پاکستان میں مصنوعی ماحول میں پروردہ شیروں اور ٹائیگرز کی تعداد میں اضافہ

آصف محمود  اتوار 5 جولائی 2020
پاکستان کے جنگلی ماحول میں شیر،چیتے اورٹائیگرکی بہت کم تعدادموجود ہے فوٹو: فائل

پاکستان کے جنگلی ماحول میں شیر،چیتے اورٹائیگرکی بہت کم تعدادموجود ہے فوٹو: فائل

 لاہور: پاکستان کے جنگلی ماحول میں شیر،چیتے اورٹائیگرکی بہت کم تعدادموجود ہےتاہم چڑیا گھروں، سفاری پارک اورنجی بریڈنگ سینٹرز میں سیکڑوں کی تعداد میں یہ جنگلی جانور موجود ہے جنہیں ایکسپورٹ کرکے ملک کے لئے قیمتی زرمبادلہ کمایاجاسکتا ہے۔ 

پاکستان میں گزشتہ چند برسوں کے دوران مختلف ممالک سے شیر،چیتے، افریقن شیر،پوما سمیت بگ کیٹس کی نسل کے دیگر جانور امپورٹ کئے جاتے رہے ہیں تاہم اب مقامی سطح پر ان کی تعداد اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ان جانوروں کو بیرون ملک سے امپورٹ کرنے کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔

بین الاقوامی ادارے کنزویشن آن انٹرنیشنل ٹریڈ ان انڈینجرڈ اسپیشیز آف وائلڈ فانا اینڈ فلورا (سائیٹز) کے مطابق پاکستان میں 2013 سے لے کر 2018 تک مختلف انواع کے 85 شیر، چیتے، ببر شیر وغیرہ درآمد کیے گئے جبکہ ان کے علاوہ 15 جانور ٹرافی ہنٹنگ کی صورت میں پاکستان آئے ہیں۔

پنجاب وائلڈ لائف کے ڈپٹی ڈائریکٹر مدثرحسن نے بتایا کہ صوبے میں اس وقت 215 کے قریب بریڈنگ فارمز رجسٹرڈ ہیں ۔ان میں سے 25 بریڈنگ فارمز ایسے ہیں جہاں افریقن شیر، کامن ٹائیگر،لائن اور پوما سمیت بگ کیٹس کی دیگر اقسام موجود ہیں۔ تاہم پنجاب میں بگ کیٹس کی حتمی تعداد متعلقہ ضلعی افسرکے پاس ہوتی ہے۔ اگر صرف لاہور چڑیا گھراورلاہورسفاری پارک کی بات کی جائے تویہاں موجود شیر،ٹائیگراورپوما کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ لاہور سفاری زو میں اس وقت 39 بگ کیٹس ہیں جبکہ چندہفتے قبل 14 شیرفروخت کردیئے گئے تھے۔ اسی طرح لاہور چڑیا گھرمیں 35 بگ کیٹس ہیں جن میں افریقن شیر، کامن شیر، وائٹ ٹائیگر،چیتا اور پوما شامل ہیں۔

بین الاقوامی طور پر جنگلی حیات کے کاروبار پر پابندی ہے مگر خطے کے شکار جنگلی حیات کی نسلوں کو تحفظ دینے اور مختلف ممالک میں ان کی بریڈنگ کے لیے ’ساآئیٹز‘ مقامی حکومتوں کی مشاورت سے ان کی درآمد اور برآمد کی اجازت دیتی ہے۔پاکستان میں بگ کیٹس امپورٹ توکی جاسکتی ہیں تاہم ان کی ایکسپورٹ کی ابھی اجازت نہیں ہے۔

میاں ضیا نے بتایا کہ جنگلی حیات بشمول شیر اور چیتوں کو باہر سے منگوانے کے لیے سب سے پہلے وفاقی وزارت ماحولیات سے اجازت حاصل کرنا پڑتی ہے۔ ان کے مطابق ماہرین اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ کیا اجازت حاصل کرنے کے خواہمشند فرد کے پاس مطلوبہ سہولتیں موجود ہیں کہ نہیں جس کے بعد یہ معاملہ وفاقی وزارت داخلہ کے پاس جاتا ہے۔وزارت داخلہ، وزارتِ ماحولیات کی سفارشات کی روشنی میں اپنی سفارشات تیار کر کے ’ساآئیٹز‘ کے مقامی افسران کو دیتی ہے جو ان سفارشات کی روشنی میں جانور کی درآمد کی اجازت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔میاں ضیا کے مطابق بگ کیٹس کے علاوہ دیگر جنگلی حیات کو بھی درآمد کیا جارہا ہے اور ان کے درآمدکنندگان میں چڑیا گھر، سفاری پارک، نیشنل پارک، بریڈنگ فارمز اور مختلف اداروں کے علاوہ عام لوگ بھی شامل ہیں۔

وائلڈ لائف پنجاب کے اعزازی گیم وارڈن بدر منیر کا کہنا ہے کہ معدومی شکارجنگلی حیات کی کئی پرجاتیوں کی افزائش بڑھانے میں نجی بریڈنگ فارمزنے بہت اہم کرداراداکیا ہے۔ اگر حکومت برآمد کی اجازت دے تو اس سے یقینا ملکی معیشت کو فائدہ ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ اگر کوئی بھی شخص، ادارہ، سفاری پارک وغیرہ لائسنس یافتہ بریڈنگ فارم سے بڑی بلی یا جنگلی حیات کو خریدتا ہے تو اسے چاہیے کہ مذکورہ بریڈنگ فارم سے رسید حاصل کرے کیونکہ وہ اس بات کی سند ہو گی کہ جانور قانونی طور پر حاصل کیا گیا ہے۔ پارکوں، سفاری پارک، چڑیا گھروں کے لیے اپنے اصول و ضوابط موجود ہیں کہ وہ انھیں کن حالات میں رکھیں گے۔ اسی طرح اگر کوئی پالنے کے لیے ایسا جانور خریدتا ہے تو اس کے لیے قواعد ہیں کہ ان کو کس طرح کے حالات میں رکھا جاتا ہے۔

بدرمنیرنے بتایا کہ وہ خود اوران کی ٹیم گاہےبگاہے یہ چیک کرتی ہے کہ خطرناک جنگلی جاروں کو نجی بریڈنگ فارمزاورگھروں میں کس طرح رکھا جارہا ہے اگرکسی جگہ قوائد وضوابط کی خلاف ورزی نظرآئے توجنگلی جانورکوسرکاری تحویل میں لے لیاجاتا ہے، گزشتہ سال جوہرٹاؤن کے علاقے سے دو شیروں کو ضبط کیا تھا۔

جنگلی حیات میں اضافے کے لئے جہاں نجی بریڈنگ فارمزاہم کردار ادا کررہےہیں وہیں جنگلی حیات کےتحفظ کے لئے کام کرنیوالے اداروں کو اس پر اعتراض بھی ہے، ڈبلیو،ڈبلیوایف کے ڈائریکٹرحماد نقی کا کہنا ہے جنگلی حیات کا ٹھکانہ تو جنگل ہے۔ جنگل کے باسی کو پنجرے میں بند کر کے اس کی ساری زندگی کو اذیت ناک بنا دیا جاتا ہے۔ کسی بھی جاندار کو بغیر کسی وجہ کے قید کر دینا یا قید ہی میں رکھنے کے لیے اس کی افزائش نسل کرنا کسی طوربھی مناسب نہیں ہے۔

حماد نقی کہتے ہیں دینا کے مختلف ممالک میں لوگ بریڈنگ فارمزمیں بگ کیٹس رکھتے ہیں لیکن کے لئے بڑے سخت ایس اوپیزبنائے گئےہیں، ہمارے یہاں بدقسمتی سے شیروں کوپالنا ایک سٹیٹس کو کی علامت بنتا جارہا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ لاہورہائیکورٹ اس حوالے سے اپنا ایک فیصلہ بھی دے چکی ہے جب لاہورمیں مسلم لیگ ن کا ایک کارکن شیرکوپنجرے میں بندکرکے انتخابی مہم میں لے آیا تھا۔انھوں نے کہا کہ جنگلی حیات کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے، انسانی زندگی میں نگلی حیات کا بڑا کردار ہے جس کے تحفظ کے لیے قدرتی ماحول، جنگلات اور ان کے مسکن محفوظ کرنا چاہیے.

دوسری طرف اعزازی گیم وارڈن بدرمنیرکہتے ہیں نجی بریڈنگ فارمزمیں کئی ایسے جانوروں کی کامیاب افزائش کی گئی ہے جومعدومی کا شکار تھی ، لاہور کے بریڈنگ فارم کچھ سال پہلے انتہائی نایاب کوگر یا پوما منگوایا گیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔