتنی تنگ بھی نہیں تھی صرف یہ تھا کہ اس کے دونوں طرف کاروں کی ڈبل پارکنگ تھی۔ کچھ میں سٹیئرنگ سیٹوں پر بیٹھے ڈرائیور اونگ رہے تھے اور کچھ کاریں خالی تھیں، درمیان میں صرف ایک گاڑی کے گزرنے کا رستہ ہونے کی وجہ سے وہاں غضب کا ٹریفک جام تھا۔

درمیانی رستے میں آدھی گاڑیاں مشرق سے مغرب اور آدھی مغرب سے مشرق کی طرف منہ کیے کھڑی تھیں کہ رستہ ملے اور وہ گزر سکیں لیکن ڈبل پارکنگ گاڑیوں میں بیٹھے ڈرائیوروں پر مسلسل بجتے کاروں کے ہارنوں کا بھی کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا، پھر کچھ رستہ لینے والی گاڑیوں میں سے مالکان یا ڈرائیور اترے اور پارک ہوئی گاڑیوں کے ڈرائیوروں کو مغلظات سنا کر گزر جانے کا رستہ بنانے کی کوشش کرنے لگے۔ یہ منظر اور جنگ و جدل کا میدان اس سڑک پر ہر شام دو تین گھنٹے کے لیے سجتا تھا۔

وجہ تسمیہ اس ہر شام ٹریفک جام کی یہ تھی کہ اس مصروف ترین ایک چوتھائی کلو میٹر سڑک پر دو عدد ایوننگ ٹیوشن سینٹر کچھ ہی عرصہ قبل قائم ہوئے تھے اور امیر گھرانوں کے بچوں اور بچیوں نے علم کی تلاش و جستجو میں اپنی مہنگی اور شوفر ڈریون کاروں میں ان ٹیوشن سینٹروں کا رخ کر لیا تھا اور اطلاع کے مطابق سینٹر کے اندرموجود کیفیٹیریا کی چائے اور کافی بہت مقبول تھی جب کہ ایک ماہ کی ٹیوشن فیس بھی اسٹیٹس سمبل تھی۔ حصول علم کی خواہش پر ظاہر ہے بچوں کے والدین کو بھی اعتراض نہیں ہو سکتا تھا کیوں کہ مہنگا ٹیوشن سینٹر بھی چین جا کر علم حاصل کرنے کے مقابلے میں سستا پڑتاہے۔

ہمارے ایک دوست کا البتہ اعتراضی مشورہ ہے کہ ہمارے بچوں کو مہنگی تعلیم کی بجائے سستی اور اچھی تربیت گاہوں کی ضرورت ہے۔ ہمارے یہ دوست قانون دان ہونے کی وجہ سے قانون سازوں کی کارکردگی پر بھی گہری نظر رکھتے اور گنتی کر کے بتا سکتے ہیں کہ کس سال میں کتنی قانون سازی ہوئی اور کتنے ممبران اسمبلی نے اس میں رائے زنی کی اور کتنے ممبران نے مستقل اور مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی، وہ اس مکمل اور مستقل خاموشی کی وجوہات بھی بتاتے ہیں جنھیں ضبط تحریر میں لانا استحقاق کی مجروحی کی گرفت میں آ سکتا ہے لہٰذا اس ضمن میں خاموشی بھلی۔

اگرچہ جنرل مشرف کی اسمبلی میں گریجویشن کے ایشو پر یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے پچاس سے زیادہ ممبران کی سندات پر حتمی رائے دے دی تھی کہ وہ گریجویشن کے معیار پر پوری نہیں اترتیں لیکن ان تمام ممبران اسمبلی نے پورے وظیفے بھی حاصل کیے اور وزارتوں تک کے مزے لوٹے کسی سے ریکوری ہوئی نہ کسی کی نااہلی ہوئی لیکن اب پارلیمنٹری بلوغت کے علاوہ جیوڈیشیل ایکٹیوازم کے طفیل دونوں کام ہورہے ہیں صرف پاکستان پینل کوڈ (PPC) متحرک نہیں ہوا۔

دراصل جزا اور سزاکا پہلو ہمارے ملک میں کہیں کمزور اور کہیں عضو معطل ہے جس کی وجہ سے لاقانونیت عروج پر ہے، دراصل وہی مثال کہ اگر بادشاہ کسی غیر کے کھیت سے دانہ گندم توڑ لے تو اس کی سپاہ وہاں کے کھیت اجاڑ دے گی۔سیدھی بات ہے کہ کسی معاشرے کے اجتماعی مزاج کا مشاہدہ کرنا ہو تو کتابیں پڑھنے یا دانشوروں سے اس بارے دریافت کرنے کی ضرورت نہیں، آپ نصف گھنٹے کے لیے کسی مصروف سڑک کے کنارے، کسی مارکیٹ، کسی ریلوے پلیٹ فارم یا بس اسٹینڈ، کسی جلسہ عام، کسی عبادت گاہ، ہوائی اڈے، شادی یا ضیافت کے کھانے پر لوگوں کو مصروف عمل دیکھ لیجیے اور اپنے ذہن میں پندرہ بیس تصویریں اتارلیں اور ان پر غور کریں۔

ان تصاویر کو ویڈیو فلم کی طرح بار بار دیکھیے۔ دوسرا طریقہ بھی ہے کہ گھنٹہ دو گھنٹہ بازاروں میں پیدل گھومئے، تیسرا طریقہ ہے کہ موٹر کار نکالیے اور نئے اور پرانے شہر کی چند گھنٹے سیر کیجیے واپسی پر کاغذ قلم پکڑ کر مشاہدات قلم بند کرلیں۔ یہ عمل چاہے دس بار دہرائیں ایک ہی نتیجہ ملے گا۔ اگر آپ اپنے اس مشاہدے کا تقابلی موازنہ کرنا چاہیں تو کسی ترقی یافتہ ملک کی سیر یاد کرکے کریں۔ شرمندگی ضرور ہوگی لیکن اطمینان ہوگا کہ جعلی ڈگری ہولڈروں کو بھی تو ہمی نے عام انتخابات میں اپنا نمایندہ چن کر بھیجا تھا اور اگر ہم خود کو ٹھیک کرلیں تو اپنے جیسے لوگوں کو منتخب کریں گے تو ڈسپلن، انصاف، سچ اور علم کی دولت بھی حاصل کرلیں گے۔

تعلیم، ممتحن اور امتحان کے حوالے سے ایک دوست کا بیان کیا ہوا۔ واقعہ بہت سوں کے لیے چشم کشا ہوگا۔ اس کا بیٹا ایک معروف گورنمنٹ کالج کا طالب علم تھا۔ بی اے کے امتحان میں وہ ایک پیپر میں فیل ہوگیا۔ باپ ناراض ہوا، بیٹے کا اصرار تھا کہ وہ اس پرچے میں فیل نہیں ہوسکتا کیونکہ اس نے تمام سوالوں کے صحیح جواب لکھے تھے۔ باپ کو یقین نہ آیا تو بیٹے نے سوالوں کا پرچہ سامنے رکھ کر اسے حل کرنا شروع کیا اور مقررہ وقت کے بعد حل شدہ پرچہ باپ کے سامنے رکھ دیا۔ باپ نے اپنے پروفیسر دوست سے اس پر مارکنگ کروائی تو اس نیے کو پاس مارکس دیے۔

اب باپ کو یقین آگیا کہ پیپر مارک کرنے میں کالج میں کوئی گڑبڑ ہوئی ہے۔ کسی نے اسے بتایا کہ اساتذہ کو امتحانی پرچے مارک کرنے کا بہت کم معاوضہ ملتا ہے اس لیے کئی استاد جونیئر ٹیچروں سے پرچے مارک کرواتے ہیں۔ اب اس لڑکے کے باپ کا امتحان شروع ہوا اور اس نے چیلنج سمجھ کر امتحانی پرچے کے نمبروں کی Recounting کے لیے تگ و دو شروع کردی۔ اس دوست کا کہنا تھا کہ Marks Recounting Fee جمع کروانے کے باوجود اسے چالیس پچاس کوششوں کے بعد کامیابی ہوئی اور Recounting Committee نے فیصلہ دیا کہ ایک سوال مارک ہونے ہی سے رہ گیا تھا۔ ظاہر ہے پیپر مارکنگ کا معاوضہ کم ہوگا تو پورا پیپر بھی چیک نہیں ہوگا۔

یہ حقیقت ہے کہ منافع رساں سرکاری عہدے بکاؤ مال ہیں۔ تھانوں کی بولی لگتی ہے اور پٹوار سرکل بکتے ہیں۔ اب معلوم ہوا کہ گریجویشن کی ڈگریوں اور ڈاکٹریٹ کی سیل بھی لگتی ہے اور تعلیم بھی اب برائے فروخت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔