ڈاکٹروں کا درد

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 8 جولائی 2020
tauceeph@gmail.com

[email protected]

اسلام آباد کے ایک اسپتال میں جاں بحق ہونے والے ایک نوجوان لڑکے کی ماں نے ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر پر تھوکتے ہوئے الزام لگایا کہ ڈاکٹر اس کے بیٹے کی موت کا ذمے دار ہے۔ ساتھ ہی یہ کہا کہ ڈاکٹر نے مبینہ طور پر بیرون ممالک سے ڈالر لینے کے لیے اس کے بیٹے کی جان نہیں بچائی۔

بیچارہ ڈاکٹر اس عورت کے تھوکنے کے باوجود خاموش رہا۔ بعد میں اس دل گرفتہ ڈاکٹر نے ایک صحافی کو بتایا کہ جب مجھ پر الزام لگایا جارہا تھا، اس وقت میری جیب میں صرف 40 روپے تھے اور تنخواہ ملنے میں 10 دن باقی تھے،اس کے باوجود میں کورونا کے مریضوں کا علاج کررہا تھا۔

ایک اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک  ایم پی اے کا انتقال کورونا وائرس کی بناء پر ہوا۔ اس  کے بچوں کو بھی یقین ہے کہ ڈاکٹروں نے ان کے والد کو قتل کیا ہے۔ ملتان میں اسپتال کے ایک ڈاکٹر کو کورونا وائرس سے انتقال کر جانے والے ایک شخص کے بیٹے کا پیغام ملا جس میں اس نے لکھا کہ اس ڈاکٹر کو پہچانیے اور اس کے ساتھ اس نے اپنے والد کی تصویر چسپاں کی اور لکھا کہ اس ڈاکٹر کے لگائے گئے انجکشن کی بناء پر اس کے والد دنیا میں نہیں رہے۔ اگرچہ یہ رپورٹ پنجاب کے بارے میں ہے مگر پورے ملک  میں یہ پروپیگنڈہ ہورہا ہے کہ ڈاکٹرز ڈالر لینے کے لیے مریضوں کو زہر کے انجکشن لگارہے ہیں۔

فروری میں ایران سے آنے والے بعض زائرین کورونا وائرس اپنے ساتھ پاکستان میں لائے۔ لاہور میں ہونے والے تبلیغی اجتماع میں وائرس زدہ افراد نے اسے پھیلایا۔ سعودی عرب اور مختلف ممالک سے آنے والے مسافروں نے وائرس کو عام لوگوں میں منتقل کیا۔ سندھ کی حکومت نے عالمی ادارہ صحت (W.H.O) کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے Social Distance اور لاک ڈاؤن کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔

ادھرسوشل میڈیا پر ایک مہم شروع ہوگئی۔ پہلے امریکا کی وڈیوز دکھائی جانے لگی جس میں دیکھا جاسکتا تھا کہ وہاں سکون ہے اور کورونا وائرس سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ فیس بک، واٹس ایپ ، ٹویٹر اور  میسنجر پر یہ پروپیگنڈہ عام ہوا کہ یہ امریکا اور یورپ والوں کی سازش ہے۔ کورونا وائرس کچھ نہیں، لوگوں کو نہ احتیاط کرنی چاہیے نہ اسپتال جانا چاہیے۔

ایسے ماہرین سوشل میڈیا پر طلوع ہوئے جنھوں نے ثابت کیا کہ غیر ممالک اور عالمی ادارہ صحت ہر کورونا مریض کی ہلاکت پر ڈالر میں ادائیگی کرتا ہے۔ ڈاکٹر ہر مریض کو کورونا کا مریض بتادیتے ہیں۔ یہ کہانیاں بھی مشہور ہوئیں کہ کسی صاحب کے داماد کینسر کے مریض تھے، انھیں کورونا کا مریض بتادیا گیا۔ کسی کے بھائی کے بارے میں کہا گیا کہ اور کسی کی ماں کے بارے میں ایسی کہانیاں گھڑی گئیں۔

ادھر حقائق یہ تھے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی بناء پر ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل کا عملہ متاثر ہونے لگا اور ڈاکٹرز کی شرح اموات بڑھ گئی تو W.H.O نے یہ ہدایات جاری کیں کہ کسی بھی مرض کی شکایت کے ساتھ آنے والے مریض کا  پہلے کورونا ٹیسٹ کیا جائے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد ، افسران، پروفیسروں، وکلاء اور دیگر افسروں نے اس فیصلے کی غلط توجیہہ پیش کرنا شروع کردی۔ یہ لوگ سوشل میڈیا کے پرپیگنڈہ سے اتنا متاثر ہوئے کہ ان کی طرف سے بھی یہ الزام لگایا جانے لگا کہ مریضوں کا زبردستی ٹیسٹ ہوتا ہے۔

ایک طرف تو یہ پروپیگنڈا جاری رہا تو دوسری طرف پنجاب کے گورنر چوہدری سرور نے کورونا کے تدارک کے لیے ٹوٹکے بیان کرنے شروع کردیے۔ اس پروپیگنڈہ کو اس وقت تقویت ملی جب وزیر اعظم عمران خان نے فیصلہ دیا کہ کورونا ایک قسم کا فلو ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے وائرس کو روکنے کے لیے بین الاقوامی طریقہ کار کے تحت مکمل لاک ڈاؤن کے خلاف اپنا بیانیہ بیان کرنا شروع کیا۔

اگرچہ ان کی زیر نگرانی اسلام آباد کی انتظامیہ کے علاوہ تحریک انصاف کی پنجاب اورخیبر پختون خوا اور بلوچستان کی حکومتوں نے لاک ڈاؤن کے طریقہ کار پر عملدرآمد کیا مگراپنی جانیں خطرے میں ڈال کر کورونا کے مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز کے خلاف جاری مکروہ اور جاہلانہ پروپیگنڈے کے تدارک کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ اس پوری مدت میں وزیر اعظم، ان کے وفاقی وزراء، صوبائی وزراء اعلیٰ اور مشیران نے ایسی کوئی ہدایت جاری نہیں کی کہ سوشل میڈیا پر ہونے والے جھوٹے پروپیگنڈہ کے تدارک کے لیے بیانیہ مرتب  کیا جائے لہذا سرکاری طور پر کوئی بیانیہ مرتب نہیں ہوا۔

سوشل میڈیا کے طالب علموں کا کہنا ہے کہ پی ٹی اے سوشل میڈیا کی سخت نگرانی کرتی ہے۔ اگر ملک میں کوئی فرد کوئی مواد اپ لوڈ کرتا ہے تو ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو اطلاع دی جاتی ہے اور ایسے افراد دھرلیے جاتے ہیں۔ مگر سوشل میڈیا کے بیانیہ کا تجزیہ کرنے والے طالب علموں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ملک کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی بناء پر خطرناک بحران کا شکار ہے اور روزانہ اموات کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ برطانیہ کے ذرایع ابلاغ کی رپورٹوں میں الزام لگایا گیا ہے کہ برطانیہ میں اس وائرس کے پھیلنے کی 50 فیصد ذمے دار پاکستانی شہری ہیں جو پاکستان سے آئے۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ کورونا کے مریضوں کی تعداد کم ہورہی ہے۔ ڈاکٹروں کی تنظیم پی ایم اے کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد کہتے ہیں کہ کورونا کے کیسز کم ہونے کی وجہ ٹیسٹوں میں کمی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کے مشورے پر عمل ہونا چاہیے ورنہ اموات بڑھ جائیں گی۔ 70 سے زائد ڈاکٹر اور دیگر عملہ اس لڑائی میں شہید ہوچکے ہیں مگر اس وائرس کا مقابلہ کرنے والے ڈاکٹروں کے خلاف مذموم پروپیگنڈہ کرنے والے عناصر کو روکنے کے لیے کوئی ایجنسی متحرک نہیں ہورہی۔

وزیر اعظم عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کی پالیسیوں کا تجربہ کرنے والے دانشوروں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے متعلق سوشل میڈیا پر ہونے والا پروپیگنڈہ اس حکومت کی پالیسی کے نزدیک ہے۔ ان دانشوروں کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر ہونے والا پروپیگنڈہ انتہا پسندوں کے خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔ ان عناصر نے کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے نافذ کیے جانے والے S.O.Ps کو تسلیم نہیں کیا اور لوگوں کو بھی مشورہ دیا گیا کہ وہ ان S.O.Ps پر عمل نہ کریں۔ حکومت نے ان عناصر کے بیانیہ کو کبھی مسترد نہیں کیا۔

جنرل ضیاء الحق کے دور سے ملک میں ایسے بیانیہ کی ترویج کی گئی جس نے مذہبی انتہاپسندی کو تقویت دی اور سائنسی طرز فکر کو نقصان پہنچایا ۔ اس غیر سائنسی طرز فکر کے پھیلاؤ کے باعث پاکستانی معاشرہ گزشتہ 30 برسوں میں مختلف نوعیت کے تضادات کا شکار ہوا اور دنیا میں  پاکستان کا امیج متاثر ہوا۔ اس صدی کے آغاز پر یہ کوشش شروع ہوئی تھی کہ انتہاپسند قوتوں کی حوصلہ شکنی کی جائے تاکہ پاکستان کا امیج بہتر ہو مگر شاید طاقتور حلقوں کو یہ قبول نہیں تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ انتہاپسند سوچ کی سرپرستی اب بھی جاری ہے۔

یوں غیر سائنسی ذہن پھر تقویت پانے لگا مگر شاید کسی نے بھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ یہ غیر سائنسی ذہن ایک دن ہمارے ڈاکٹروں کا بھی دشمن ہوجائے گا۔ ایک خطرناک مرض کے تدارک کے لیے مسلمہ اقدامات کے خلاف مزاحمت۔ انتہاپسند قوتوں کی سرپرستی کرنے والوں کو کورونا وائرس کے بعد سے پیدا ہونے والی صورتحال پر غور کرنا چاہیے اور کورونا کے خلاف لڑنے والے ڈاکٹرز کا درد بھی محسوس کرنا چاہیے، ورنہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ اس ملک میں ڈاکٹرز اپنا پروفیشن ترک کردیں گے اور مریضوں کا علاج کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔