- کہوٹہ؛ بس میں ڈکیتی کے دوران ڈاکو کی فائرنگ سے سرکاری اہلکار جاں بحق
- نوجوان نسل قوم کا سرمایہ
- اسلام آباد میں روٹی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفکیشن معطل
- کیا رضوان آئرلینڈ کیخلاف سیریز میں اسکواڈ کا حصہ ہوں گے؟ بابر نے بتادیا
- ویمنز کوالیفائر؛ آئی سی سی نے ثنامیر کو برانڈ ایمبیسڈر مقرر کردیا
- پی او بی ٹرسٹ عالمی سطح پر ساڑھے 3لاکھ افراد کی بینائی ضائع ہونے سے بچا چکا ہے
- ایف بی آر نے ایک آئی ٹی کمپنی کی ٹیکس ہیرا پھیری کا سراغ لگا لیا
- سیاسی نظریات کی نشان دہی کرنے والا اے آئی الگوردم
- خاتون ڈاکٹرز سے علاج کرانے والی خواتین میں موت کا خطرہ کم ہوتا ہے، تحقیق
- برطانیہ میں ایک فلیٹ اپنے انوکھے ڈیزائن کی وجہ سے وائرل
- فیصل واوڈا نے عدالتی نظام پر اہم سوالات اٹھا دیئے
- پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط 29 اپریل تک ملنے کا امکان
- امریکی اکیڈمی آف نیورولوجی نے پاکستانی پروفیسر کو ایڈووکیٹ آف دی ایئر ایوارڈ سے نواز دیا
- کوہلو میں خراب سیکیورٹی کے باعث ری پولنگ نہیں ہوسکی
- 9 ماہ کے دوران 9.8 ارب ڈالر کا قرض ملا، وزارت اقتصادی امور ڈویژن
- نارووال: بارات میں موبائل فونز سمیت قیمتی تحائف کی بارش
- کراچی کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
- کوئٹہ: برلن بڈی بیئر چوری کے خدشے کے پیش نظر متبادل جگہ منتقل
- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
آن لائن کلاسوں نے واقعی ہماری مدد نہیں کی ہے
کورونا کے باعث ہونے والے لاک ڈاؤن کے دوران ہم نے ’آن لائن‘ کلاسوں کا جو تجربہ کیا، وہ اتنا اطمینان بخش نہیں تھا، جتنی مجھے توقع تھی۔
کلاسوں کے لیے استعمال ہونے والے مختلف پلیٹ فارم جو مختلف ایپس کی صورت میں تھے، سب ہی اساتذہ نے اپنی سہولت کے مطابق اختیار کیے، یہاں تک کہ ہمیں ’وٹس ایپ‘ پر کچھ کلاسیں لینے کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے اساتذہ دوسری ’ایپس‘ وغیرہ سے ناواقف تھے، جو انسٹی ٹیوٹ کے ذریعہ کلاسیں چلانے کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔
اگرچہ ہمارے پاس ہماری باقاعدہ کلاسوں کے اوقات کار تھے، لیکن ہمارے معمولات اب بھی کافی پریشان کن تھے، کیوں کہ کچھ اساتذہ یا تو آخری لمحات میں کلاس منسوخ کر دیتے تھے یا اپنی کلاس کے اوقات کو تبدیل کر دیتے، جس سے ظاہر ہے کہ ہمارا شیڈیول شدید متاثر ہوتا۔
مجھے لگتا ہے کہ ہمارے پاس زیادہ تر عملی کام ہوتے ہیں، جس کے لیے انسٹی ٹیوٹ میں کلاسیں لینا بہتر ہے، تاکہ ہم اچھی طرح سے اپنے نصاب کو سیکھ سکیں اور اپنا کام بھی کر سکیں۔ یہاں تک کہ اگر میں یہ کہوں کہ میں اس ’آن لائن‘ کلاسوں کے کام کر سکتی ہوں ، تب بھی مجھے اپنے کچھ کاموں کو مکمل کرنے کے لیے یونیورسٹی جانا پڑے گا۔ اس لاک ڈاؤن اور ’آن لائن‘ کلاسوں نے میرے گریڈز کو بھی متاثر کیا ہے، کیوں کہ ظاہر ہے کہ میں عملی چیزیں کرنے کے قابل نہیں تھی۔
میرا اندازہ ہے کہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کا تعلق کس شعبے سے ہے، کیوں کہ بہت سے مضامین کے بارے میں ہم ’آن لائن‘ سیکھ سکتے ہیں۔ بہت سے کورس عام دنوں میں بھی آن لائن کرائے جاتے رہے ہیں، یہاں تک کہ میرے کچھ ہم جماعت آن لائن کورس بھی لیتے رہے ہیں، لیکن ہر چیز کو آن لائن کلاس میں بالکل ٹھیک طرح سے نہیں پڑھایا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ طلبا نے ’آن لائن‘ کلاسوں کو زیادہ پر سکون محسوس کیا ہو، کیوں کہ ظاہر ہے کہ اس سے ہمیں صبح چھے بجے اٹھنے اور ایک گھنٹے کا انسٹی ٹیوٹ کا سفر کرنے کی بچت ہوتی ہے، لیکن اس کے بدلے میں ہم پر بہت سارے اسائنمنٹس کا بوجھ بھی پڑا ہے، جیسے ہم کسی طرح کی چھٹیوں پر ہیں، کچھ اور کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
میں ایمان داری سے کہہ سکتی ہوں کہ لاک ڈاؤن کے بعد سے ایک دن بھی نہیں ہوا، جب ہم اسائنمنٹ کے بوجھ سے آزاد ہوئے ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ ان آن لائن کلاسوں نے ہمیں سیمسٹر ضایع کرنے سے بچایا ہو، لیکن اس نے واقعی ہماری مدد نہیں کی ہے۔ طلبا کو بہت سارے مسائل درپیش تھے، جن میں سے ایک سب سے بڑا مسئلہ بجلی اور انٹرنیٹ کنکشن کا تھا۔ کچھ اساتذہ نے ہمارے ساتھ تعاون کرنے کے بہ جائے ہمیں بتایا کہ مناسب انٹرنیٹ کنکشن حاصل کریں، گویا وہ ہمارے بل ادا کرنے والے ہیں۔۔۔
مجھے یقین ہے کہ چوں کہ یہ ہماری پہلی بار مکمل طور پر ’آن لائن‘ کلاسیں تھیں، اس لیے اساتذہ گریڈنگ میں زیادہ تعاون کرسکتے تھے جیسے کچھ نے کیا بھی جن کی میں شکر گزار ہوں۔ میرا خیال ہے کہ میں ’آن لائن‘ سیمسٹرکو اس لیے ترجیح نہیںدوں گی کہ نہ صرف اس کی وجہ سے ہماری تعلیم متاثر ہوتی ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ اساتذہ ہمیں بہت زیادہ اسائنمنٹس کے ساتھ لوڈ کرنا شروع کر دیتے ہیں، جس کو سنبھالنا مشکل ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔