یہاں کون سلیکٹڈ نہیں ہے؟

راؤ منظر حیات  پير 6 جولائی 2020
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

تاریخ کوذاتی تعصب سے بالاترہوکرلکھنا اَزحد مشکل کام ہے۔سیانے لوگ توکہتے ہیں کہ ناممکن۔ خیال ہے یاشائدگمان ہے کہ جس دنیامیں ہم سانس لے رہے ہیں اورفکری ترقی جس طرح حاصل کی گئی ہے، اس میں تعصبات سے بالاترہواجاسکتاہے۔یہ ناممکن نہیں ہے۔ مگر، اس کے لیے حددرجہ مشکل مطالعہ اورعلمی ریاضت درکار ہے۔

اس پیچیدہ کام کوبہرحال بہت سے دانا لکھاریوں نے سر انجام دیاہے۔یہی معاملہ، ہمارے اردگرد ظہور پذیر ہونے والے ملکی اوربین الاقوامی معاملات کاہے۔مثال دینا چاہتا ہوں۔ مسلمان ممالک کے اخبارات، چینلز، تجزیہ کاروں اورسیاستدانوں کا فلسطینیوں پرہونے والے مظالم کے متعلق رویہ دیکھیے۔ کھل کر اسرائیل کی مذمت کی جاتی ہے جوکافی حدتک درست ہے،مگرکوئی بھی آپ کویہ نہیں بتائے گاکہ فلسطینیوں کے حق میں متعدداسرائیلی یہودی بھرپور آواز اُٹھاتے ہیں۔

متعدد یہودی دانشور مضبوط طریقے سے اپنی حکومت کی کمزوریوں کو اُجاگر کرتے ہیں اورفلسطینیوں کی حمایت کرتے ہیں۔مگریہ زاویہ کم ازکم ہمارے جیسے ممالک میں سامنے نہیں آتا۔ دور مت جائیے۔کشمیرمیں مظالم کے خلاف ہم تو آواز اُٹھاتے ہی ہیں۔جوبالکل راست قدم ہے۔مگرکشمیری مسلمانوں کے حق میں ہندوستان ہی کے اَن گنت دانشورطاقتورآوازاُٹھاتے ہیں۔ارون دتی رائے انھی میں سے ایک ہیں۔ایک ایسی لکھاری جسکی بات کودنیاکی اکثریت ’’ دلیل کی آواز‘‘سمجھتی ہے۔

یہ ابتدائیہ اس لیے لکھ رہاہوں کہ ہماری سیاسی تاریخ کواس کے اصل تناظر میں پیش کرنے کے لیے بہت کم لوگوں نے ہمت دکھائی ہے۔اس کی ایک اوروجہ یہ بھی ہے کہ ہمیں دانستہ طور پر فکری،مذہبی،سماجی اورسیاسی تقسیم کاتختہ مشق بنادیا گیا ہے۔اب یہ فرق ذاتی نفرت تک جاچکاہے۔ایک فریق کی ہرحرکت ملک سے غداری،بربادی اوردشمنی بتائی جاتی ہے۔معاملہ صرف یہاں تک رہے توچلیے، پھربھی معمولی سادرست ہے۔ مگر ہر فریق،اپنے سچ کوہی لافانی سمجھتا ہے۔

اس کے نزدیک چندپسندیدہ لوگ، شائد دیوتا کے منصب پر فائز ہیں۔ دیگریاان کے مخالف سیاسی،  مذہبی سوچ رکھنے والے شیطان صفت گردانے جاتے ہیں۔ مذہب پر گفتگو کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔مذہبی معاملات پربات کرنے کے لیے دیگرلوگ موجود ہیں۔ ان میں معدو دے چندلوگ منطق کی بنیادپرلوگوں کی رہنمائی کرسکتے ہیں۔اسی طرح سیاسی معاملات پرذاتی تعصب کو زیرِدست کرکے بات کرنے والے بہت کم ہیں۔ بدقسمتی سے اُردولکھنے والوں میں ان کی تعداد خطرناک حدتک معمولی ہے۔

یہ بات کہنے کی صرف اس لیے جسارت کر رہاہوں کہ آج کل ہمارے اکثرسیاسی رہنما، ملک کی سیاسی تاریخ کومسخ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کبھی کبھی تویوں لگتاہے کہ وہ درست فرما رہے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہماری سیاست کودرست طریقے سے بیان کرنابہت ضروری ہے۔اسلیے کہ لوگوں کے ذہنوں سے غبارکم یاختم کیاجاسکے۔

گزشتہ دوبرس سے مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ ایک لفظ کی  گردان کررہے ہیں۔اس کاپہلاہدف،عمران خان ہیں جوکہ اس وقت موجودہ وزیراعظم ہیں۔ہرفورم پرچند سیاسی جماعتوں کاوردہے کہ یہ شخص سلیکٹڈہے۔مگراسی لفظ کادوسرااستعمال کسی کوبھی کرتے نہیں سناکہ’’ سیاسی میدان میں کون سلیکٹڈنہیں ہے‘‘اپنی سیاسی تاریخ اُٹھا کر پرکھیے۔ کوشش کریں کہ ذاتی پسندوناپسند کی عینک نہ پہنی ہوئی ہو۔تکلیف دہ حدتک حقائق نظر آئینگے۔

1985 کا وقت ذہن میں لائیے۔غیرجماعتی الیکشن ہوئے۔ نواز شریف وزیر اعلیٰ بننے میں کامیاب ہوگئے۔تب نواز شریف کاسیاست سے دوردورکاتعلق نہیں تھا۔انھیں پنجاب کی برادریاں،دھڑے اورسیاسی شخصیات کے متعلق ناکافی معلومات تھیں۔شروع شروع میں توانھیں حکومت کرنے کاطریقہ چند اہم لوگوں نے سمجھایا۔مسلم لیگ ن کاکوئی لیڈر1985کی بات نہیں کرتا۔اس وقت کے وزیراعظم،خان جونیجوبھی سفارش پرسلیکٹ کیے گئے تھے۔

یہ اوربات ہے کہ ایک منجھے ہوئے شریف سیاستدان تھے۔لہٰذاتھوڑے ہی عرصے میں انھوں نے ضیاء کوکافی حدتک دیوارسے لگا دیا۔اسمبلی کوختم کرنے کے معاملات سب کے علم میں ہیں۔کس نے کیاکرداراداکیا۔یہ بھی ایک کھلاسچ ہے۔تمام واقعات کھل کرکتاب میں تولکھے جاسکتے ہیں۔مگرایک محدودتحریرمیں انکااحاطہ کرناناممکن ہے۔

1988کے انتخابات پرنظرڈالیے۔ آپکو دو متضاد سیاسی شخصیات کی بھرپورجنگ نظرآئیگی۔ نواز شریف، اپنے ماضی کے طرزِعمل کے عین مطابق مقتدر طبقوں کے ساتھ کھڑے تھے۔آئی جی آئی کی تشکیل کوتوجنرل حمیدگل بذاتِ خودتسلیم کرچکے ہیں۔ اس کے بعدکچھ بھی کہنے کی گنجائش نہیں رہی۔ اس مقام پرذہن میں رہنا چاہیے کہ بینظیربھٹونے بھی وزیراعظم بننے کے لیے اس وقت کے مقتدرطبقے کی ہر شرط مانی۔مگر وہ ان پر اعتبار کرنے کے لیے ہرگزتیار نہیںتھے۔خارجہ اور کئی دیگراُمور کوبینظیرنے بذاتِ خودمقتدراداروں کے حوالے کردیا۔

سوال ہے کہ کیایہ سب کچھ کسی بلندسیاسی اُصول کے تحت کیا گیا تھا، ہرگز نہیں۔ انھیں علم تھاکہ وزیراعظم بننے کی سلیکشن میں کون سا ادارہ اہم ہے۔لہٰذاکسی بھی سیاسی اقدار سے بالا انھوں نے ہربات تسلیم کرلی۔کیاآج پیپلز پارٹی کا کوئی رہنمااس معاملے کی تردید کرسکتا ہے۔ حدتویہ ہے کہ انھیں مقتدر اداروں کے نمایندہ وزیروں کے متعلق بولنے تک کا اختیار نہیں تھا۔ مگر اسکا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔

بہت زیادہ دورجانے کی ضرورت نہیں۔ 2006 میں جس وقت تمام متحارب سیاسی فریق ’’چارٹرآف ڈیموکریسی‘‘کرنے میں مصروف تھے۔بالکل اسی عرصے میں بینظیرمشرقِ وسطیٰ کے ایک حکمران کے محل میں پرویز مشرف کے نمایندوں کے ساتھ مذاکرات کررہی تھیں۔اس کی بہت سی ایسی جزئیات ذاتی طور پر معلوم ہیں۔ مگر ہرگز ہرگز بیان نہیں کرونگا۔کیونکہ اس سے علاقائی تعصب کاگمان اُبھر سکتا ہے۔

چارٹر آف ڈیموکریسی وہ بدقسمت معاہدہ ہے۔جس پرسیاسی فریقوں نے کبھی عمل نہیں کیا۔  ہمارے سیاستدانوں نے اس کی سیاہی خشک ہونے تک کا انتظارنہیں کیا۔اور جنرل پرویزمشرف کے ساتھ خفیہ رابطوں میں مصروف ہوگئے۔پیپلزپارٹی،مسلم لیگ ن اور دیگر سیاسی جماعتوں کی ترتیب کودیکھیے۔جماعت اسلامی کے علاوہ کسی بھی جماعت میں لیڈرکوالیکشن کے ذریعے نہیں، بلکہ کنبہ کے فردہونے کی بدولت سلیکٹ کیا جاتا ہے۔ شہبازشریف کے وزیراعلیٰ بننے کے معاملہ پر غور فرمائیے۔

کیا ن لیگ میں ایک بھی ایسا سیاستدان نہیں، جوپنجاب کی وزارت اعلیٰ کے اہل سمجھا جائے۔ کسی بھی الیکشن میں اگرنوازشریف،جیت جائیں یا جتوا دیے جائیں تووزارت اعلیٰ کے متعلق کبھی ن لیگ میں کوئی سنجیدہ بحث نہیں ہوتی۔وزارت اعلیٰ کی ہما برادر خورد پر بیٹھتی ہے۔کیایہ سلیکشن نہیں ہے۔مگرکوئی بھی اس رخ پربات نہیں کرتا۔بالکل اسی طرح بلاول زرداری کا پیپلزپارٹی کاچیئرمین بنناکیاکسی سیاسی جدوجہد کاحصہ ہے۔کیاانھیں میرٹ کی بنیادپرچیئرمین بنایا گیا ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ والدنے اپنے بیٹے کوسلیکٹ کیا۔کیا آپ نے سناہے کہ چیئرمین بننے کے لیے بلاول نے کسی سیاسی پختگی کااظہارکیاہو۔بالکل نہیں۔

جس طرح پنجاب میں شہبازشریف کے وزیراعلیٰ بننے پرکوئی اعتراض نہیں کرسکتا۔بالکل اسی طرح سندھ میں ایک نوجوان کوخونی رشتہ کی بنیادپرچیئرمین بنانے کے خلاف کوئی لب کشائی نہیں کرسکتا۔اس بات کوبھی رہنے دیجیے۔ کیامحترمہ نے کسی جگہ بھی زرداری صاحب کو اپنا جانشین بنانے کااظہارکیاتھا؟کم ازکم میرے علم میں نہیں ہے۔ مگربینظیرکی شہادت کے بعد،صرف اور صرف شوہرہونے کی بدولت،زرداری کوپارٹی لیڈر منتخب کیا گیا۔کیایہ لیڈری انھوں نے واقعی میرٹ پر حاصل کی تھی۔نہیںمیں غلط لکھ گیا۔میرٹ وہی تھااور ہے۔خونی رشتوں سے طاقت کے حصول کا طریقہ۔ یعنی سلیکشن۔

جماعت اسلامی کے علاوہ کوئی دوسری سیاسی جماعت نہیں،جواپنے قائدکومیرٹ کی بنیادپرچنتی ہو۔ اسی طورپرتحریک انصاف بھی اقتدارمیں آئی ہے۔ جو اُصول،بے اُصولی،دیگرجماعتوں کو اقتدار میں لانے کے لیے استعمال کیے گئے تھے۔ بالکل انھی مروجہ اُصولوں کے مطابق مقتدرطبقوں نے قرعہ فال،عمران خان کے حق میں نکالاہے۔یہ الگ بات ہے کہ خان صاحب نے ناپختگی کا اظہار کرتے ہوئے کم ازکم پنجاب میں اپنی جماعت کو آیندہ الیکشنوں کے لیے کمزور کر دیا ہے۔ مگر ’’بادشاہ کی ضد‘‘ہمیشہ سے ایک جیسی ہی رہی ہے۔ اسے ’’راج ہٹ‘‘کانام دیا جاتا ہے۔ بہرحال سوچنے کا مقام ہے کہ یہاں کون سلیکٹڈنہیں ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔