بیٹل گراؤنڈ پب جی... ہمارا گیم آن کرو!

شمائلہ شاہ  ہفتہ 11 جولائی 2020
پب جی سمیت، ای اسپورٹس کے ذریعے پاکستانی نوجوان کھیل اور تفریح کے ساتھ ساتھ پیسہ بھی کما رہے تھے۔ (فوٹو: فائل)

پب جی سمیت، ای اسپورٹس کے ذریعے پاکستانی نوجوان کھیل اور تفریح کے ساتھ ساتھ پیسہ بھی کما رہے تھے۔ (فوٹو: فائل)

میری جان سے پیاری مادرِ وطن پاکستان، جس کے ہر باسی کی حتی الامکان کوشش یہی رہتی ہے کہ وہ دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلے اور کامیابی حاصل کرتا چلا جائے، قدیم سے جدید دور تک ہر شعبے میں کامیابی کا لوہا منوانے میں ہمہ تن مصروف رہا اور آج ٹیکنالوجی کی دوڑ میں شامل ہوچکا ہے۔

آج کے اس جدید دور میں پاکستان میں رہنے والا بچہ بنیادی ضروریات کے ساتھ ساتھ ایک ایسی دنیا سے جڑا ہے جسے گلوبل ولیج کا نام دیا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ تک رسائی تقریباً ہر بچے کومیسر ہے۔ ایک اندازے کےمطابق اس وقت پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد تقریباً 7 کروڑ 63 لاکھ 80 ہزار ہوگئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کل آبادی کا 35 فیصد حصہ انٹرنیٹ استعمال کررہا ہے۔

اگر ہم یہ کہیں کہ انٹرنیٹ کی دنیا اب ’ای لرننگ سے نکل کر ’ای ارننگ‘ کی دنیا بن چکی ہے توغلط نہ ہوگا۔ مختلف طبقوں کے لوگ اپنی اپنی قابلیت کے مطابق نہ صرف پیسہ کما رہے ہیں بلکہ ڈیجیٹل دنیا میں اپنا نام بھی روشن کررہے ہیں۔

ایسی صورتحال میں جہاں پوری دنیا ’ای ورلڈ‘ کاروپ دھارچکی ہے، جس میں تجارت سے لے کر تعلیم تک اور اب ’ای اسپورٹس‘ بھی شامل ہوچکے ہیں، جس میں نوجوان طبقہ ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کھیل اور تفریح کے ساتھ ساتھ ای اسپورٹس کے ذریعے پیسہ بھی کما رہا ہے۔

دنیا بھر میں ای اسپورٹس کو جتنا سپورٹ کیا جارہا ہے، بدقسمتی سے پاکستان میں اس کے برعکس وہ پذیرائی نہیں مل رہی جس سے نوجوانوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔

حال ہی میں ملک بھرمیں عارضی طور پر نوجوانوں کے پسندیدہ آن لائن گیم ’’پب جی‘‘ پر یہ کہہ کر پابندی لگادی گئی ہے کہ پب جی کھیلنے سے بچے خودکشیاں کررہے ہیں۔

پاکستان میں، جہاں ویسے ہی بے روزگاری سے تنگ آکر لوگ خودکشیاں کررہے ہیں، وہاں اس مسئلے کا حل تو نہ نکالا گیا البتہ ای اسپورٹس کے ذریعے کمانے والے بچوں کوبھی بے روزگار کردیا… بھئی واہ، کیا کہنے!

اب نظر ڈالتے ہیں ان بے شعور والدین پر جنہوں نے اپنے کم عمر اور کند ذہن بچوں پر نظررکھنے کے بجائے سارا نزلہ پب جی پر گرادیا کہ بچوں کی موت کا سودا کرنے والی ایپ کو بند کیا جائے! یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اگر آپ کے بچے میں خود اعتمادی کی کمی ہے تو اس میں باقی کے بچوں کا کیا قصور؟

ان سب میں اہم ترین کردار ادا کرنے والے ادارے، پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی سے اور کچھ نہ بن پایا تو لگادی پابندی! ویسے سوچنے کی بات یہ ہے کیا پی ٹی اے پاکستان میں پب جی کھیلنے کےلیے اصول و ضوابط لاگو نہیں کرسکتی تھی؟ سوال تو بنتا ہے کہ کیا پی ٹی اے ان بے شعور والدین سے بھی زیادہ معصوم ہے؟

اچھا چھوڑیئے پی ٹی اے کو، اس سے یا دوسرے حکومتی اداروں سے تو کوئی اچھی توقع کرنا ہی گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ اب ہم بات کریں گے اپنے ان پب جی پلیئرز کی جنہوں نے نہ صرف روزگار کے حصول کا ایک ذریعہ بنایا بلکہ ای اسپورٹس میں اپنا اور ملک کا نام روشن کرنے کا سوچا۔

پب جی پر پابندی لگا کر یہ تو ثابت کردیا گیا کہ حکومتی ادارے نوجوانوں کو روزگار اور تفریح فراہم کرنے میں ہمیشہ سے ناکام ہی رہے ہیں، البتہ آن لائن کے ذریعے پیسے کمانے والوں کو بے روزگار کرنے میں صف اول کھڑے نظرآرہے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔