مودی جی کی جے

خرم علی راؤ  بدھ 8 جولائی 2020
میٹنگ کے تمام شرکا مودی جی کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

میٹنگ کے تمام شرکا مودی جی کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اس خفیہ اجلاس میں شرکت کےلیے چہرے پر ذرا بھی ہراس نہیں لیے، سکھ و شانتی کا مجسمہ اور متانت کا پیکر بنے مودی جی ہال میں داخل ہوئے تو سب کے سب احترام میں یا پھر شرما حضوری میں کھڑے ہوگئے۔ یہ بڑی قومی اہمیت کی حامل میٹنگ تھی اور یہ ایک ہمسایہ ملک کی جارحانہ در اندازی کا بھرپور جواب دینے کی حکمت عملی کے بارے میں سوچنے کےلیے منعقد کی جارہی تھی۔ ساری دنیا کا سوشل میڈیا اس میٹنگ کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں اور اندازے لگانے میں مصروف تھا، جبکہ عالمی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا زیادہ اہم عالمی مسائل میں مصروف رہنے کا تاثر دیتے ہوئے اس اجلاس میں بس واجبی سی ہی دلچسپی لے رہا تھا۔ میٹنگ کے تمام شرکا شیر گجرات مودی جی کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ مودی جی کے پرسکون چہرے کے پیچھے تڑپتی بجلیاں اور طوفان جیسے پھٹ پڑنے کو بے چین تھے اور پھر اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی۔

پہلے صورتحال پر مشہور بھارتی اینکر کی جانب سے بھرپور جذباتی بریفنگ دی گئی جس نے بتایا کہ کیسے مہان بھارتی سینا کے جوانوں نے دشمن کے ناگہانی حملے کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی ناتواں جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور غیرت مند مہان پرشوں کی طرح دشمن کی قید میں جاکر چائے پینے کے بجائے بھارتی سینا کی اعلیٰ تر فوجی روایات کا مظاہرہ کرتے ہوئے برفیلے دریا میں کود کر آتما ہتھیا کرنے کو ترجیح دی۔ بہادری کے اس لاجواب مظاہرے کے بیان نے حاضرین اجلاس پر سکتہ طاری کردیا اور پرائم منسٹر نے تو دو مرتبہ ٹشو پیپر سے آنکھ اور ناک میں آنے والے پانی کو جذب کیا، جسے کیمرے کی آنکھ نے بڑی عقیدت سے محفوظ کرلیا۔

مشہور ٹی وی اینکر حسب عادت زیادہ وقت لینے کے موڈ میں تھے اور نان اسٹاپ بولے ہی چلے جارہے تھے کہ انہیں حیلے بہانے سے چپ کرا کر میٹنگ کے دوسرے آئٹم پر توجہ دی گئی، جس میں نامور آئٹم گرل نے ایک مشہور گلوکارہ کے ساتھ مل کر قومی رقص و نغمہ کا ایسا لاجواب مظاہرہ پیش کیا کہ حاضرین اَش اَش کر اٹھے اور کئی مقامات پر اعضا کی شاعری کے توڑ مروڑ نے تو پردھان منتری کو بھی ہلا کر رکھ دیا اور اس کے بعد خاص طور پر گلوکارہ جی نے اکیلے سولو پرفارمنس میں دلوں کو تڑپا دینے والا درد بھرا نغمہ پیش کیا، جس میں قومی جذبات یوں ٹھونسے گئے تھے جیسے بھارتی سیاست میں بھاجپا کو ٹھونسا گیا ہے۔

پھر صلاح مشورہ شروع ہوا اور بھارت ماں کے مہان سپوتروں نے بدلہ لینے کی اپنی اپنی تجاویز بیان کرنا شروع کیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک دیش بھگت وہاں موجود تھا اور باتوں اور للکاروں کے ایسے ایسے طوطا مینا اڑائے گئے اور طومار باندھے گئے کہ کئی مرتبہ تو مودی جی بھی ہکا بکا نظر آئے۔ یہ دھما چوکڑی چلتی رہی اور بہت سے منصوبے زیر غور آئے۔ مودی جی یک ٹک کان لگائے سب کی سنتے رہے۔ ایک مشہور فلمی ہیروئن نے جب یہ تجویز پیش کی ان کے ہالی وڈ سے تعلقات کا فائدہ اٹھا کر بین الاقوامی سطح کی انگریزی فلم یا ویب سیریز بنائی جائے جس میں ہمسایہ ملک کی در اندازی کو اجاگر کیا جائے تو یہ اچھا جواب ہوگا اور بزنس بھی خوب ملے گا، تو سب نے دیکھا کہ پردھان منتری کا سر بے ساختہ اثبات میں ہل گیا۔ یعنی یہ بات مودی جی کو پسند آئی اور انہوں نے اس تجویز پر تفصیلی تبادلہ خیال کرنے کےلیے میٹنگ کے اختتام کے بعد مشہور فلمی ہیروئن کو رکنے کا حکم دیا جسے دیش کی اس بیٹی نے خوشی خوشی مان لیا۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مجھے یہ سب اتنی تفصیل سے کیسے پتہ ہے، کیونکہ یہ تو ایک خفیہ میٹنگ تھی۔ تو جناب ہم بھی سوشل میڈیا پر گہری نظر رکھتے ہیں اور یہ سب باتیں ٹکڑوں میں سوشل میڈیا کے بھارتی صارفین نے شیئر کی ہیں جنہیں مربوط کرکے پیش کیا جارہا ہے اور آپ یہ توجانتے ہی ہوں گے کہ فی زمانہ سوشل میڈیا سے زیادہ قابل اعتماد کوئی بھی میڈیا نہیں ہے۔

خیر آخر میں پردھان منتری اپنی جگہ سے کسمساتے ہوئے اٹھے۔ سب ہمہ تن گوش ہوگئے۔ ہال میں ایک سناٹا طاری ہوگیا اور اس سناٹے میں وشال پردھان منتری کی آواز بلند ہونا شروع ہوئی جو آہستہ آہستہ تیز ہوتی گئی اور تقریر کے آخر تک پہنچتے پہنچتے پردھان منتری کی بانچھیں چری ہوئی تھیں، منہ سے کف اڑ رہا تھا، چہرہ وفورِ جذبات سے سیاہی مائل سرخ ہوچکا تھا اور آواز پھٹ چکی تھی۔ انہوں نے جو کچھ کہا اس میں سے گالیاں نکال کر جو اہم نکات سامنے آئے وہ کچھ یوں ہیں کہ سب سے پہلے انہوں نے قوم سے کہا کہ گھبرانا نہیں ہے، ہمیں ایسی سمسیاؤں سے نمٹنے کا بڑا تجربہ ہے۔ ہم مہان بلکہ مہا مہان دھرتی ہیں۔ ہم اتنے بڑے ہیں کہ اگر دو چار سو کلومیٹر کا علاقہ کوئی لے بھی لے تو ہمیں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ پردھان منتری نے گلوگیر آواز میں مشہور فلمی نغمے کا ایک مصرعہ پڑھا جس کے درد کو سب نے محسوس کیا کہ ’اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں‘۔ کہنے لگے کہ ارے ہم تو انہیں بھائی سمجھتے تھے۔ میں ہر سالگرہ پر سب سے پہلے ان کے صدر کو مبارکاں کہتا تھا۔ بالی وڈ کی ہر فلم ہم وہاں بھیجتے تھے۔ بھول گئے وہ ہماری محبتیں کیسے؟ ارے پیار سے مانگتے تو ہم مزید علاقہ بھی خوشی خوشی دے دیتے لیکن بدمعاشی نہیں چلے گی۔ ہاں ہاں بدمعاشی نہیں چلے گی۔ تمام شرکا نے بھی ہم آواز ہوکر دہرایا ’نہیں چلے گی، نہیں چلے گی‘۔

پھر مودی جی نے اپنی سہ جہتی جوابی حکمت عملی کا اعلان کیا اور بالی وڈ کی مشہور امریکا پلٹ ہیروئن کی تجویز پر صاد کیا اور ایک ویب سیریز بنانے کی منظوری دی جس میں بالی وڈ کے تمام مشہورجنگی ہیروز کو ولولہ انگیز فتوحات کرتے دکھایا جانا تھا۔ حکمت عملی کے دوسرے حصے کے طور پر بھارتی سینا کو ارجنٹ بنیادوں پر قدیم فن حرب بانک اور بنوٹ کے ساتھ ساتھ دیسی کشتی کی بھی تربیت دینے کا اعلان کیا گیا تاکہ دو بدو مقابلے کی صورت میں مخالفین کے مارشل آرٹ کا بھرپور جواب دیا جاسکے۔ اور حکمت عملی کا تیسرا حصہ سب سے موثر تھا، وہ یہ تھا کہ سارے ہندوستان میں چینی کھانوں خصوصا چکن کارن سوپ کے بائیکاٹ پر سختی سے عمل کیا جائے گا، جس سے دشمن کی معیشت گھٹنوں پر آجائے گی۔ اور آخر میں پردھان منتری جی نے غصے سے یہ اعلان بھی کیا کہ وہ اب کبھی ہمسایہ ملک کے صدر کو سالگرہ کی مبارک باد نہیں دیا کریں گے۔ یہ ساری بات سن کر شرکائے اجلاس وفور عقیدت سے بے قابو ہوگئے اور بلند آواز ہوکر ایک ساتھ دھاڑے کہ مودی جی کی جے!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

خرم علی راؤ

خرم علی راؤ

بلاگر استاد ہیں جبکہ شارٹ اسٹوریز، کونٹینٹ رائٹنگ، شاعری اور ترجمہ نگاری کی مہارت بھی رکھتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔