منفی ایک کا مطلب ’منفی ایک‘ نہیں ہوتا!

شہباز علی خان  جمعـء 10 جولائی 2020
سیاسی تھیٹر میں منفی ایک کی گنجائش آج کل کے حالات میں نکالنا ممکن نہیں۔ (فوٹو: فائل)

سیاسی تھیٹر میں منفی ایک کی گنجائش آج کل کے حالات میں نکالنا ممکن نہیں۔ (فوٹو: فائل)

نومبر 1988 میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرانے کا اعلان کیا گیا مگر پھر صدر کی فضائی حادثے میں شہادت کے بعد سینٹ کے چیئرمین غلام اسحاق خان نے صدر پاکستان کا عہدہ سنبھال کر طے شدہ شیڈول کے مطابق نومبر ہی میں جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے اور یوں پیپلز پارٹی اول نمبر پر آئی جبکہ اسلامی جمہوری اتحاد نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے سندھ میں واضح اکثریت حاصل کی جبکہ اسلامی جمہوری اتحاد نے پنجاب کا تخت سنبھالا۔

صدر نے پیپلز پارٹی کی شریک چیئر پرسن بے نظیر بھٹو کو مرکز میں حکومت بنانے کی دعوت دی تاہم اسے چھوٹے سیاسی گروپوں اور آزاد اراکین کے ساتھ مل کر حکومت بنانا تھی۔ اس قیادت سے پاکستانی سیاست کی بے پناہ توقعات تھیں۔ لوگوں کو امیدیں تھیں کہ ایک نیا پارٹی سسٹم وضع کیا جائے گا جو حکومت کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ چھوٹے صوبوں کی مرکز سے اجنبیت کو ختم کرنے کے علاوہ عام لوگوں کے معیار زندگی کو بھی بہتر کرے گا۔ مگر بیس ماہ کی مدت کے بعد یہ حکومت برطرف کر دی گئی۔ اکتوبر 1990 میں نئے انتخابات کا اعلان کیا گیا۔ اب کی بار نواز شریف نے وزارت عظمی کا منصب سنبھالا۔ مگرپھر یہ حکومت بھی اپنی پیشرو حکومت کی طرح بدعنوانی، اقربا پروری اور بد انتظامی کے الزامات کے ساتھ 1993 کو رخصت کر دی گئی۔

8 اکتوبر 1993 کو انتخابات کے بعد بے نظیر بھٹو نے دوسری بار وزارت عظمی کا منصب سنبھالا اور انہی کے قریبی ساتھی فاروق لغاری نے 13 نومبر 1993 کو مسلم لیگ کے صدراتی امیدوار وسیم سجاد کے مقابلے میں صدر کا عہدہ سنبھالا۔ مگر تین سال بعد صدر محترم نے بدعنوانی، اقربا پروری اور بد انتظامی، ملکی سالمیت کی بنا پر بے نظیر حکومت کو برطرف کر دیا۔ 3 فروری 1997 کو انتخابات کروانے کا اعلان ہوا اور نواز شریف نے دو تہائی اکثریت سے، بھاری مینڈیٹ کے ساتھ، وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالا۔ پیپلز پارٹی کا پنجاب میں صفایا ہوچکا تھا۔

اقتدار نواز شریف کےلیے نیا نہیں تھا۔ وہ اس سے پہلے پنجاب کے وزیر اعلی اور وزیرِ اعظم پاکستان بھی رہ چکے تھے اور بہت سارے سبق بھی پڑھ چکے تھے جبکہ جولائی 1993ء میں قبل از مدت، اقتدار کے ایوان سے باہر کر بھی کیے جا چکے تھے۔ تو یہ توقع تھی کہ سابقہ تجربات کی روشنی میں وہ زیادہ محتاط رویہ اپنائیں گے تاکہ قومی اسمبلی اپنی آئینی مدت اور خود اپنے وعدے پورے کرکے ملک و ملت کی خدمت کر سکے۔ مگر ان کی ترجیحات اپنی جماعت کو مضبوط کرنے، کرپشن، لوٹ مار، بے روزگاری اور بد امنی کے خاتمے کے بجائے اپنے اقتدارکے تحفظ کے گرد گھومنا شروع ہوگئی۔ عجلت میں آئین میں ترمیم کا بل ایک ہی دن میں قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظور کرواتے ہوئے اعلان کیا کہ ہم نے جمہوریت کے پاؤں میں پڑی زنجیر کاٹ دی ہے۔ اس بل کے مطابق صدر اور گورنروں کا حکومت برطرف کرنے اور اسمبلی توڑنے کا اختیار ختم کر دیا گیا تھا۔ صدر اور وزیر اعظم کے اختیارات غیر متوازن ہو کر رہ گئے تھے۔ دوسری طرف پارلیمنٹ، قومی و صوبائی ارکان کا جمعہ بازار بھی مزید کھل گیا تھا۔ سیاسی نظام میں ایک ایسا خلا بنا دیا تھا جسے اب اداروں کو آگے بڑھ کر پورا کرنا تھا، اور پھر ہوا بھی یہی۔

آئین میں ایسی ترامیم کی بھرمار ہو رہی تھی جس سے نظام میں جہاں ماضی کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ کرپشن، اقربا پروری اور لاقانونیت بڑھ چکی تھی، وہاں نظام میں جمہوریت کی جگہ شخصی آمریت نے لے لی تھی اور اسے اب اپنے اقتدار کےلیے جماعت کے ارکان سے زیادہ ریاستی اداروں کی مدد درکار تھی۔ سرکاری خزانہ اب موروثی جائیداد کی طرح بنا دیا گیا تھا جسے اپنی مرضی سے جب اور جہاں چاہا استعمال کر لیا؛ اور نتیجہ آج بھی یہی ہے کہ ہر آنے والا حکمران سب سے پہلا دکھ یہی بیان کرتا ہے کہ پچھلوں نے خزانہ خالی کر دیا ہے اب وہ کیا کھائے، کیا کمائے، کہاں لگائے اور کیا بچائے؟

آج کل اسلام آباد کی فضاؤں میں ’’منفی ایک‘‘ کی گونج نے کئی اجسام میں جان بھر دی ہے۔ کچھ نے شیروانیاں ڈرائی کلین کےلیے دے دی ہیں تو بعض نے نئی سلوانے کےلیے درزی کو سائز بھی دے دیا ہے جبکہ ہمارے سیاسی تھیٹر میں منفی ایک کی گنجائش آج کل کے حالات میں نکالنا ممکن نہیں۔ جب بھی ڈیلیٹ کا بٹن دبایا جاتا ہے تو صرف ’سلیکٹ‘ کرکے ’ڈیلیٹ‘ بٹن نہیں دبایا جاتا بلکہ ’کنٹرول اے‘ (سلیکٹ آل) کے ساتھ دبایا جاتا ہے؛ اور پھر سب کچھ اُڑ جاتا ہے۔

ماضی میں منفی ایک کا فارمولا کراچی کی ایک جماعت پر لگایا گیا تھا مگر اس کے بعد اسی جماعت سے دو تین گروہ پیدا ہوگئے اور اس کے بعد ہر حکومت وقت کو انہیں اتحادی بنانے میں جو خواری اٹھانا پڑتی ہے اس کے بارے میں زیادہ کیا بات کرنا۔

ہمارے بیشتر سیاستدان پست قد ہیں اور ان کا یقین کامل اس پر ہے کہ انہیں عوام سے فقط ووٹ لینا ہے اور قد آور بننے کےلیے انہیں اور راستے تلاش کرنے ہیں۔ یہ ایک ایشو نکالتے ہیں اور پھر ساری توجہ اس پر صرف کر دیتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کا سب سے بڑا مسلئہ پہلے ہوا بازوں کی جعلی ڈگریوں اور لائسنسز کا تھا، اب اس سے بڑا عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ کا ہے؛ اور جیسے ہی یہ حل ہوگا تو پاکستان کے سارے مسائل ختم ہو جائیں گے۔ آٹا، چینی، پیٹرول، سب بحران ختم ہو جائیں گے۔

ہم اخلاقیات کی نچلی سطح تک گر چکے ہیں اور ایسا تب ہوتا ہے جب معاشروں میں اداروں کے بجائے افراد کی حکمرانی ہوجائے؛ اور جب ادارے اپنے قانون اور ضابطہ اخلاق کے بجائے طاقتور عناصر کے ساتھ ہوں تو وہاں اخلاقیات کا بحران پیدا ہونا لازمی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ یا ادارے جو قیادت پر سوال اٹھاتے ہیں، ان کی اپنی اخلاقیات کا معیار کیا ہے؟ ہمارے تمام رہنماؤں کو اب مل کر یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ آج کے حالات میں کوئی بھی اب سڑکوں پر اس طرح نہیں آئے گا اور یوں لگتا ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کے پاس عوام کے مسائل کا سرے سے کوئی ٹھوس حل اور حکمت عملی موجود ہی نہیں۔ ان کی صلاحیتیں اور فنکاریاں انتخابات، انتخابی سیاست اور ٹاک شوز میں طوفان بد تمیزی تک محدود ہیں۔

دو کو تو پہلے ہی نفی والے خانے میں ڈال دیا گیا ہے، اب اس تیسرے کو بھی نفی کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اسے بھی نفی کر دیں گے تو پھر… عوام کو اب نہ جمہوریت سے محبت رہی اور نہ ہی آمریت سے عشق، اس کے مسائل نے اسے آدھا ویسے ہی مار دیا ہے اور باقی کی کسر کورونا نے پوری کر دی ہے۔ اب یہ اپنی باقی کی بچی کچھی زندگی میں آسانیاں چاہتے ہیں اور یہ تب ہی پیدا ہوں گی جب سیاستدان اداروں کو اپنے شکنجوں سے آزاد کریں گے اور قانون و آئین کی بالا دستی قبول کریں گے۔ یوں پھر باہر سے یا اندر سے کبھی منفی ایک کا ڈھول نہیں بجے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شہباز علی خان

شہباز علی خان

آپ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹر ہیں، اور فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔