کورونا وائرس ہوا کے ذریعے بھی پھیلتا ہے، سیکڑوں ماہرین کا دعویٰ

ویب ڈیسک  منگل 7 جولائی 2020
32 ممالک کے سینکڑوں سائنسدانوں نے کہا ہے کہ کورونا وائرس ازخود ہوا کے دوش پر چند لمحوں تک پرواز کرتے رہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

32 ممالک کے سینکڑوں سائنسدانوں نے کہا ہے کہ کورونا وائرس ازخود ہوا کے دوش پر چند لمحوں تک پرواز کرتے رہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

میری لینڈ، امریکا: کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی ضمن میں سینکڑوں ممتاز ماہرین نے ایک نیا دعویٰ کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ چھینکنے، کھانسی اور چھونے کے علاوہ بھی کورونا وائرس ہوا میں موجود باریک ذرات پر سفر کرتے ہوئے ہوا میں پھیل سکتے ہیں اور دوسروں کو متاثر بھی کرسکتے ہیں۔

یہ بات طے ہے کہ انسانوں کے منہ اور ناک سے خارج ہونے والے مائعات کے باریک قطروں (ڈراپلٹس) کے اندر وائرس بند ہوکر کئی فٹ تک سفر کرکے دوسرے انسان کو متاثر کرسکتا ہے۔ لیکن یونیورسٹی آف میری لینڈ کے پروفیسر ڈونلڈ ملٹن اور دیگر عالمی ماہرین کا اصرار ہے کہ وائرس نمی والے قطروں کے ذریعے کچھ بلندی پر جاکر ہوا میں کچھ دیر گھومتے رہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اسے اڑ کر لگنے والی یا ہوا سے پھیلنے والی وبا کہہ سکتے ہیں۔

اس ضمن میں 32 ممالک کے 239 سائنسدانوں نے عالمی ادارہ برائے صحت کو ایک کھلا خط بھی تحریر کیا ہے جس کی تفصیل ایک سائنسی جرنل میں اسی ہفتے شائع کی جائے گی۔  لیکن اس ضمن میں عالمی ادارہ برائے صحت میں وبائی امراض کی ماہر ڈاکٹر بینی ڈیٹا الگرانزی نے کہا ہے کہ ہوا میں وائرس کے پھیلنے کا دعویٰ ان کے لیے قابلِ قبول نہیں۔

واضح رہے کہ اس سے قبل عالمی ادارے نے کئی مرتبہ یہ بیان دیا ہے کہ مریض کی چھینک یا کھانسی سے نکلنے والے وائرس زدہ مہین قطرے تھوڑا فاصلہ طے کرکے نیچے گرجاتے ہیں۔ لیکن اب ماہرین کا اصرار ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ وہ مزید کچھ دیر ہوا کے دوش پر گردش کرتے رہتے ہیں۔

اگر یہ بات درست ثابت ہوتی ہے تو پھر گھروں، دفاتر اور بند مقامات پر موجود لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ دور رہتے ہوئے بھی ایک این 95 ماسک ضرور پہنیں تاکہ بہت چھوٹے وائرسوں کو جسم میں داخل ہونے سے روکا جاسکے۔ اسی طرح اسکولوں، ہسپتالوں اور دفاتر میں ہوا کے گھماؤ کے نظام کو محدود تر بنانے، نئے فلٹروں کی تنصیب اور الٹراوائلٹ روشنیوں کی ضرورت پیش آئے گی تاکہ وائرس کا قلع قمع کیا جاسکے۔

ڈونلڈ مِلٹن اور ان کے ساتھیوں نے عالمی ادارہ صحت کی مشکلات، کم بجٹ اور دباؤ کا اعتراف تو کیا لیکن یہ بھی کہا ہے کہ بالخصوص وہاں وبائیات کے ماہرین بہت سخت رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں اور اگر ان کےبیان کے خلاف کوئی فکر سامنے آتی ہے تو وہ غور کئے بغیر اسے مسترد کردیتے ہیں۔

لیکن اگر یہ بات درست ثابت ہوتی ہے تو وائرس سے بچنے کے نت نئے طریقہ کار اختیار کرنا ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔