عمران حکومت اور عید

ظہیر اختر بیدری  منگل 7 جولائی 2020
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

آج کل مظلوم اپوزیشن اس قدر بے قرار ہے کہ مائنس عمران کا ورد کر رہی ہے لیکن مائنس عمران کے  بجائے بات مائنس اپوزیشن کی ہو رہی ہے۔ ہماری محترم اپوزیشن یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ جب تک حکمران کو عوام کی حمایت حاصل ہے ،کوئی حکمران مائنس نہیں ہو سکتا۔ میں بعض وقت حیران رہ جاتا ہوں کہ عمران کے خلاف جتنا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے وہ اور مضبوط اور عوام میں مقبول ہو رہا ہے۔ چینی، آٹا، پٹرول وغیرہ کی ذخیرہ اندوزی کرکے دیکھ لی، بات بنی نہیں اب کچھ نہ سوجھا تو مائنس عمران کا سُر چھیڑ دیا گیا ہے۔

اس سُر سے عوام بہت محظوظ ہو رہے ہیں۔ بے چاری اپوزیشن ہر طرف سے مایوس ہوکر مائنس عمران کے نعرے بلند کر رہی ہے۔اپوزیشن غالباً یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اتنی بار حکومت میں آکر کل کا حکمران ایلیٹ آج اپوزیشن میں بیٹھنے کو اپنی توہین سمجھ رہا ہے، یہ ذہنیت صرف ایلیٹ کی ہی ہوسکتی ہے کہ ہماری محترم ایلیٹ اقتدار کو اپنی ایلیٹ سمجھ رہی ہے، اپوزیشن کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ پچاسوں طریقے اختیار کرنے کے باوجود عمران آج بھی وزیر اعظم ہے، ہماری اشرافیہ کو یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہے کہ عمران حکومت لندن امریکا فرانس وغیرہ کے تفریحی دورے کرنے کی بجائے عوام کی خدمت کر رہی ہے، عوام کے مسائل حل کر رہی ہے۔

اس حوالے سے ایک اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ ایلیٹ کا راج رہا ہے۔ ہماری تاریخ میں پہلی بار ایک مڈل کلاسر وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہی نہیں ہوا بلکہ عوام کو سہولتیں پہنچانے کے علاوہ خارجہ پالیسی میں اس قدر بھرپور پیش رفت کر رہا ہے کہ اس مختصر عرصے میں بڑے ملکوں کے ساتھ چھوٹے ملکوں سے بھی قابل تعریف دوستی کے رشتوں میں بندھ گیا ہے اور عالمی مالی اداروںکے علاوہ دوسرے ملک بھی کورونا سے نمٹنے کے لیے بھاری امداد دے رہے ہیں۔

عمران خان کی اس کامیاب خارجہ پالیسی کی وجہ پاکستان کو غیر معمولی فائدے ہو رہے ہیں جس کا احساس عوام کو ہے۔لیکن سازشی ایلیٹ عمران حکومت کو بدنام کرنے کے لیے کبھی چینی کے دام بڑھا دیتی ہے، کبھی پٹرول کے کبھی گیس کے لیکن عوام ان زیادتیوں کو اس لیے برداشت کر رہے ہیں کہ عمران کو عوام کرپٹ نہیں ایک ایماندار آدمی سمجھتے ہیں۔ اپوزیشن کی بدقسمتی یہ ہے کہ شدید پروپیگنڈا اور سازشوں کے باوجود عمران خان بطور وزیر اعظم مضبوط بھی ہے مقبول بھی ہے۔ اس قسم کے مواقع ہماری اپوزیشن کو نہیں مل رہے ہیں۔ اس کی کرپشن کرنے میں لگا دیا۔

ترقیاتی کام رک گئے ہیں ،حکومت کا سارا وقت کورونا کے خاتمے کی تدبیروں میں گزر رہا ہے، کہا جاتا ہے ہمارا ملک اسلامی ہے جس کا تجربہ عیدین پر ہوتا ہے۔ رمضان اور عیدالفطر کے دوران تاجروں نے جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا وہ قابلشرم  تھا کہ اس اسلامی ملک سے رمضانی مہنگائی کے حوالے سے ہندو ملک بھارت میں تاجر رضاکارانہ طور پر اشیا ضرورت رمضان میں سستی کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تاجر طبقہ عیدین کو کمائی کے مہینے کہتا ہے، اس سے عام غریب طبقات کی عید کی خوشیاں ملیا میٹ ہو جاتی ہیں۔

اس وقت پاکستان میں ایک مڈل کلاسر حکومت قائم ہے۔ عوام کی یہ توقع کسی حوالے سے بھی بے جا نہ تھی کہ تاجر طبقہ عیدین اور رمضان میں کم ازکم مہنگائی سے باز رہے لیکن یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ رمضان میں اشیا صرف خصوصاً پھلوں کے دام آسمان سے باتیں کرتے ہیں۔ ہر ملک کی طرح ہمارے ملک میں بھی ایک  پرائس کنٹرول کمیشن موجود ہے لیکن یہ مہنگائی سے آنکھیں بند کرلیتا ہے۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ رمضان جیسے مقدس مہینے میں مہنگائی کو آسمان پر لے جا کر تاجر برادری انتہائی بے حسی کا مظاہرہ کرتی ہے۔

بقر عید سر پر کھڑی ہے اور ہمیشہ کی طرح مہنگائی کو کورونا نے بریک لگا دیا ہے لیکن  دیکھئے گا، ہر طرف مہنگائی کا شور ہوگا اور حکومت کچھ بھی نہیں کرپائے گی۔ ہمارا خیال ہے کہ کورونا کی وجہ اس سال قربانی مشکل نظر آتی ہے۔ کیونکہ یہ افواہ گردش میں ہے کہ کورونا جانوروں سے انسانوں میں آتا اور پھیلتا ہے جس کی روک تھام بڑی مشکل ہے۔ اپوزیشن بے معنی ایشوز پر بیان بازی کے بجائے گائے بکروں کی بڑھی ہوئی قیمتوں کے خلاف بھرپور مہم چلائیں تو عوام کی ہمدردیاں اپوزیشن کے ساتھ ہو سکتی ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ کورونا ہو یا نہ ہو گائے، بیل، بھیڑ، بکری کی قیمتوں میں اتنا اضافہ ہوجاتا ہے کہ عام غریب آدمی قربانی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ رمضان کا سارا مہینہ آسمان کو پہنچی مہنگائی میں گزر گیا۔ عید قرباں ویسے عام دنوں یعنی کورونا کے بغیر بھی جانوروں کی قیمتوں کو آسمان پر پہنچا دیتے ہیں اس بار امکان یہ لگ رہا ہے کہ کورونا کی وجہ سے باہر سے جانور بہت کم آئیں گے اور ہر حال میں مہنگائی لازمی ہوگی البتہ امرا کے لیے مہنگائی کوئی معنی نہیں رکھتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔