پَب جی... بند جی!

منصور ریاض  جمعـء 10 جولائی 2020
اگر پب جی سے واقعی کوئی خطرہ ہے بھی تو اس پر پابندی لگادینا شترمرغ کی طرح ریت میں سر دبانا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اگر پب جی سے واقعی کوئی خطرہ ہے بھی تو اس پر پابندی لگادینا شترمرغ کی طرح ریت میں سر دبانا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

لیجیے! اب ویڈیو گیم ’’پب جی‘‘ پر بھی پابندی لگ گئی۔ خیر، اب مملکت خداداد میں سوچ سے لے کر لکھنے پڑھنے اور تخلیق سے لے کر عملی میدان تک جگہ جگہ پابندیاں ہی پابندیاں ہیں۔ انٹرنیٹ اور سوشل نیٹ ورکنگ کی ہر دَم پھیلتی دنیا میں پہلے تو ’کھلا کھاتہ‘ تھا، مگر اب بڑوں اور خاص کر بڑوں کے بھی بڑوں کو جب سے ’کچھ‘ سمجھ میں آیا ہے تو والدین سے لے کر ٹیچر اور حکومت سے لے کر اسٹیبلشمنٹ تک، سب سر جوڑ کر ’ورچوئل (مجازی)‘ دنیا کو کڑیاں ڈالنے میں مصروف ہوتے ہیں۔

کہا جارہا ہے کہ ان جیسے گیمز، خاص کر پب جی نے بچوں کو اپنا ایسا عادی بنادیا ہے کہ انہیں دین کا ہوش ہے نہ دنیا کی خبر۔ پب جی جال کی طرح دل و دماغ کو الجھاتا ہے، جس سے باہر نکلنا ممکن نہیں۔ مشن مکمل ہو کر بھی کبھی مکمل نہیں ہوتا یعنی مشن امپاسیبل!

ایسے میں خاص کر تین چار ایسے کیس رپورٹ ہوئے ہیں جن میں ٹین ایجرز نے مبینہ طور پر پب جی کی وجہ سے خودکشیاں کیں۔ اِن میں ایسے بھی کیس ہیں کہ بچوں نے پب جی کا ’ٹیکہ‘ نہ ملنے پر یہ انتہائی قدم اٹھایا تو پابندی کی صورت میں کیا یہ خطرہ بڑھ نہیں جائے گا؟

ایسے وقت میں جب باہر کورونا کی پرچھائیں، اور تعلیمی اداروں میں سائیں سائیں ہے، تو ایسے میں لڑکیاں گھر بیٹھے بیکنگ، بیوٹی، کپڑوں کے نت نئے فیشن کو ٹِک اور دوستوں کو ٹاک کرکے جی بہلا لیتی ہیں۔ لڑکے اپنی ’جنگجویانہ‘ صفات کو آپس کے پھڈوں اور بائیکس کی سواریوں سے ایڈونچر گیمز کی ’ٹاسکوں‘ پر منتقل کرچکے ہیں۔ گھر میں بھی بہنوں اور چھوٹے بھائیوں کی سر پھٹول کب تک ہو، جب کہ اتھارٹی خاص کر گھر کی حد تک تو مظلوم کے ساتھ ہوتی ہے۔ تو پب جی ایسے موقع پر بہترین دلجوئی ہے۔ ٹیم بنانے کی بدولت دوست بھی ساتھ ہیں۔ جنگ کےلیے مخالف پارٹی بھی، ہتھیار بھی ہیں، چیلنج بھی ہے اور کمند ڈالنے یعنی ٹانگیں پھیلانے کےلیے گھر کے صوفے بھی۔

پِب جی اور ان ویڈیو گیمز کا شمار ذہنی کھیلوں میں ہوتا ہے جو فٹ بال، کرکٹ کے برعکس بیٹھے ہوئے، لیٹے ہوئے، حتیٰ کہ سوتے ہوئے بھی کھیلے جاسکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی سے پہلے لوگ صرف شطرنج، تاش اور لوڈو وغیرہ سے ذہنی بالیدگی کا سامان کیا کرتے تھے۔ شطرنج اور تاش خاص لوگوں اور خاص مواقعوں کےلیے تھی۔ شطرنج کےلیے مزاج شاہانہ اور صبر ٹیسٹ میچ والا؛ تاش کےلیے مزاج عاشقانہ اور طبیعت میچ فکسنگ والی؛ جبکہ لوڈو نہ صرف گھر گھر کا کھیل بلکہ خاندان کے میل ملاپ کا بہت بڑا ذریعہ بھی۔ دادا دادی، اماں ابا، بہن بھائی، دوست ’شریکی‘، پردے دار کزنز، سب لوڈو کی سرکار میں پہنچ کر ایک ہوجاتے تھے۔ کھیل کی حد تک لوڈو قسمت، چالبازی، شراکت، بے ایمانی، تن آسانی کا حسین امتزاج تھی؛ اور سب سے بڑھ کر کسی وقت بھی پاکستان میں جمہوری حکومت کی طرح آسانی سے الٹائی جاسکتی تھی۔

الیکٹرونک گیمز کی دنیا اب تو لامتناہی ہے۔ لیکن کوئی ایک گیم سب سے مقبول ہوتا ہے، جیسے آج کل پب جی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ گرچہ پہلے کی نسبت اب کسی بھی گیم کا دور بہت تیز اور مختصر ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کال آف ورلڈ، ٹیکن، کاؤنٹر اسٹرائیک، فائنل فینٹسی اور خاص کر اسٹریٹ فائٹر ’ہیرو‘ گیم تھے۔ اسٹریٹ فائٹر تو خیر ان گیمز کا جد امجد تھا، جو کئی سال بچوں اور لڑکوں کے دل و دِماغ پر چھایا رہا۔

ہر دور کے بچے اپنے بڑوں سے چھپ چھپا کر اپنے شوق پورے کرتے آئے ہیں۔ آج کے بڑے، اپنے بچپن میں ویڈیو گیمز کی دکانوں کے شوقین تھے تو ان کے بڑے فلم بینی کے۔ سنیماؤں میں ایک تو الو بولنے لگے، دوسرا ویڈیو گیمز میں فلم کی نسبت ہیرو کو دیکھ کر الو بننے کے بجائے خود ہیرو بننے کا موقع تھا، لہٰذا نئی نسل فوراً وقت کے تقاضے کے مطابق ان گیمز کی طرف منتقل ہوئی، جس میں ٹیکنالوجی بھی اور اونر شپ بھی۔ الو ہی الو کے بجائے ریوڑیاں ہی ریوڑیاں۔

سینما والے بالے اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ ان کے دور کی چیز فلم بینی میں پکڑے جانے کا موقع بہت کم تھا، چونکہ سینما گھر خانقاہوں جتنے دور دراز تھے، جب کہ اس کے بعد والی نسل کی بدقسمتی تھی کہ وڈیو گیم شاپس گھروں کے پاس گلیوں میں ہوتی تھیں، جہاں پکڑائی بھی آسان اور پھر بالمشافہ ٹھکائی بھی۔ اسٹریٹ فائٹر میں ’کین، ریو‘ کے ساتھ مارکٹائی اور پھر دکان سے لے کر گھر میں ٹھکائی؛ بلکہ ٹھکائی در ٹھکائی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ کراچی میں ’’اصلی اسٹریٹ فائٹ‘‘ تیس سال تک متواتر جاری رہی۔ اِس شہر گردی میں گیم کی طرح ’ناک آؤٹ‘ کے بھی تین مرحلے تھے: اغوا، ٹارچر اور پھر بوری بند!

خیر، آج کل کے بچے اس پابندی وغیرہ کو وی پی این میں آرام سے اڑا دیتے ہیں۔ بھانجے کو فون کیا کہ اب کیا مصروفیت ہے؟ جواب آیا: ’’ماموں جی پب جی۔‘‘ پابندی ہے، کیسے؟ بھانجے نے اپنے دوست کو مشن بتاتے ہوئے کہا: ماموں کیا بات کرتے ہیں؟ وہی پرانا نسخہ (یعنی وی پی این)۔ ویسے آپس کی بات ہے، سب سے زیادہ ویڈیوز میں نے یوٹیوب پر پابندی والے دور میں ہی دیکھی تھیں۔

کہا جارہا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب ٹیکنالوجی اس قدر حاوی ہوجائے گی کہ مستقبل کی جنگیں بھی ورچوئل اور فوجیوں کے بجائے روبوٹ سے لڑی جائیں گی۔ پھر تو ہمارے مستقبل کے ’محافظ‘ اس ورچوئل جنگ کی آگاہی کی حد تک ٹریننگ لے رہے ہیں۔ بڑے تو سامنے نظر آنے والی بدلی ہوئی دنیا میں بالکل نکّو محسوس ہورہے ہیں۔

اگر واقعی کوئی ایسا شدید ذہنی، جسمانی اور جانی خطرہ ہے تو پب جی یا کسی اور ایسی چیز پر پابندی لگانے میں حرج نہیں۔ اس طرح سے پہلے ایک گیم بلیو وہیل تھا، لیکن کہا جاتا ہے کہ اس کی ٹاسکس مکمل کرنے میں باقاعدہ خودکشی شامل تھی اور کئی خودکشیاں رپورٹ بھی ہوئیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ غیر تصدیق شدہ بات ہے۔ بات یہ ہے کہ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کن چیزوں پر اور جدید ٹیکنالوجی پر کہاں تک پابندی لگا سکتے ہیں؟

خودکشیوں کا رجحان خطرناک تر ہوتا جارہا ہے جس میں بیک وقت کئی عوامل شامل ہیں، جیسا کہ عدالت میں پب جی پر پابندی کے خلاف درخواست میں کہا گیا ہے: اسکول، کالج میں محبت کی خاطر بچے خطرناک قدم اٹھالیتے ہیں، تو کیا تعلیمی ادارے بند کردیئے جائیں؟ اسی طرح محبت میں ناکامی پر تو خودکشیاں سب سے زیادہ ہیں۔ تو کیا دن رات پیار و محبت کا پرچار کرنے والے ڈراموں اور فلموں کو پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا جائے؟

اگر واقعی کوئی خطرہ ہے بھی تو بین لگا دینا شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبانا ہے۔ چند کیس سامنے آئے اور ہماری تن آسان انتظامیہ نے پرزور تحقیق، ماہرین سے مشاورت اور قانون کے تقاضوں کے بجائے ہمیشہ کی طرح پابندی لگانے ہی کو سب سے آسان جانا، جسے بچوں نے وی پی این سے خاک میں اڑا دیا۔ آج کل کے بچے ٹیکنالوجی کے باوصف ہم سے کہیں آگے ہیں۔ پابندی کی سزا تو پھر بھی قابل برداشت ہے، اگر بچوں نے ہمیں پب جی کھیلنے کی سزا دے دی تو…؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

منصور ریاض

منصور ریاض

بلاگر اردو میں تھوڑا لکھتے اور انگریزی میں زیادہ پڑھتے (پڑتے) ہیں، پڑھا لکھا صرف ٹیکنالوجی جاننے والوں کو سمجھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔