ہماری ادھوری کہانی!

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین  پير 6 جولائی 2020
aamir.liaquat@express.com.pk

[email protected]

بے شک ’’ہمیں اپنا نظریہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ بدعنوان، بدطینت اوربدنیت افرادکو، جو کہ ایوانِ بالا و زیریں کے قواعد سے آشنا تک نہیں، انھیں ’’ کابینہ میںہے کیسے جینا؟ ‘‘ ایسے ہنر سکھانے چاہئیں، خوش آمدیوں کو خوش آمدیدکہنا چاہیے، ابن الوقت اور دولت کے ’’پجاریوں‘‘ کو کنواریوں کی طرح برتنا چاہیے کیونکہ انھیں پیسے کا ’’بخار‘‘ ہے۔

کیا آپ کو پتہ نہیں کہ ’’ریاست ِ مدینہ‘‘ (نئی والی) میں ’’دوستوں‘‘ کی کتنی اہمیت ہوتی ہے؟ دوست کاحق ہے کہ وہ ریاست کا گوشت تک بھنبوڑ ڈالے! آخرکو اُس نے پیسہ لگایا ہے، باقی رہ گئے وہ جو جیت کر آئے ہیں،ارے وہ تو نظریے کے ساتھی ہیں اور نظریہ نہیں چھوڑنا چاہیے،نظریہ یہ بھی ہے ’’نظر آنے والوں کی گنتی کی جائے اور جو نظر سے دُور ہیں انھیں روٹی، چاول اورکُنّاکھلا کر مُنّا سا سلام ٹکا دیا جائے، ٹکے رہیں گے‘‘ کہاں جائیں گے؟

کبھی سوچا نہ تھاکہ ایسے لمحات بھی آئیں گے جہاں سماعتیں ساتھ چھوڑ دیں گی، نگاہیں محدود ہوجائیں گی اور اپنے ہی غیروں جیسا برتائو کریں گے۔ ہم ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے، سازشیں کرتے ہیں، ہم کراچی والوں کو پہلے کہا جاتا تھا ہم ’’ شخصیت پرست‘‘ ہیں،اب بھی کیا یہی نہیں ہو رہا؟ بس بوریوں میں نعشیں نہیں مل رہیں اِس کے سوا سب کچھ ویسا ہی تو ہے، بات سُنی نہیں جاتی،بات کی نہیں جاتی،بات بنائی نہیں جاتی، جب سب اپنے ہیں تو غیرکون؟ جب کسی ’’نئے‘‘ کو قبول ہی نہیں کرنا تھا تو منت سماجت کیوں کی؟

رہنے دیتے کسی کونے میں پڑا کم از کم ’’کومے‘‘ میں جانے کی نوبت تو نہ آتی،ہاں مگر اِس بات پر مجھے ہمیشہ فخر رہے گا کہ میں کسی کرپٹ کے ساتھ نہیں، مجھے احترام ہے اُس کا جس نے مجھے بے پناہ پیاردیا، میں محبت کرتا ہوں  اُس سے جس کی جیب میں آج بھی بھرا بٹوا نہیں ہوتا، مجھے ناز ہے کہ وہ بات بھلے ہی تلخ ، چبھتی یا حالات کے بر خلاف کرے مگر بات ٹھیک کرتا ہے، اِس لیے کیسے اُسے چھوڑ دوں؟حالات نے ایک ایسے دوراہے پہ لاکھڑا کیا ہے جہاں ایک طرف ’’ محبوب ‘‘ ہے تو دوسری جانب ’’محبوب ٹیم‘‘میں پشت پر چھرا گھونپنے والے وہ گھس بیٹھیے ہیں جو انتخاب لڑے بنا سب سے لڑ رہے ہیں، جس کا جو شعبہ نہیں وہ اُس کی بریفنگ دے رہا ہے۔

مذہب پر و ہ رائے دے رہے ہیں جنھیں مذہب کی ایک دن ہائے لگ جائے گی، سوشل میڈیا پر ایسے بے لگام فسادی چھوڑ دیے گئے ہیں جو کسی کے قابو میں نہیں،اپنے ہی اراکین اسمبلی کے خاندانوں تک کو نہیں چھوڑتے ’’جا چلا جا، تُو آیا ہی کیوں تھا؟‘‘ جیسے دل جلانے والے جملے ’’ہیڈ آف سوشل میڈیا‘‘ کی اجازت سے ٹوئٹ کرنے والے اتنا ہی بتا دیں کوئی واقعتاً چلا ہی گیا توآج کل جوگنتی گنی جارہی ہے اُس میں ایک کم ہوگیا توپھر غم نہ کرنا۔

اندھوں کے ہاتھوں ریوڑیاں لگ گئی ہیں، بندروں سے ادرک کا سواد پوچھا جارہا ہے، کورونا جیسی بھیانک وبا نے بھی ہمیںناگہانی موت سے پناہ مانگنے کی توفیق عطا نہیں فرمائی، روز جنازے اُٹھ رہے ہیں اور لہجوں میں وہی سختی، انانیت، تعصب کی غلاظت اور اخلاقی گراوٹ اپنے اپنے مقام پرسختی سے جمی ہوئی ہیں۔ مکالمے سے راستے نکالنے والوں کو راستے سے ہی ہٹا دیا گیا، جہانگیر ترین کو اتنا ’’ذلیل‘‘ کیا کہ وہ’’خود دار‘‘ ہوگئے، الزام ثابت نہیں ہوا، رپورٹ میں سقم ہیں۔

ایک صاحب کی اہلیت پر تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے قابل احترام چیف جسٹس نے بھی اپنے ریمارکس میں تحفظات کا اظہار فرمایا مگر وہ پاکستان کے دوست چینیوں کی بے چینی دورکرنے کے بجائے لودھراں کے چینی والے کے پیچھے ایسے پڑے ہیں کہ رمضان شوگر ملز سے آصف زرداری کی شوگر ملوںتک راوی چین ہی چین لکھتاہے۔ ٹھیک ہے بھائی! وہی کیجیے جو آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔

قرآن کہتا ہے کہ ’’ احسان کا بدلہ احسان کے سوا نہیں‘‘ اور یہاں الزام جُرم بنائے جاتے ہیں اور پھر خود ہی دفعات لگا کر ’’دفع‘‘ کردیاجاتا ہے،مجھے اپنے کپتان سے بے پناہ پیار ہے لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ وہ جن سے پیار کرے اُن سے بھی پیارکیا جائے، میرا مقدمہ بھی تو یہی ہے، کپتان مجھ سے پیار کرتا ہے نا! پھر ٹرولنگ کرنے والے کون ہیں؟ دورکرنے والوں کے نام کیا کیا ہیں؟ قلفی،کون چوہدری، لاغر کی مان،یزیدی ٹولہ، رنگ برنگی اور ایسے کئی ’’چھپے منافق‘‘،کہ سامنے آکر بات کرنے کی جن میں ہمت نہیں، واٹس ایپ گروپوںمیں کام ’’اُتارتے‘‘ ہیں اور پھر تعزیت کے پھول لیے قبر تلاش کرتے ہیں۔ اِن میں سے بہت تو ایسے ہیں جنھیں ’’نعیم الحق مرحوم‘‘ بنا گئے اور یہ اُن ہی کے جنازے میں غائب تھے۔

ایک سنہرا موقع ملا تھا، ایک تاریخ ساز موڑ تھا، ہم یکجہتی کی مثال بن سکتے تھے،اندرونی خلفشار کے بجائے کپتان کے ہاتھ مضبوط کرسکتے تھے لیکن گروہ بندی،نفرت کو نبھانے کی قسمیں،ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کے ’’ قومی جذبے‘‘ اور ’’ تُو میرا آدمی، میں تیرا آدمی‘‘ جیسے رویوں نے آج ہمیں کم از کم ووٹرکی نگاہ میں گرا دیا ہے۔

مجھے یاد ہے،میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں حکومت بنانے سے قبل پیارے عمران خان نے منتخب اراکین قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’آپ نے ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہے،کوئی بھی آپ کے رکن پارلیمنٹ کے خلاف بات کرے آپ سب نے ایک ہوکر اُس کے لیے آواز بن جانا ہے، کہیں وہ اپنے آپ کو تنہا محسوس نہ کرے، میرے لیے میرا ہر رکن اسمبلی عمران خان ہے، اور ہم نے مل کر نیا پاکستان بنانا ہے‘‘ میری یادداشت میں یہ جملے آج بھی محفوظ ہیں، شاید کچھ ’’دانا ‘‘ دانا کھا کر بھول گئے…!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔