سیّدنا بلال ؓ… تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 8 جولائی 2020
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

آپ بیتی  (آخری قسط)

’’اب مدینہ میں وہ ریاست وجود میں آگئی تھی، جسے قریشِ مکّہ مٹانے کے درپے تھے ۔اور پھر ان کے ساتھ پہلا معر کہ ہوا، بدر کے مقا م پر۔ آقا ؐ نے اس میں فوج کی رسد رسانی کا کام مجھے سونپا، میں کہہ سکتا ہوں کہ کوئی مسلمان بدر میں خالی پیٹ نہیں رہا۔ اس جنگ میں میں نے ایک شخص کو قتل کیا، وہ امیر تھا، میرا سابق آقااُمیّہ، جس نے مجھے کوڑے مار مار کر موت کے منہ تک پہنچادیا تھا‘‘

’’مکّہ سے ہجرت کے آٹھ سال بعدحضرت محمدﷺ فاتح کے طور پر اپنے شہر واپس آئے۔ شہر نے بغیر کسی لڑائی کے ہتھیار ڈال دیے۔ جب کعبہ کو بتوں سے پاک کر دیا گیا تب آقاؐ نے مجھے حکم دیا ’’کہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دو‘‘۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میں اُس پر چڑھ سکتا ہوں کعبہ کی اطراف بالکل سیدھی ہیں، محض دیواریں اور ان پر لٹکا ہوا کالا پردہ ، جو پرانا ہونے کی باعث گھِس کر کمزور ہو گیا تھا۔ لیکن  اُس وقت اگر آقا ؐ مجھے اڑنے کا حکم دیتے تو میں وہ بھی کر گزرتا۔ جس طرح میری اذان سے حضورﷺ کے بقول مدینہ کی مسجد مکمل ہوئی اسی طرح اب میری اذان طہارتِ کعبہ کے عمل کو مکمل کرنے والی تھی۔ میں چھت پر چڑھا تو نیچے مکّمل خاموشی تھی، ایک جمّ ِ غفیر تھا ۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھا وہ بھی اپنی سانس روکے ہوئے تھا،پوری کائنات کعبہ کی طرف دیکھ رہی تھی، اُس روز میں نے ایسی اذان دی کہ پہاڑیاں گونج اُٹھیں۔ میں نے پیغمبرﷺکو دیکھا، وہ اُونٹنی پر بیٹھے تھے، ان کا سر جھکا ہوا تھا،آپ ؐ کے قریب ہی ابو بکر ؓ، عمر ؓ، علیؓ اور ابوذر ؓ تھے اور ان کے چاروں طرف ہزار ہا مرد اور عورتیں تھیں جن کی جنگیں اب عبادتوں میں تبدیل ہو گئی تھیں ‘‘۔

’’ اور پھر صرف دو سال بعد آقاؐ کے وصال کا وقت آگیا۔ اُس روز میں نے حسبِ معمول آقا ؐ کو جگایا ، حضور ؐ باہر آئے مگر آہستگی کے ساتھ۔ آپ ؐ نے سر کے درد کی شکایت کی اور مجھ سے پیشانی پر ہاتھ رکھنے کو کہا۔ میں نے ہاتھ رکھا اور بخار محسوس کیا۔ میں نے آقاؐ سے دوبارہ بستر پر لیٹ جانے کی درخواست کی مگر آپ ؐ نے مسجد جانے پر اصرار کیا۔ جاتے ہوئے آپ ؐ نے اپنے بازو، میرے بازو میں دے دیے کیونکہ آپؐ آسانی سے چل نہ سکتے تھے۔ یکایک آپ ؐ رک گئے’’تمہیں یاد ہے بلال جب ہم پہلی بار ملے تھے۔ ہم اسی طرح چل رہے تھے مگر تب میں نے تمہیں تھاما ہوا تھا‘‘ ۔ ’’ میں آنسو ضبط نہ کر سکا، بائیس سال کی رفاقت میںیہ خوشی کا آخری دن  تھاجو میں نے آقا ؐ کے ساتھ گزارا ، اس روز کے بعد حضورﷺ کا بخار بڑھتا رہا، پانچویں دن( حضرت) عائشہ ؓ نے دروازہ کھولا ، مجھے ایک ڈول تھمایا اور ٹھنڈا پانی لانے کو کہا، میںدوڑنے لگا ، دوڑتا چلا گیا۔ بہت سے کنوؤں سے گُذر کر نخلستان کے سب سے گہرے اور ٹھنڈے کنویں پر گیا۔ وہاں سے پانی لے کر جلدی جلدی واپس آیا اور ڈول درِ آقا ؐ پر پہنچا کر دوڑتا ہوا مسجد پہنچا کیونکہ میں جانتا تھا کہ آقاؐ نے صبح کی اذان نہ سنی توافسردہ ہوں گے۔ میں اذان دے چکا تو پھر دروازے پر گیا۔ حضرت عائشہ ؓ نے دروازہ کھولا ،آپؐ کی طبیعت کچھ بہتر تھی۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا پیغمبرِؐ خدا نے مجھ سے تمہیں یہ بتانے کو کہا ہے کہ ’’تم نے ایسی اذان پہلے کبھی نہیں دی‘‘۔ پھر دو دن تک حضورؐ کی طبیعت بحال نہ ہوئی۔ میں سات کنوؤں سے پانی لاتا رہا کہ شاید کسی ایک پانی میں وہ شفاء ہو جو دوسروں میں نہیں۔

آٹھویں دن یک بیک تبدیلی واقع ہوئی۔ آپ ؐ نے خود دروازہ کھولا اورباہر تشریف لائے ۔ آپؐ  کے سر پر ایک سفید پٹی بندھی ہوئی تھی ، ایک ہاتھ علی ؓ کے شانوں پر اور دوسرا فضل ابن عباسؓ کے شانوں پر رکھ کر مسجد تک گئے اور اُحد کے شہیدوں کے لیے دعا کی۔ اسی رات جب اندھیرا زیادہ ہوا تو حضورؐ قبرستان میں گئے، علی ؓ اور میں پیچھے پیچھے تھے، وہاں سے آپؐ  گھر واپس آئے تو حضرت عائشہؓ سے پوچھا، گھر میں کتنی رقم ہے ؟ کل سات دینار تھے۔ فرمایا آج رات انھیں حاجت مندوں کو دے دو۔ اپنے پاس یہ رقم رکھ کر میں اپنے رب سے کیسے ملاقات کرونگا؟ اس کے بعد صرف ایک بار آقا ؐ مسجد میں تشریف لائے، بیماری کی علامات غائب تھیں۔ میں نے آقا ؐکو اتنا خوبصورت پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ آپ ؐ کا چہرہ جگمگا رہا تھا۔ آپؐ نے سب کو نصیحت کی کہ  ’’قرآن سے محبّت کرو، وہ خدا کا کلام ہے اور راہنمائی کی روشن کتاب‘‘ اور پھر اگلے روز ربّ ِ ذوالجلال نے اپنے آخری نبیﷺ کی روح کو نہایت محبّت اورکرم سے اپنی رحمتوں کے سائے میں واپس بلا لیا۔ ابوبکر ؓ  حجرۂ رسالت کے اندر گئے، چہرۂ انور کو دیکھا ، پیشانی کو بوسہ دیا اورچہرے پر چادر کھینچ دی۔عمر ؓحالتِ جنو ن میںلگ رہے تھے، ان کے بال کھڑے ہو گئے تھے، ان کا دکھ حقیقت سے لڑ رہا تھا۔ ابوبکر ؓ نے حقیقت سمجھائی تو عمرؓ غم کے مارے فرش پر گر گئے ، ان کے رونے سے ان کا بھاری جسم بری طرح کانپ رہا تھا۔ زیادہ تر صحابیوںؓ پر سکتہ طاری تھا‘‘۔

’’آقاؐ کے بعد میں نے کبھی اذان نہیں دی، میرے پاؤں مجھے کبھی اوپر نہیں لے جا سکے۔ ایک روز علی ؓ اور ابوبکر ؓ نے مجھے چڑھنے میں مدد دی، اذان شروع کی تو پہلے الفاظ کے بعد ہی قابو میں نہ رہا۔ میرا دکھ مجھے روکتا تھا۔ میں چھت پر کھڑا ہو کر آقاؐ کو ڈھونڈتا تھا۔ آقاؐ نظر نہ آئے تو میں آپ ؐ کا مقدس نام محمدؐ پورا ادا نہ کر سکا۔ چار بار پھر سے شروعات کی۔ ہر بار سسکیاں لیتا اور چھوڑ دیتا، آخرکارا نہیں مجھ پر رحم آگیا اور انھوں نے مجھے نیچے اتار لیا‘‘۔ اب مدینہ میں میرا دل نہیں لگتا تھا، اور میں دمشق چلا آیا‘‘۔

راقم دمشق میں محبوب ِؐ خدا کے محبوب صحابی اور مؤذنِ اسلام کی قبرِ پر نور پر کھڑا دعا مانگ رہا تھاتو اُن کیؓ اپنی زبانی سنائے ہوئے واقعات ذہن میں گھوم رہے تھے اور آنکھوں سے آنسو رواںتھے۔ بعد از دعا مزار سے نکلا تو ممتاز دانشور اور مصنّف جناب جمیل یوسف یاد آئے، کئی سال پہلے سیدنا بلال ؓ کی آپ بیتی پر ایک خوبصورت کتاب انھوں نے مجھے تحفتََا دی تھی۔ سیّدنا بلال ؓ کی آپ بیتی کو کسی موّرخ نے عربی اور فرانسیسی میں ڈھالا تھا،اصل کتاب فرانسیسی میں تھی جس کا ڈاکٹر نذیر احمد ( سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور) نے اردو میں ترجمہ کیا تھا۔

مؤرخ لکھتے ہیں کہ آقائے دو جہاںﷺ کے وصال کے بعد حضور ؐ کے عشق میں مستغرق بلال ؓ  مغموم اور دل گرفتہ رہنے لگے، اب مدینہ میں ان کے دل کو قرار نہیں آتا تھالہذاء وہ مدینہ چھوڑ کر دمشق چلے گئے۔ محبوبؐ کی جدائی کے رنج و غم نے بلال ؓ کو خاموش کر دیا تھا،کئی سالوں کے وقفے کے بعد انھوں نے صرف دو مواقع پر اذان دی، ایک بار جب یروشلم فتح ہوا تو عوام کے اصرار اور حضرت عمر فاروق  ؓ کی خواہش پر انھوں نے بیت المقدّس میں اذان دی۔

اور پھر کچھ سالوں بعد دلِ مضطرب زیادہ بیقرار ہوا تو مرقدِ نبی کریمﷺ کی زیارت کے لیے مدینہ آئے۔ وہیں انھیں نبی کریم ؐ کے نواسے حسن ؓ اور حسین ؓ  مل گئے۔ دونوں بھائیوں نے اُن سے اذان دینے کی درخواست کی تو انھوں نے معذرت کی۔ پھر حسنینؓ نے صرف ایک بار (آخری بار) اذان دینے کی فرمائش کی تو انکار نہ کر سکے۔ کئی سالوں بعد مدینہ میں اذانِ بلال ؓ  گونجی تو مدینہ کے لوگوں نے آقا ؐ کے محبوب موذن کی آواز پہچان لی، منٹوں میں مدینے کی گلیاں مردوں اور عورتوں سے بھر گئیں، نبی کریمﷺ کا نورانی دور یاد آگیا اور لوگوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ندیاں رواں ہوگئیں۔ اُدھر بلال ؓ جب اَ  شھد اَنَّ محمّدؐ۔۔۔ پر آئے تو آقاؐ کا نام مکمّل نہ کر سکے ۔ اور قبرِرسالت مآب ؐ پر نظر پڑی تو غش کھا کر گر پڑے ،مدینۃالنبیﷺ کی گلیاںلوگوں کی گریہ و زاری سے گونجنے لگیں۔

کروڑوں رحمتیں نازل ہوں سیّدنا بلالؓ پر جو حضورؐ کے سچّے عاشق بھی تھے اور خادم بھی۔ علّامہ اقبال ؒحضرت بلال ؓ کی شان میں عقیدت کے پھول لے کر حاضر ہیں:

؎ چمک اٹھا جو ستارہ ترے مقدّر کا

حبش سے تجھ کو اٹھا کر حجاز میں لایا

ہوئی اُسی سے ترے غمکدے کی آبادی

تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی

سیّدنا بلال ؓ کی شان میں کئی شعر کہہ چکے تو خود اقبالؒ کو اُس مبارک وقت کے تصوّر نے اپنی گرفت میں لے لیا کہ جب ہر شخص سرور کائنات ؐ کا دیدار کر سکتا تھا۔ پھر اقبال ؒ برکتوں اور رحمتوں کے اِس دور ِسعید کو بڑی حسرت سے یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں

؎خوشا وہ وقت کہ یثرب مقام تھا اُسکا ؐ

خوشاوہ دور کہ دیدارِ عام تھا اُسکاؐ

خوشاوہ دور کہ دیدارِ عام تھا اُسکاؐ ، خوشاوہ دور کہ دیدارِ عام تھا اُسکاؐ ۔ کتنا مبارک دور تھا وہ ۔ کس قدر روح پرور اور با برکت وقت تھا جب آقائے دو جہاںﷺ کا دیدار کیا جا سکتا تھا۔ خوشا وہ دور کہ دیدار عام تھا اُسﷺ کا۔۔۔۔۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔